جاپان میں ٹوٹ جانے پر خود کو جوڑ لینے والے شیشے کی دریافت ،۔
جاپان کی لوک کہانیوں میں ایک کہانی ہے جس میں
کہ
ایک کنیز اپنے مالک کی محبت کو ازمانے کے لئے ایک شیشے کی پلیٹ ٹوڑ دیتی ہے ،۔
محبت کا ٹیسٹ ناکام ہو جاتا ہے اور مالک اس کنیز کو قتل کروا کر اندھیرے کنوئیں میں پھینکوا دیتا ہے ،۔
کنیز ایک چڑیل بن کر آ جاتی ہے اور ہر رات باقی کی بچی ہوئی پلیٹوں کو گنتی رہتی ہے ، پلیٹیں گن گن کر کنیز کی روح مالک کی مت مار دیتی ہے کہ مالک کو بھی خود کشی کرنی پڑ جاتی ہے ،۔
ہائے ، کاش !!۔
کہ
ٹوکیو یونیورسٹی ، خود کو جوڑ سکنے والا شیشہ اس زمانےمیں دریافت کر لیتی تو ، یہ دونوں کریزی بچے مرنے سے بچ جاتے بلکہ تھوڑی سی کوشش سے پنشن بھی پاتے اور ہو سکتا ہے کہ انشورینس کا کوئی اچھا سا پلان لے کر بہت سے بچے جنم دے کر چھوڑ جاتے ،۔
لیکن ایسا نہیں ہوا تھا
اب اکیسویں صدی میں ٹوکیو یونیورسٹی نے ایک ایسا شیشہ دریافت کیا ہے جو کہ ٹوٹ جانے کی صورت میں انسانی ہاتھوں سے اگر ٹوٹی ہوئی جگہوں پر جوڑ دیا جائے تو چند سیکنڈ میں جڑ جاتا ہے، ۔
اور اگر اس کو چند گھنٹے آرام دیا جائے تو شیشہ اپنی اصلی اور پرانی شکل میں مضبوطی سے جڑ جاتا ہے ،۔
تصور کریں کہ اپ ہاکی یا کرکٹ کا میچ دیکھ رہے ہیں ، کرپٹ پاک انتظامی کی سلیکٹیڈ ٹیم کو ہارتے دیکھ کر کوئی چیز اٹھا کر دیوار میں دے مارتے ہیں تو ؟
بیوی کی چخ چخ اور پیسے کے نقصان کا اندیشہ اب ختم ہو جائے گا ،۔
ہماری زبان میں جو شیشے اور دل میں تریڑ پڑنے والے محاورے ہیں وہ بھی بدل جائیں گے کہ
دلوں کی میل کو دور کرنے والی دوائی (خلوص) توصدیوں پہلے دریافت ہو چکی ہے لیکن کوئی استعمال ہی نہیں کرتا ،۔
اور اب شیشے کی تریڑ والی بات بھی کہانیوں کی بات رہ جائے گی ،۔
پروفیسر آئیدا اور ان کے طلبہ ٹیم سے یہ دریافت بھی دیگر بڑی بڑی دریافات کی طرح بلکل حادثاتی طور پر ہو گئی ہے ،۔
ورنہ پروفسر صاحب ایک قسم کی شریش (جوڑنے والی چیز) کو بنانے کی کوشش میں تھے ،۔
تحریر خاور کھوکھر