مجھے جاپان مسلم پیس فیڈریشن کے چھٹے سیمینار کے بارے میں اردو نیٹ جاپان پر، 7 اکتوبر کو، اور بعد ازاں پاک جاپان نیوز پر 8 اکتوبر کوشائع ہونے والے ایک مضمون کی جانب توجہ دلائی گئی۔ ’’جامعہ ٹوکیو میں JMPF کا ناکام سیمینار– منتظمین کی نااہلی کا ثبوت‘‘ کے نام سے یہ مضمون جناب طیب خان صاحب کا تحریر کردہ ہے۔ خاں صاحب کی تحریریں عام طور پر اچھی اور اصلاحی ہوتی ہیں، اور زبان بھی مناسب ہوتی ہے، مگر مذکورہ مضمون پڑھ کر انتہائی افسوس ہوا۔
افسوس اس بات پر نہیں ہوا کہ اس میں مجھ پر یا میری ٹیم پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ تنقید تو معاشرے کی بھلائی اور بہتری چیز ہے اور میں اسے پسند کرتا ہوں۔
– تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
– یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
یعنی تنقید اگر بامعنی ہو تو اپنی غلطیوں کی اصلاح اور آئندہ بہتری کا باعث بنتی ہے۔ مذکورہ مضمون کو پڑھ کر افسوس اس لیے ہوا کہ اس میں لایعنی تنقید کی گئی ہے، جس کے ساتھ کوئی اصلاحی تجاویز نہیں ہیں۔ مضمون کے عنوان اور متن میں ایسی ہلکی زبان استعمال کی گئی ہے، جو خان صاحب کی شخصیت اور آپ کے اخبار کے شایان شان نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مضمون میں کچھ بنیادی غلطیاں بھی ہیں۔
– شکوہ بیجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور
ہونا تو یہ چاہئے تھا، اور ذمہ دارانہ صحافت کا تقاضا بھی تھا کہ مضمون کی اشاعت سے قبل راقم کا مؤقف بھی معلوم کرلیا جاتا۔ لیکن مدیر نے کسی وجہ سے ایسا کرنا مناسب نہ سمجھا۔ بہرحال اس سلسلے میں کچھ گزارشات پیش ہیں۔ امید ہیں شائع کرکے شکریے کا موقع دیں گے۔
1۔ سب سے پہلے تو مصنف کا شکریہ کہ انہوں سیمینار کے مقصد اور ہمارے مہمان مقرر شیخ محمد فقیہہ کے خطاب کی تعریف کی۔ البتہ ان کے خطاب کو موصوف نے دوگھنٹے پر محیط کردیا، حالانکہ جاپانی ترجمےکے ساتھ 50 منٹ کا خطاب، اور 10 منٹ کے سوال و جواب پر مشتمل تھا۔ اس سے بہرحال یہ اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف کی معاملات پر گہری نظر نہیں، اور وہ تحریر میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔ تعریف میں بھی اور تنقیدمیں بھی۔
2۔ موصوف نے لکھا ہے کہ سیمینار کا پمفلٹ صرف ایک ہفتے قبل بنایا گیا، لیکن یہ بات بھی درست نہیں ہے۔ چھپے ہوئے پمفلٹ کی تقسیم بھی دو ہفتے قبل شروع ہوچکی تھی، اور ای میل اور نیٹ پر اطلاعات کی فراہمی کاکام کئی ماہ سے چل رہا تھا۔ پمفلٹ کی چھپائی میں تاخیر کی بھی کوئی وجہ تھی۔ اور وہ یہ کہ غیرملکی مہمان مقرر کے علاوہ جس دوسری جاپانی شخصیت نے خطاب کرنا تھا، وہ جاپان کی رکن پارلیمان ہیں۔ سیمینار سے ایک ماہ قبل ، جب پمفلٹ چھپنے کے لیےجانے والے تھے، مقرر نے غیرمتوقع پارلیمانی مصروفیات کی بناء پر سیمینار میں شرکت سے معذوری ظاہر کردی۔ اس کے بعد کم وقت میں سیمینار کے مقاصد اور موضوع کے لحاظ سے مناسب جاپانی اسکالر کی تلاش اور ان سے رابطے میں وقت لگنے کے باعث پمفلٹ کی چھپائی میں تاخیر ہوئی۔ زندگی میں بہت سے چیزیں ہمارے کنٹرول سے باہر ہوتی ہیں۔ یہ معاملہ بھی ایسا ہی تھا۔
3۔ اب آتے ہیں ہال میں بچوں کے رونے اور باہر شور کے بارے میں۔
یہاں تو مصنف نے انتہائی زیادہ مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے۔ سیمینار کے شرکاءمیں چھوٹے بچوں والی خواتین (جاپانی و غیرجاپانی، مسلم و غیرمسلم) بھی ہوتی ہیں، اور ان کے بچے کبھی کبھار روتے بھی ہیں۔ مصنف نے اس کی شکایت تو کی ہے لیکن مسئلے کا حل تجویز نہیں کیا۔ شاید انتظامیہ کو ایسی خواتین کو ہال سے باہر نکال دینا چاہئے تھا۔ویسے میرے خیال میں یہ انتظامی نہیں مینرز کا معاملہ ہے۔ اور مذکورہ خواتین بچوں کے رونے کی صورت میں فوراً انہیں باہر لیجا رہی تھیں۔ چند منٹ تو بہرحال اس میں بھی لگتے ہیں۔ ہال کے باہر ٹوکیو یونیورسٹی کے مسلم طلبہ رضاکارارانہ بنیاد پر سیمینار سے متعلق مختلف امور انجام دیتے ہیں ۔ ان میں آنے والے شرکاء کی رجسٹریشن، انہیں کتابچے وغیرہ فراہم کرنا اور ان کی ہال تک رہنمائی کرنا، وقفے سے قبل ہلکے پھلکے کھانے اور چائے کا انتظام کرنا، اور وقفے کے بعد صفائی کرنا وغیرہ۔ نوجوان اس کام کے دوران کچھ پرجوش ہو کر کبھی کبھار اونچے قہقہے وغیرہ بھی لگالیتے ہیں۔ لیکن ان کے شور کی آواز، ٹوکیو یونیورسٹی کے ساؤنڈ پروف ہال میں اسی وقت آتی ہے، جب کوئی باہر جانے یا اندر آنے کے لیے دروازہ کھولے۔ اس لیے زیادہ شور شرابے کی بات کرنا اور شادی ہال سے تشبیہہ دینا، انتہائی درجے کی مبالغہ آمیزی ہے۔
4۔ اور اب آتے ہیں مضمون کے موضوع کی جانب، یعنی منتظمین کی نااہلی اور ناکام سیمینار۔
مصنف نے وہ معیار نہیں بتایا جس کی بنیاد پر کسی سیمینار کو کامیاب یا ناکام قرار دیا جاسکے۔ اسی طرح منتظمین کی کچھ کوتاہیوں کو کس بنیاد پر نااہلی کہا گیا، میں اسے سمجھنے سے قاصر ہوں۔یقیناً میں تسلیم کرتا ہوں کہ شرکاء ، خصوصاً جاپانی شرکاء کی تعداد ہماری توقع سے کم تھی۔ یقیناً اس میں کچھ ہماری کوتاہیاں بھی تھیں اور کچھ حالات بھی۔ اچھی زمین میں بھی ہر سال فصل اچھی نہیں ہوتی۔ لیکن خراب فصل والے سال کسان وجوہات پر غور کرتا ہے، اور آئندہ کے لیے مزید کوششیں کرتا ہے۔ ہم بھی انشاء اللہ آئندہ مزید کوششیں کریں گے، اور اس میں ہمیں تنقید کے ساتھ ساتھ مسلم کمیونٹی کا تعاون بھی درکار ہے۔ ہم چند افراد کوئی ایک سال تک سیمنار کی تیاریوں کے لیے اجلاس منعقد کرتے ہیں۔ یقیناً یہ کسی پر کوئی احسان نہیں، بلکہ اپنی آخرت سنوارنے کے لیے ہے۔ لیکن ہم بھی انسان ہیں، اور ہمیں بھی حوصلہ افزائی اور تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ مالی بھی اور جانی بھی۔ ظیب خان صاحب میرے اچھے دوستوں میں ہیں، اور ہر ملاقات پر یا فون پر گفتگو میں سیمینار کی تیاریوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ لیکن بارہا مدعو کئے جانے کے باوجود انہوں نے کبھی کسی میٹنگ میں شرکت نہیں کی۔ ہمیشہ کام کا عذر پیش کیا۔ لیکن کام کی اور دیگر گھریلو وغیرہ مصروفیات تو سب کے ساتھ لگی ہوئی ہیں۔دعوت دین کے کام کے لیے کچھ قربانی تو دینی ہوگی۔سیمینار کے لیے کوشش کرنے والے تمام افراد بھی اپنے وقت اور پیسے کی قربانی دے کر اسے کامیاب بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
بہرحال، کئی خامیوں اور کم حاضری کے باوجود میں اس سیمینار کو کامیاب ہی سمجھتا ہوں۔ اس لیے کہ دین کے کام میں تعداد یا مقدار نہیں معیار دیکھا جاتا ہے۔ انبیاء اور اولیاء کو بھی لوگوں کی بڑی تعداد تک پیغام پہنچانے میں خاصا وقت لگا تھا۔ ہم تو معمولی سے عام آدمی ہیں۔ پھر یہ کہ اگر ہم چند جاپانی شہریوں تک بھی بلکہ ایک شخص تک بھی اسلام کا درست پیغام پہنچا سکے، تو یہ ہماری چھوٹی سی کامیابی ہے۔ اور یہ کہ سیمینار کا اصل ہدف جاپانی غیرمسلم باشندے ضرور ہیں، لیکن یہ مسلمانوں کے لیے بھی ہے۔ اور اگر کچھ مسلمانوں کو اس سیمینار سے کچھ سیکھنے کو ملا تو یہ سیمینار کی کامیابی ہے۔
اس سیمینار کا انتظام کرنے والی تنظیم JMPF میں کوئی صدر یا چیئرمین نہیں ہوتا۔ صرف معاملات کو مربوط کرنے کے لیے کوآڈینیٹر اور سیکرٹری کے عہدے رکھے گئے ہیں۔ ڈاکٹر عمران الحق ، جن کی طیب خان صاحب نے انتہائی تعریف کی ہے، سنہ 2009 سے 2010 تک اس کے کوآرڈینیٹر رہے ہیں، اور ان کی زیر قیادت دو سیمینار منعقد کئے گئے۔ سنہ 2011 سے یہ ذمہ داری راقم کے سپرد ہے، اور میرے دور میں رواں سال کا سیمینار تیسرا تھا۔ اب تک کے چھ سیمیناروں میں سے شرکاء کا جم غفیر صرف گزشتہ سال دیکھنے میں آیا تھا، جس کی طیب خان صاحب نے گزشتہ سال کے مضمون میں انتہائی تعریفیں کی تھی۔ اس میں میرا یا ہماری ٹیم کا کمال صرف اتنا تھا کہ ہم نے مقرر کے طور پر مناسب شخصیت کا انتخاب کرلیا تھا۔ باقی کمال مہمان یوسف اسٹیس کی کرشماتی شخصیت کا تھا۔
گزشتہ سال سے ہم نے سیمینار کے لیے بلائے جانے والے مقرر کے دیگر مقامات پر خطابات کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے۔ سال رواں کے مہمان مقرر نے سیمنار سے قبل ناگویا ، تسکوبا اور اوتسکا مسجد میں بھی خطاب کیا اور وہاں بھی مسلم و غیرمسلم شرکاء کو اسلام کے مختلف پہلوؤں سے روشناس کروایا ۔ یہ پروگرام بھی بالواسطہ طور پر سیمینار کا حصہ تھے، کیونکہ ان کا انتظام بھی JMPF کے تحت کیا گیا۔
حاصل کلام یہ کہ JMPF کی ٹیم اپنی حد تک جاپانیوں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کی کوشش کررہی ہے۔ اس میں ہماری کوتاہیوں کے باعث کچھ جزوی ناکامیاں بھی ہوتی ہیں، جو ہمارے آئندہ کے ارادوں کے لیے مہمیز کا کام دیتی ہیں۔ میری تمام مسلمانوں سے درخواست ہے کہ اس نیک کام میں تجاویز کی صورت میں، چندے کی صورت میں، عملی شرکت کی صورت میں ، جاپانیوں تک دعوت نامہ پہنچانے کی صورت میں یا کسی اور صورت میں زیادہ سے زیادہ تعاون کریں۔ جزاک اللہ خیر۔
خیر اندیش – محمد انور میمن
کوآرڈینیٹر – جاپان مسلم پیس فیڈریشن
مورخہ 8 ؍ اکتوبر 2013