جاپان میں صارف ٹیکس جس کو “شوہی زے “ کہتے ہیں ،۔
جاپان مقیم زیادہ تر پاکستانیوں کی انکم ہی اس صارف ٹیکس کی واپسی پر منحصر ہے ،۔
مقیم لوگ جس سہولت سے فائیدہ اٹھاتے ہیں اصل میں یہ تورسٹ لوگوں کی سہولت کے لئے ہے ،۔
جاپان میں سن دو ہزار اکیس میں صارف ٹکس کے متعلق ایک اسانی پیدا کی گئی تھی ۔
کہ ٹوریسٹ لوگ شاپنگ کے وقت اپان پاسپورٹ دیکھا کر کہ واقعی جاپان مقیم نہیں ہیں شاپنگ کے وقت صارف ٹیکس کے دس فیصد منہا کر کے ادائیگی کریں گے ،۔
اس سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ ٹوریسٹ ایک دفعہ شاپنگ کے وقت ٹیکس ادا کرئے گا اور ڈیپارچر کے وقت رسیدیں اور پاسپورٹ دیکھا کر ٹیکس کی رقم ری فند کر لے گا ،۔
اب سن دو ہزار اکیس میں دی جانے والی سہولت میں سقم تلاش کر کے کچھ چالاک لوگوں نے سسٹم کو دھوکا دینا شروع کر دیا ہے ،۔
2021 میں حکومت کی جانب سے اس سہولت کو متعارف کرائے جانے کے بعد سے ٹیکس سے استثنیٰ کے اس نظام کاکتنا غلط استعمال کیا گیا ہے ؟
آساہی (خبر رساں)کے مطابق مالی سال 2022 میں، 374 افراد نے ڈیوٹی فری شاپس پر ہر فرد نے 100 ملین ین (ایک اوکھ یعنی دس کروڑ ین)سے زیادہ خرچ کیے، اس سال مجموعی طور پر 170.4 بلین ین جو کہ اوسطاً 450 ملین ین فی شخص بنتا ہے (چار اوکھ پانچ ہزار مان یعنی پنتالیس کروڑ ین)۔
یعنی اوسط ہر شخص نے ساڑھے چار کروڑ ین کی رقم کی بچت کی ،۔
کسٹم حکام نے ایئر لائنز کے تعاون سے ان 374 بڑے خرچ کرنے والوں میں سے 57 افراد کا معائنہ کیا جس میں صرف ایک شخص تھا جس نے ڈیوٹی فری اشیاء کو جاپان سے باہر لے جانے کی تصدیق ہوئی۔
جس کا مطلب ہے کہ ٹورست لوگوں نے بغیر ٹیکس کے خریدا ہوا مال یہیں جاپان میں فروخت کر کے دس فیصد منافع پر فروخت کر لیا ،۔
ہر فرد نے اوسط چارکروڑ پچاس لاکھ کی انکم کمائی جس کا کوئی آڈت نہیں اور اور جاپان میں کہیں خرچ کا کوئی ریکارڈ نہیں ،۔
اس لئے حکومت سنجیدگی سے سوچ رہی ہے کہ اس سہولت کو ختم کر دیا جائے ،۔
پاکستانیون کی بزنس کمیونٹی میں افواہ پھیلی ہوئی ہے کہ حکومت شو ہی زے کی واپسی بند کر ہی ہے ،۔
جو کہ غلط ہے ، بزنس میں لوگ جو شوہی زے واپس لے رہے ہیں وہ بند نہیں ہوں گے ، بلکہ ٹورسٹ لوگ بھی پاکستانی بزن مینون کی طرح ایک دفعہ شاپس (اپ اوکشن سمجھ لیں ) پر شوہی زے ادا کریں گے ، اور ائیر پورٹ پر واپسی کا تقاجا کریں گے جیسا کہ اپ لوگ ہر تین ماھ بعد “ زے مو شو “ میں تقاضا کرتے ہیں ،۔