لاتوں کے بھوت کی جوتوں سے پوجا کئے بغیر
نئے پاکستانی سفیر اور ان کے افسرون کا دماغ درست نہیں ہوگا
تحریر: حسین خاں ۔ (ایم۔ای) ٹوکیو
میں گذشتہ 40 سال کے عرصہ سے یہی دیکھتا چلا آرہا ہوں کہ جب بھی کوئی نیا سفیر اور نئے افسر جاپان آتے ہیں تو ان کے دماغوں میں وہی خنّاس بھرا ہوا ہوتا ہے کہ وہ کوئی آسمان سے اُتری ہوئی پاک اور پوتّر مخلوق ہے اور پاکستان کمیونٹی جانوروں کا کوئی ریوڑ ہی۔ گویا انھیں جاپان میںاس لیے نازل کیا گیا ہے کہ خوب ہنٹر مار مار کر اس ریوڑ کو ہانکتے رہیں۔ انگریز تو چلاگیا لیکن جاتے جاتے اپنی سِول سروس کے ذریعہ وہ ایک ایسا نظامِ تربیت چھوڑ کر چلا گیا کہ اس کے جانے کے بعد بھی پک وہند میں کالے انگریزوں کی پیداوار جاری رہی۔ لیکن جاپان کی پاکستان کمیونٹی نے ہمیشہ ایسے لاتوں کے بھوتوں کی جوتوں سے پوجا کرکے ان کے دماغوں سے افسر شاہی کا بھوت نکالا ہی۔ جب یہ افسر اور ایسے سفیر جاپان سے واپس گئے ہیںتو‘انسان‘ بن کر واپس گئے ہیں اور ان کے دماغو ں سے وہ سارا خنّاس اُتر چکا ہوتا ہے جس کو لے کر یہ جاپان آئے تھی۔
جب میں پاکستان ایسوسی ایشن کا صدر تھا نئے نئے آئے ہوئے ایک سفیر صاحب کو مجھے یہ بتانا پڑگیا تھا کہ آپ کی حیثیت ہمارے ایک نوکر سے بھی زیادہ نیچے گری ہوئی ہی۔آپ ہمارے نوکر کے بھی نوکر ہیں۔حکومتِ وقت عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر عوام کی خدمت گار ہونے کا اعلان کرتی ہی۔اور آپ ہم جیسے عوام کی خدمت گارحکومت سے تنخواہ لے کر اس حکومت کی نوکری کرتے ہیں۔ آپ کو تنخواہ اس بات کی نہیں دی جاتی کہ آپ ہمارے مطالبات کو رد کریں۔آپ کی تنخواہ اسی صورت میں حلال ہوگی جب کہ آپ ہم جیسے حاکموں کے ہر جائز مطالبہ کو اپنے حاکم کا ایک حکم سمجھیں اور اپنی قانونی حیثیت یہ سمجھیں کہ آپ ہمارے اس حکم کو ماننے سے انکار کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتی۔ اب ایک آزاد ملک میں عوامی جمہوریت کا زمانہ آگیا ہی۔ انگریزوں کے غلامی کے دور کی سِول سروس تربیت پانے والے افسروں کا اب پاکستان جیسے آزاد ملک میں کوئی مقام نہیں رہا۔
ایک سفیر کہا کرتے تھے کہ آپ لوگ عزّت دیں گے تو آپ کے ملک کے سفیر کی عزّت ہوگی۔ میں نے جواب دیا کہ آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں۔ میرا بھی اس بات سے پورا پورا اتفاق کرتا ہوں بشرطیکہ وہ سفیر بھی ایسے کام کرے کہ پاکستان کمیونٹی اس سے خوش ہوسکی۔ورنہ عزّت دینے کے بجائے ہر موقع و محل پر گالیاں ہی دیں گی۔
بالعموم اپنی کبریائی کے گھمنڈ میں وہ افسر مبتلاء ہوجاتے ہیں جو مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک کے کسی پاکستانی سفارت خانہ میں کچھ عرصہ کے لیے رہ کر آئے ہوں۔ ان ممالک میں زیادہ تر اَن پڑھ پاکستانیوں کامزدور طبقہ رہتاہی۔ ان کے درمیان ہمارے افسر کانا راجہ بنے رہتے ہیں۔ اپنے آپ کو کوئی ’بڑی چیز‘ سمجھنے کے زعم میں مبتلاء ہوجاتے ہیں۔ لیکن جاپان میں ان سے زیادہ پڑھے لکھے اور کاروبار میں کامیاب بزنس مین پاکستانیوں سے ان کا پالا پڑتا ہے جو ان کی نکیل پکڑ کر ان کو سیدھا کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم رکھتے ہیں۔
بعض سفیر اتنے سمجھدار ہوتے ہیں کہ وہ سفارت کے فرائض سنبھالنے کے فوری بعد اپنے ان پرانے افسروں سے بریفنگ لیتے ہیں جنھیں کمیونٹی نے ٹوکیو میں ’انسان‘ بنے رہنے کی تربیت پہلے ہی سے دی ہوئی ہوتی ہی۔ ان کے دل و دماغ سے کالے انگریز والے نقوش کو کھرچ کھرچ کر نکال کر جاپان کی کمیونٹی الف ،ب ، سے شروع کرکے ان کو یہ سبق سکھاتی ہے کہ اپنی افسری کی تاناشاہی کودریابرد کرکے کمیونٹی کی خدمت کے جذبہ سے سرشار ہوکر جاپان سے واپس جائیں۔
ٍ اس وقت سارے پرانے افسر جاپان سے واپس جاچکے ہیں۔ سارا عملہ نئے افسروں سے یکایک بھر دیا گیا ہی۔ یہ ہمارے وزارتِ خارجہ کی غلطی ہے کہ ایک ہی وقت میں سارے پرانے افسروں کے تبادلے کر کے سفیر سے لے کر چپراسی تک نیا اسٹاف بھر دیا گیا ہی۔ اس طرح اب جاپان کی پاکستان کمیونٹی کو پھر مجبور کردیا گیا ہے کہ وہ سفیر سے لے کر چپراسی تک سارے نئے عملہ کی ’جوتوں کی پوجا‘ سے تواضع کری۔ ان کے دماغوں سے افسر شاہی کے سارے کیڑے نکالے اور انھیں یہ بتائے کہ ’انسان‘ بن کر کس طرح رہا جاتا ہی۔
ٍ نئے سفیر صاحب پر یا تو پرانے افسروں کی بریفنگ کا کوئی اثر نہیں دکھائی دے رہا ہے یا پھر یہ اتنے نااہل ثابت ہوئے ہیں کہ اپنے اسٹاف پر کوئی کنٹرول نہیں کرسکتی۔ چند دن پہلے پاکستانیوں کے ایک وفد نے ان سے ملاقات کرکے اپنی تکالیف سے انہیں آگاہ کیا ۔سفیر صاحب نے جواب تو مثبت میں دیاتھا لیکن ابھی تک وہی نظام سفارت خانہ چلا رہا ہے جس کی شکایات اخبارات میں بھی چھپنے لگی ہیں۔
سفیر صاحب کو بتایا گیا تھا کہ آپ کی تشریف آوری کے بعد آپ اور آپ کے افسروں اور سٹاف نے نئی نئی پابندیاں لگاکر سفارت خانہ میں آنے جانے اور پاسپورٹ کے لینے دینے کے اوقات مقرر کرکے سارے پاکستانیوں کے لیے ایک نئی مصیبت کھڑی کر رکھی ہی۔جاپان میں سارے پاکستانیوں کی اپنی ہی یا جاپانی کمپنیوں میں اتنی مصروفیت رہتی ہے کہ وہ ذرا ذرا سی باتوں کے لیے بار بار اپنی کمپنی سے چھٹّیاں لے کر دور دور سے اپنا ایک ایک دن پورا ضائع کرکے سفارت خانہ کے چکّر لگاتے رہیں ۔پاکستانیوں کے لیے ان مشکلات کو پیدا کرنے کا حاصل اس کے سواء کچھ اورسمجھ میں نہیں آتا کہ اگر سفارت خانہ میں جذبہِ خدمت سے ایمانداری سے محنت کرکے پاکستانیوں کے کام جلد از جلد نمٹانے کا داعیہ موجود بھی ہو تو ایسے ایماندار عملہ کوبھی حرام خوری کی تربیت دی جائے کہ تم ایک دن کا کام 2 دن میں کرو۔جلدی کیا ہی۔ دن بھربار بار چاء پینے اور سگریٹ نوشی میں گذارتے رہو اور جب حرام خوری کرتے کرتے تھک جاؤ تو پھر کسی پاکستانی کے کام کی فائیل کو ہاتھ لگاؤاور ہر پاکستانی کے بار بار چکّرلگواؤ اور اسکو تمہاری چاپلوسی پر مجبور کرو اوروہ تم سے بار بار التجاء کرتا رہے اور تمہاری خوش آمد میں لگا رہے کہ اس کاکام جلد از جلدکرکے آپ نے اُس کے باپ دادا تک کو اپنا احسان مند بنادیا ہی۔
یہ پاکستان کا سفارت خانہ ہی۔ یہاں پاکستان کا نظام چلتا ہی۔ رشوت ملنے کا تو فی الحال کوئی چانس نہیں ہے ، لیکن اگر پاکستانیوں کو تنگ کرنے اور پریشان کرنے کا انتظام کیا جائے تو اپنا کام جلد کروانے کے چکٓر میں آہستہ آہستہ یہاں بھی وہی نظام آسکتا ہے کہ جس سے نکل کر یہ سفارتی عملہ جاپان آیا ہی۔ بے وقوف تھے وہ پرانے پاکستانی سفیر جنھوں نے جاپان کے سِٹی آفسUYAKUSHO کی نقل اتارنے کی کوشش کی تھی جہان ہر ضرورت مند کا کام 5 سے 10 منٹ کے اندر کردیا جاتا ہے اور کسی آدمی کو ایک ہی کام کے لیے 2 بار آنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔جاپان تو جاپان ہی۔ اس سے ملتا جلتا کوئی کام کرنا گویا پاکستانی سفارت خانہ کی توہین و تذلیل ہے کہ اپنی پرانی پاکستانی روایات کو چھوڑ کر کسی بیرونی ملک کے طور طریقوں کو اپنایا جائی۔ایسا کرنا ہماری قومی روایات کی توہین ہی۔ سفیر کا کام تو اپنی ملکی روایات کا غیر ملکوں میں تعارف کروانا ہوتا ہی۔
ان باتوں کی سفیر صاحب یا ان کے افسروں کے کان پر جُون بھی نہیں رینگے گی لیکن میں سارے پاکستانیوں سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ جس جس کو سفارت خانہ سے جو بھی تکلیف پہنچی ہے وہ ضرور اپنی تکلیف کی تفصیل اخبارات کے لیے لکھ کر اپنی تحریرشائع کروائیں۔آجکل میڈیا کا زمانہ ہی۔ میڈیا کی طاقت سے حکومتیں بھی بدل جاتی ہیںتو کالے انگریزوں کی فرعونیت کیوں نہیں بدلے گی؟
جن جن لوگوں نے پاکستان ایسوسی ایشن کے صدر بننے کے لیے اپنا نام دیا ہوا ہے وہ مختلف طریقوں سے سفارت خانہ پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنی فرعونیت بند کری۔اس طرح کے پاکستانیوں کے حق میں اپنے بیانات شائع کروائیں۔ ہر امیدوار اپنا ایک ایک وفد لے جاکر سفیر سے ملے اور جھوٹے ہی سہی سفیر سے اس کے خلاف وعدے لے کر آئے ۔جاپان میں موجود ہر سیاسی اور مذہبی جماعت بھی اس سلسلہ میں پاکستانیوں کی خدمت کا حق ادا کری۔