جن سے فضائیں معطر تھیں وہ پیڑ کٹ گئے (قسط نمبر دو ) تحریر ظہیر دانش

جن سے فضائیں معطر تھیں وہ پیڑ کٹ گئے  (قسط نمبر دو )
ہم نے  جاپان میں ویزہ لے کر رہنے اپنے کاروبار ، یا گھریلو حالات کو سدھارنے تک  کے خواب ہی پلکوں پر سجائے تھے اس سے آگے کا یقین  بھی نہیں تھا یا  خاموشی اس امید پر بہتر تھی کہ لگ گیا تو تیر ورنہ تُکا ہی سہی !!۔
ویسے بھی اکثریت یہ سو چتی تھی کہ لیگل ہوگئے تو پھر کس نے کیا کہنا ہی۔
ہر سال اپنے وطن کا چکر لگانے ۔اپنے پرائے سے ملنے ملانے کے بعد فرصت ہی کہاں ہوگی کہ کسی دوسرے جھمیلے میں پڑیں۔ اس دیار غیرمیں گھر والوں دوستوں رشتہ داروں کے ساتھ  اپنی کھانے پینے کی دکانیں ، کینسر کے مرض سے ناآشنا  میٹھی، ڈبل مرادآبادی،شہزادی تمباکو والے  پان،
گٹکے کا کڑوا کسیلا مزا ،پان کی پیک کا آزادی سے مسجد کی دیواروں سے لے کر چلتے پھرتے راہگیروں سے بچ کر تھوکنا ، گلیوں کے نکڑ پر چبوتروں یا کھیل کے میدانوں میں دوستوں کے ساتھ گپ شپ  ، ٹوٹی پھوٹی  بینچوں اور چارپائیوں پر ہوٹلوں کی چائے  کے ساتھ وہ پرانے ریڈیو  یا ٹیپ ریکارڈوں پر انڈین و پاکستانی گانوں کا ماحول،
شادی بیاہ یا کسی خوشی کے موقع پر گلیوں محلوں میں پردوں پر فلموں کا دیکھایا جانا،یا  مذہبی  و غیر مذہبی اجتماع  پر انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر جہاں صرف جیب کاٹنے یا خواتین سے آنکھ مٹکا کر نے والے منچلوں کے سوا کوئی دہشت گردی نہیں تھی  ،
بسوں میں لٹک کر اسکول کالج  جانے والے ایڈونچر ز ، وہ گلیاں وہ چوبارے وہ پان کی دوکانیں وہ چائے کے ہوٹل وہ چھولے ، دہی بڑے ،سونٹ کے پانی کے بتاشے ایسے آسیب تھے کہ جاپان کی تمام سہولیاتی منتروں کے  باؤجود ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے تھی۔
اس جاپان میں کام کے دوران بھی وہ  جذباتی رشتہ ٹو ٹنے نہیں پاتا تھا ۔ بہت سے دوستوں کو اپنے  پیاروں کے اس جہاں سے گذرجانے پر ان کے غم میں روتے دیکھا ۔ایک رونے والے کے ساتھ دسیوں کاندھے ہوتے تھے جو اس کو دلاسہ دیتے ۔ اس کے غم کو اپنا غم سمجھتے ۔ کون سا ایسا مسئلہ تھا جو دوستوں سے ڈسکس نہیں کیا جاتا سننے والے رازوں کے امین کان اس وقت وافر مقدا رمیں دستیاب تھی۔ ٹیلیفون نہ ہونے کے باؤجود سینکڑوں میل دور دراز علاقوں میں کام کرنے والے دوستوں کے تمام معاملات سے ایسے باخبر ہوتے کہ وہ اس وقت کہاں ہوں گے کیا کررہے ہوں گے  آپس میں ایسے جذباتی و روحانی رابطے کہ جس کا آج کے الہٰ دینی چراغ یعنی موبائل فونز دور میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا
اپنے اپنے ہانڈی وال یا روم میٹس کے ساتھ چھوٹی چھوٹی شرارتیں،لڑائیاں ، ایک دوسرے سے روٹھ جانا، پھر کسی نا کسی طرح مان جانا۔ یہ وہ دور تھا کہ جس کو آج بھی یاد کر تے ہیں تو پلکیں بھیگ جاتی ہیں۔ وہ بھی کیا دن تھے کیا لوگ تھی۔ جن میں سے کچھ تو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
’’ وہ دن وہ محفلیں وہ شگفتہ مزاج لوگ    موج ِ زمانہ لے گئی نا جانے کس طرف  ‘‘
ہمارے وہ دوست جو اس دنیا میں نہیں رہے  اللہ سے دعُا ہے کہ رب العالمین ان کی مغفرت فرمائے ان کے درجات کو بلند فرمائے اور جو اس دنیا میں کسی پریشانی مصیبت میں مبتلا ہوں اللہ ان کی غیب سے مدد فرمائے (آمین )۔
خلوص ،محبت ،بردباری، روادری کا یہ سہانا دور نامحسوس طریقے سے اتنی جلد گذر گیا کہ پتہ ہی نہیں چلا ۔ جب احساس ہوا تو لگا کہ ان کے بغیر زمانے بیت گئے جن کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے۔
آپس میں رنجشیں، لڑائیاں، گلے شکوے تو پہلے بھی ہوتے تھے لیکن  نا جانے یہ کیا ہوازمانے کو کہ کوئی رنجش چھوٹی نا رہی، گلے شکوے پہلے کی طرح بے ضرر نہیں رہے ، بزرگ بزرگ نا رہا چھوٹو ں کا لحاظ ختم ہوگیا۔ خلوص محبت ،بھائی چارگی بردباری رواداری ،احساس مروت کے گلشن کس طرح برباد  ہوئے  ’’  نا اہل لوگ ان مسندوں پر آگئے جس کے وہ اہل نہیں تھے   ‘‘  اپنے جائز ہدف کو پور ا کرنے کے بعد  مینوں مینوں والی  بیماری ہمارے اندر سے باہر آنا شروع ہوئی اس بیماری کو یہاں کی ویب سائٹس چلانے والے ہمارے دو سینئر دوستوں نے پھلنے پھولنے کے لیے،
خوابی زمین نا صرف فراہم کی ، بلکہ انہوں نے جسے چاہا اسے لیڈر بنادیا  جن کی گھر یا دوستوں تک میں نہیں سنی جاتی تھی  جن کا کہا اس کی اپنی سمجھ میں نا آتا ہو اس کو بیان کہہ کر خوبصورت سرخیوں سے سجا یا گیا ۔
خیال ان کا الفاظ خود کے جو منہ میں آیا سنا تے چلے گئے  اس کا انجام وہی ہونا تھا جو میں کئی سال پہلے اپنی تحریروں میں لکھ چکا ہوں جس کا عنوان تھا ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہوگا۔
بلا وجہ بے مقصد خود ساختہ من پسند گروپس بنوائے گئے اور ان کے ہر شخص کو یہ احساس دلایا گیا کہ وہ ہی اس جاپان میں پاکستان کیمونٹی کے مسیحا ہیں وہ ہی وہ ہونہار لیڈر ہیں جس کی تمنا اپنی اپنی دھن میں مگن جاپان کے مقامی لوگوں کی طرح تمام سہولیات وہ مراعات سے آراستہ پراستہ پاکستانی کر رہا تھا۔
انہیں یہ احساس دلایا گیا کہ وہ ہمارے اخبار یا ویب سائٹس کے ذریعے اس وقت دنیا بھر میں اور خصو صاً جاپان میں سب سے اعلیٰ و باوقار سماجی سیاسی ،مذہبی شخصیت ہیں۔انھیں مذہبی ،سیاسی ، سماجی حوالوں سے  لیڈربنا بنا کر پیش کیا گیا  بار بار کیمونٹی پرمسلط کرنے یا کروانے کی کوشش کیں۔
اور وہ معصوم لوگ خود ساختہ قائدین ملت بھی جب اسی ہی خوش فہمی کا شکار ہو گئے تو  انہیں جاپان کی پاکستان کیمونٹی کوپاک کرنے کا علم سے خالی خود ساختہ  خیال پر ملال آیا اور  انہوں نے  ان ویب سائٹس کے ماسٹروں کو اان ہی کے  ہنٹر سے ان ہی کی بنائی ہوئی سلطنت یا رنگ میں آنے اور جانے کے اصول قوائد ضوابط جھاڑنا شروع کیئے تو جاپان کے خود ساختہ بادشاہ گروں کا دماغ  بھنوٹ ہوگیا۔ انہوں نے پھر وہی کیا کہ ان خود ساختہ ،سیاسی ،سماجی ،مذہبی لیڈران کو ان کی اوقات بتانے کے لیے اپنی بنائی گئی مفاد پرستی ، خوش فہمی، ذاتی انا، خود غرضی کی عمارت میں انارکلی کی طرح چنوانے کی کوشش کی تو پھر ظاہر ہے اس کا رد عمل تو ہونا ہی تھا ۔ جن مذہبی ،سیاسی ،سماجی ساختہ یا خود ساختہ قائدین کو ویب سائٹس کے ذریعے  ناصرف جاپان کی بلکہ دنیا کی  سب سے اعلی شخصیت قرار دیا گیا تھا اور یہ قائدین جو اپنی اپنی فوٹو بمعہ بیان جھولیاں بھر بھر کر  اپنے عزیز رشتہ دار سے لے کر گلی کے پان والے تک کو بھیج چکے ہوں ،
اب انہیں یہ بتایا جائے کہ ابے تیری اوقات کیا ہے تُو تو ہماری وجہ سے یہاں تک آیا ہے ورنہ تو کیا تیری حیثیت کیا۔
بیچارے معصوم بھولے بھالے لیڈروں کی  تصویر بازی کے شوق میں ٹھیک ٹھاک  سرمایہ کاری ہو چکی لنگر کے لنگر انہوں نے اپنی خود ساختہ رعایا کے غم میں اپنے ہم خیالوں کے پیٹ میں اتار دیئے ۔
اس کاصلہ یہ کہ اب  انھیں کوئی پوچھتا نہیں۔ بلاناغہ اپنی تصویریں ،بیانات لنگر پر اکھٹا اکثریتی مفت خور لشکر کو دیکھنے کا چسکہ اتنا بڑھ چکا تھا کہ اب اس کے بغیر افاقہ ناممکن تھا۔
ذہنی بیماری  یعنی تصویری دوائی کانعم البدل تلاش کیا گیا اور اس کے لیے جاپان کے اپنے وقت کے کمپیوٹر ماسٹرز کے ذریعے منتخبہ نامی تنظیم نے اپنی ویب سائٹ بنوائی اور اس پر  ناسوروں کو بٹھایا گیا۔
اور ان کو اپنے ہی  دیرینہ دوستوں کی تذلیل کرنے پر تھپکی دی گئی گروپ کے گروپ اسی کام کو کار خیر سمجھتے ہوئے رضاکارانہ شمولیت اختیار کرنے لگے ۔ اپنے ہی دیرینہ دوستوں کے راز کم ظر فوں ، ناسوروں کو بتائے گئے اور ا پنے  دوستوں کی جو عزت افزائی اس مفت خور گرگسوں  کے ذریعے کروائی گئی وہ تماشہ بھی اس جاپان نے دیکھا ۔
منتخبہ نامی گروپ کا صدر کبھی ٹارزن کے روپ میں تو کبھی چھلاوہ کے روپ میں تو کبھی پڑتوس بنا  نا صرف  اپنے ہی دوستوں کی تذلیل کرواتا رہا بلکہ اس ذلت آمیز گھٹیا حرکت پر چلّی سے  ناسوروں کو تھپکیاں دیتا رہا۔
لیکن شائد یہ خودساختہ خوش فہم  جاپان کی جیل کا کھانا کھا کھا کر عقل سلیم گنوا بیٹھے تھے اور یہ بھول گئے کہ اس ہی دنیا میں زندگی گناہوں کی سزا دیتی ہے جسے مکافات ِ عمل کہا جاتا ہی۔ اور پھر وہی احسان فراموش  ناسور جس کو پال پوس کر منہ لگایا تھا اسے زبان ملی تو ان ہی پر بھونکنے لگی۔
ٹارزن نام ر کھ کر مہذب معاشرے میں کرسی اور میزوں پر کھڑے ہوہو کر جذباتی لن ترانیاں سنانا بہت آسان ہے لیکن حقیقت میں  درندے تو دور اپنے ہی پالتووں کے  پاگل ہونے کے بعد ان ناسوروں سے نبٹنا الگ بات ۔
مکافات عمل کے طمانچوں کا لگنا تھا کہ بڑک بازوں کو اپنی اوقات یاد آتی چلی گئی ۔اور بلاخر  ان ہی دوستوں کے پاس جاہ پناہ تلاش کرنے  پہونچ گئے جن کی تذلیل کرنے اور ناسوروں سے کروانے  میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ’’ شرم مگر تم کو نہیں آتی ‘‘  یہ وہ گندے کردار ہیں جن کی وجہ سے آج تک دوست دوست نا رہا ۔ بھائی جیسے تعلقات کو ان ہی جعلی بے وقوف خوش فہم نااہل  لوگوں نے اس قابل بھی نہیں رہنے دیا کہ وہ آج بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملانا تو دور نظریں بھی نہیں ملا پاتی۔ اس ہی بڑک باز جعلی پڑتوس ٹارزن نامی ذہنی مریض کے لیے میں بھی اپنے ایک عزیز دوست کو چھوڑ بیٹھا  تھاجس نے اس پڑتوس کے اس عمل کو تنقید کانشانہ بنا  تے ہوئے ایک کالم لکھ مارا تھا جس میں اس سستی شہرت کے مریض شخص نے اپنے ہی پالتو کے ساتھ ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا تھا ۔
اس وقت مصنوعی طاقت کے زعم میں سستی شہرت کے مرض میں مبتلا ٹار زن نامی ذہنی مریض کو سوائے اپنی ذات کے کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا ۔
’’ آپ کو اپنی رسوائیوں کا آیا ہے اب خیال    ہم نے تو اپنے دوست بھی دشمن بنالیئے‘‘
منتخبہ کے  دیرینہ دوستوں عہدیداران و ممبران کے درمیان نفرت کے بیج بونے والے ناسور کا جب گلا پکڑا تو مگرمچھ کے آنسو بہانے کی خصوصی تربیت یافتہ ناسوروں نے روایتی ٹریننگ کے ذریعے یعنی رو پیٹ کر معافی مانگی ۔
لیکن منتخبہ نامی تنظیم کی ویب سائٹ سے بھی ان ناسوروں کی تسلی نہیں ہوئی اور ناپاک نیٹ نامی ایک اور انتہائی شرمناک ویب سائٹ بنوا کر شریف  عزت دار مخالفین کی خواتین تک کو ذلت کا نشانہ بنایا گیا۔
جس کے کچھ کرداروں نے ایک مخصوص ناسور کی اس شرمناک حرکات پر اسے روکنے کی کوشش کی لیکن جس نے باپ کو باپ نا کہا ہو وہ پڑوسی کو چا چا کیسے کہتا۔
جس  نے اپنی خواتین سے لے کر بھائیوں  اور بچوں کے متعلق جو نازیبا پیشن گوئیاں اور مخبری کی ہوں وہ کیسے کسی کی عزت محفوظ رکھ سکتا تھا۔  تمام شہرتی مریدان ان ناسوروں کے مگرمچھی آنسوؤں ،کے فریب میں آچکے تھے اور ازراہ ِ ہمدردی دل کھول کر ہر طرح سے ناسورؤں کی مالی مدد بھی کی۔
وہی دوست جو ان ناسوروں کی پشت پناہی خلوص دل سے اچھی نیت کے ساتھ کر رہے تھے انھیں جب اس سازشی ناسور کے بارے میں علم ہوا تو دیر ہو چکی تھی۔ یہ وہ ناسور تھا جس نے اپنے کسی محسن کو نہیں چھوڑا چھوٹی موٹی غلطیاں تو ہر انسان سے ہو ہی جاتی تھیں۔ لیکن جس طرح منتخبہ کی ویب سائٹ سے شریف شرفاء کی پگڑیاں اچھالی گئیں ۔ ناپاک نیٹ کے ذریعے جس طرح کارٹون بنا کر لوگوں کو ذلیل کیا گیا شریف خواتین کو اپنی گھر یلو خواتین کی طرح سمجھ کر ان کو رسوا کرنے کی شرمناک حرکتیںکیں  وہ ابھی لوگ بھولے نہیں ہیں۔
میں نے اس وقت بھی ان ناسوروں کے خلاف لکھا لیکن چوہدری شاہد بھائی نے اسے شائع نہیں کیا ان ناسوروں کے خلاف میری تحریر کو شائع نا کرنے پر ہی میر ا  مقامی نیٹ اخبار کے مدیر اعلی ٰ سے  اختلاف ہوا تھا ہم نے اس وقت بھی مدیر اعلیٰ صاحب  سے یہی کہا تھا کہ اگر ان ناسوروں کو نہیں روکا گیا تو ان ناسوروں کے جواب میں ایک کی جگہ دس گندی ویب نکلیں گی اور  اس وقت کسی کے بس میں نہیں ہوگا کہ وہ انھیں روک سکیں ۔
ظلم اتنا ہی کرنا جتنا برداشت کر سکو۔ لیکن  لوگوں نے ہماری اس سچائی کو کسی کمزور کی بڑک بازی سے زیادہ اہمیت نہ دی یا کسی دیوانے کا خواب ہی سمجھا ۔ ہم بھی کمزور تھے احتجاج سے زیادہ کر بھی کیا سکتے تھے سو چپ سادھ لی ۔ لیکن قدرت نے دوبارہ ان ہی ظالم ناسوروں کے لیے مکافات عمل کا مچان تیار کیا اور پھر مکافات ِ عمل کے طمانچوں کے پڑنے کی دیر تھی کہ وہی لوگ جو ناسور تھے سارے زمانے کے واسطے اب در در پر جاکر  مدد کی دوہائی دیتے  پھر رہے تھے ۔
کاش  سمجھتے بھی انھیں یہ رونے والے    حادثے ہیں ابھی جو شہر میں ہونے والے
(جاری ہے )
ظہیر دانش

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.