جاپان میں پاکستان ایسوسی ایشن کے نام سے تین تنظیمیں بن جانا ساری کمیونٹی کے لئے پریشانی کا باعث تھا ۔ تاہم یہ امر باعث اطمینان تھا کہ مختلف اوقات میں مختلف دردمند افراد کی طرف سے کمیونٹی کو متحد کرنے اور ایک متحدہ پاکستان ایسوسی ایشن کے قیام کی کوششیں بھی جاری رہیں ۔ بالآخر ، گزشتہ سال کچھ دوستوں کی کوششیں رنگ لائیں ۔ ان دوستوں کی مخلصانہ کوششوں اور کمیونٹی کے دباؤ سے ، تینوں تنظیموں کی تحلیل اور ایک متحدہ پاکستان ایسوسی ایشن کے قیام پر اتفاق ہوا ۔ تحلیل کے بعد کے عمل پر پیشرفت کے لئے ایک نو رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ، جس میں تینوں سابقہ ایسوسی ایشنوں کے تین تین ارکان کو نمائندگی دی گئی ۔اس نو رکنی کمیٹی کے ذمے بنیادی کام یہ تھا کہ ایک متحدہ ایسوسی ایشن کے قیام کے لئے ایسا الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے ، جس پر کمیونٹی کو اعتماد ہو ۔
راقم کو اس نو رکنی کمیٹی پر دو اعتراضات تھے ، اور وقت نےدونوں ہی درست ثابت کئے ۔ مجھے پہلا اعتراض یہ تھا کہ اس کمیٹی میں تینوں سابق ایسوسی ایشنوں کے علاوہ کمیونٹی کی نمائندگی کے لئے چند اور غیر متنازعہ افراد کو بھی شامل کیا جانا چاہئے ، تاکہ وسیع تر مشاورت ممکن ہو سکے ۔ نو رکنی کمیٹی نے میری اس تجویز کو باضابطہ طور پر تو تسلیم نہیں کیا ، لیکن عملاً کمیٹی کے ہر اجلاس میں کمیونٹی کے کچھ دیگر افراد شریک ہوتے رہے ۔ اس طرح میری تجویز منظور نہ ہونے کے باوجود کمیونٹی کی آراء، نو رکنی کمیٹی تک پہنچنے کا بندوبست ہو گیا ، جو میرا حقیقی مقصد تھا ۔
نو رکنی کمیٹی پر میرا دوسرا اعتراض ، یا یوں کہیے کہ ان سے میرا مطالبہ یہ تھا کہ جلد از جلد الیکشن کمیشن کا اعلان کرکے کمیٹی تحلیل ہو جائے ۔ اس تجویزکا مقصد یہ تھا کہ الیکشن کمیشن کو اپنے کام کی تیاریوں کے لئے مناسب وقت مل سکے ۔ اس تجویز کو بھی تسلیم نہیں کیا گیا اور الیکشن کمیشن کا اعلان کافی دیر سے کرنے کے باوجود ان سے مطالبہ کیا گیا کہ الیکشن ۲۳ مارچ کو منعقد کئے جائیں ۔ لیکن الیکشن کمیشن نے اپنے پہلے ہی اجلاس کے بعد اعلان کیا کہ اتنے کم وقت میں الیکشن کی تیاری ممکن نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ایسوسی ایشن کے انتخابات کے لئے ۱۱؍ اپریل کی تاریخ کا اعلان کیا گیا ۔
الیکشن کمیشن میں جن افراد کو شامل کیا گیا ، ان میں سے چند ، خصوصاً رئیس صدیقی صاحب کی شمولیت پر نجی گفتگو میں دبے لفظوں میں کچھ اعتراضات کئے گئے ، اور اس کے لئے ان کے ماضی کا حوالہ دیا گیا ۔ یہ بھی کہا گیا کہ کسی زمانے میں پاکستان ایسوسی ایشن جاپان کے باقاعدہ انتخابات ہوا کرتے تھے ، لیکن رئیس صدیقی صاحب کے صدر بننے کے بعد سے وہ تسلسل ٹوٹا تھا ۔ لیکن نجی گفتگو میں ان اعتراضات کے باوجود ، باضابطہ طور پر اس سلسلے میں کسی نے کوئی بیان جاری نہیں کیا اور عمومی طور پر الیکشن کمیشن پر اعتماد کا اظہار کیا گیا ۔ اس کی ایک وجہ تو کمیشن میں دوسرے غیرجانبدار ارکان کی تقرری تھی ، چنانچہ یہ توقع تھی کہ ایک رکن کوئی غلط کام نہیں کر سکتا ۔ دوسری وجہ یہ تھی ماضی کے برعکس ، اب رئیس صاحب ایسوسی ایشن کی سیاست سے کنارہ کش ہو چکے ہیں ، اس لئے یہ خدشہ نہیں ہے کہ وہ کسی مخصوص گروپ کا ساتھ دیں گے ۔
بہرحال الیکشن کمیشن کے اجلاس ہوتے رہے ، اور ان کے اعلانات کمیشن کے سیکرٹری ڈاکٹر عمران کے جاری کردہ پریس ریلیز کی صورت میں سامنے آتے رہے ۔ بعد کے واقعات سے معلوم ہوا کہ ان میں اسے اکثر فیصلوں کے لئے شدید بحث و مباحثہ ہوا اور زیادہ تر فیصلے متفقہ نہیں بلکہ اکثریتی بنیاد پر کئے گئے ۔ لیکن یہ سب کچھ جمہوری اداروں میں معمول کی بات ہے ، اس لئے الیکشن کمیشن کے اجلاسوں میں ایسا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ۔
معاملات کی خرابی کا آغاز انتخابات کے بعد ہوا ۔ شہزاد بہلم گروپ کو بعض مقامات پر بوگس ووٹنگ کی شکایت ہوئی ۔ الیکشن کمیشن اگر اچھے طریقے سے اس معاملے سے نمٹتا تو اس کا حل آسانی سے نکل سکتا تھا ۔ الیکشن کمیشن کا اجلاس ہوتا ، اور اس میں شہزاد بہلم گروپ اور دوسرے دو گروپوں کے نمائندوں کی رائے لی جاتی ، شکایات سنی جاتیں ، اور ضرورت کے لحاظ سے پولنگ افسران یا پولنگ ایجنٹوں کو بھی وضاحت پیش کرنے کے لئے بلایا جاتا ، تو یہ مسئلہ خوش اسلوبی سے حل ہوجاتا ۔ الیکشن کمیشن ، دلائل کی بنیاد پرشہزاد بہلم کی شکایات کو مسترد بھی کر سکتا تھا ، اور مذکورہ پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ کا حکم بھی دے سکتا تھا ۔
لیکن اصل مسئلہ اس وقت شروع ہوا ، جب خود الیکشن کمیشن کے ارکان تقسیم ہو گئے ۔ چیئرمین ایک طرف اور بقیہ ارکان دوسری طرف ۔ پھر میڈیا نے جلتی پر تیل کا کام دیا ۔ دونوں فریقوں کے حق میں اور مخالفت میں آنے والے دلائل نے ان کو اس مقام پر پہنچا دیا ، جہاں سے واپسی ان کے لئے مشکل ہو گئی ہے ۔ اگر بیانات ، رئیس صدیقی یا ڈاکٹر عمران الحق یا کسی اور رکن کے کسی اقدام کے حوالے سے ہوتے تو پھر بھی سمجھ میں آنے والی بات ہے ۔ کیونکہ یہ سب لوگ انسان ہیں ۔ نہ ان میں کوئی فرشتہ ہے نہ شیطان ۔ کسی سے بھی کوئی غلطی ہو سکتی ہے ، اور اس پر تنقید بھی کی جا سکتی ہے ۔ لیکن کچھ لوگ بیانات میں اس حد تک چلے گئے کہ اسے اسلام اور کفر کی جنگ بنا دیا ۔ رئیس صاحب ایک دینی شخصیت بھی ہیں ، اور کاروباری بھی ۔ لیکن الیکشن کمیشن کے رکن اور چیئرمین کی حیثیت کا نہ ان کی دینی خدمات سے کوئی تعلق ہے ، نہ کاروباری خصوصیات سے ۔ کمیشن کے رکن یا چیئرمین کے طور پر انھوں نے جو اقدامات کئے ، ان کی تعریف یا ان پر تنقید کمیونٹی کے ہر فرد کا حق ہے ۔ لیکن ان پر تنقید کو اسلام پر تنقید بنا دیا گیا ، جو انتہائی غیر مناسب بات ہے ۔ اسی طرح کمیشن کے ایک اور رکن اور سیکرٹری ڈاکٹر عمران کی کارکردگی کے بارے میں بھی تعریف یا تنقید کی جا سکتی تھی ۔ لیکن کچھ لوگ اسے یہاں تک لے گئے کہ سائنسدان کو الیکشن کمیشن کا رکن ہی نہیں ہونا چاہئے تھا ۔ جب دوسرے ارکان کاروباری افراد ہوتے ہوئے کمیشن کے رکن بن سکتے ہیں تو کوئی سائنسدان کیوں نہیں ۔ کمیشن کا رکن بننے کی سب سے بڑے اہلیت ایمانداری ، اور انتخابات کو انجام دینے کے کام کے لئے ان کی مناسبت ہے ۔ اگر کمیونٹی کسی فرد کو ایماندار اور اس قابل سمجھتی ہے ، تو وہ الیکشن کمیشن کا رکن بن سکتا ہے ، چاہے وہ کاروباری فرد ہو ، صحافی ہو ، سائنسدان ہو یا کسی کارخانے میں ملازمت کرتا ہو ۔ اعلٰی تعلیمیافتہ ہوناتو اضافی خوبی ہے ، یہ نااہلی کیسے ہو گئی ؟ اور پھر ان کے بعد کے اقدامات غلط نہیں تھے بلکہ وہ شروع سے ہی اس کام کے اہل نہیں تھے ، تو پہلے ہی اعتراض اٹھانا چایئے تھا ۔ یقیناً الیکشن کمیشن کا کوئی بھی رکن ، تنقید سے ماورا نہیں ہے ، لیکن تنقید میں بھی اعتدال ہونا چاہئے ۔
الیکشن کے بعد ہونے والی تقسیم کے بعد کئی سوالات اٹھتے ہیں ۔ کچھ کا جواب رئیس صاحب کے ذمے ہے ، اور کچھ کا بقیہ ارکان کے ۔رئیس صاحب کے اقدامات پر جو سوالات اٹھتے ہیں وہ یہ ہیں ۔
1 ۔ کمیشن کے جو ارکان ٹوکیو سے دور رہتے ہیں ، اور الیکشن کے دن رات دیر ہوجانے کے سبب گھر واپس نہیں جا سکتے تھے ، ان کا ٹوکیو میں قیام کے لئے ہوٹل میں کمرہ لینے میں کیا برائی ہے ، جو اس کو آپ نے اتنا اچھالا ؟ اور اگر ارکان کی اکثریت آپ کے گھر کی بجائے اس کمرے کو الیکشن کمیشن کا عارضی دفتر بنانا چاہتی تھی تو اس میں کیا مسئلہ تھا ؟ اور اگر آپ کو کوئی اعتراض تھا تو آپ نے کمیشن کے اجلاس میں اس کو حل کرنے کی بجائے اسے اسکینڈلائز کیوں کیا ؟
2 ۔ آپ نے کئی بیانات میں کہا ہے کہ الیکشن والے دن آپ کو دوپہر سے ہی کاناگاوا وغیرہ میں دھاندلی کی شکایات مل رہی تھیں ۔ تو آپ نے اس وقت کوئی فوری اقدام کیوں نہیں کیا ؟ آپ وہاں ووٹنگ رکوا سکتے تھے ۔ لیکن رات کو سفارت خانےآنے تک نہ تو آپ نے کمیشن کے ارکان سے اس معاملے پر کوئی مشاورت کی ، اور نہ الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں سے اس سلسلے میں کوئی بات کی ۔ آپ کے اور دوسرے افراد کے اخباری بیانات سے ایسی کسی مشاورت کا ثبوت نہیں ملتا ۔
3 ۔ الیکشن کمیشن کا دفتر سفارت خانے منتقل ہونے کے بعد ، آپ کمیشن کے اراکین سے دور(اخباری اطلاعات کے مطابق) ایک امیدوار کے ساتھ کیوں بیٹھے ہوئے تھے ؟
4 ۔ اگر کاناگاوا کے ایبینا پولنگ اسیشن کے نتائج پر ایک فریق نے اعتراض کیا تھا ، تو آپ نے یوکوہاما کے نتائج کو بھی کیوں کالعدم قرار دیا ؟ جب یوکوہاما کی پولنگ پر تینوں امیدواروں میں سے کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا ، تو پورے کاناگاوا میں دوبارہ انتخابات کی بات آپ کس بنیاد پر کر رہے ہیں ؟
5 ۔ اگر آپ الیکشن کمیشن کے چیئرمین کے طور پر مختلف مقامات کا دورہ کر کے حقائق معلوم کرنا چاہتے تھے ، تو آپ کو غیرجانبدار ہونا چاہئے ۔ آپ ایک فریق کے ساتھ کیوں تمام جگہوں پر گئے ؟ آپ نے اپنے طور پر کیوں حقائق معلوم کرنے کی کوشش نہ کی ؟
6 ۔ آپ نے اپنے بیانات کے لئے ایک ہی نیٹ کو کیوں چنا ؟ اس نیٹ کے قارئین دوسروں سے کم یا زیادہ ہو سکتے ہیں ، لیکن بہرحال جاپان میں کئی اردو نیٹ اخبارات موجود ہیں ۔ آپ نے غیرجانبداری سے کام لیتے ہوئے تمام صحافیوں کو بیانات جاری کرنے کی روش کیوں نہ اپنائی ؟
رئیس صدیقی صاحب کے مقابلے میں الیکشن کمیشن کے دیگر اراکین ایک جانب ہیں ۔ ان سے بھی کچھ سوالات ہیں ۔
1 ۔ ہوکائیدو پولنگ اسٹیشن کے نتائج کیوں غلط تھے ؟ آپ لوگوں کے کہنے کے مطابق آپ کے پاس تمام پولنگ افسران کے دستخط شدہ نتائج تھے ۔ تو ہوکائیدو کے معاملے میں کیوں درست اعدادوشمار نہیں تھے ؟ اور اب جب کہ وہ تعداد درست کر لی گئی ہے ، تو اس غلطی کو تسلیم کرے ہوئے اس کی وضاحت کیوں نہیں کی گئی ؟
2 ۔ کمیشن کے جاری کردہ حساب کتاب میں سات لاکھ ین سے کچھ زائد رقم پریزائڈنگ افسران کو اعزازیے کے طور دینا لکھا گیا ہے ۔ لیکن میرے علم میں کم از کم ایک پریزائڈنگ افسر (مزید بھی ہو سکتے ہیں ) ایسا ہے جسے نہ کوئی رقم ملی ہے ، اور نہ ہی اس سے اس سلسلے میں کوئی رابطہ کیا گیا ہے ۔
3 ۔ جب الیکشن کمیشن تنازعے کے تصفیے کی کوشش کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا ، تو ان کوششوں کے نتائج کا انتظار کئے بغیر حلف برداری کیوں کروائی گئی ؟ اور وہ بھی چیئرمین کی عدم موجودگی میں ۔ یہ تقریب نیا چیئرمین چننے کے بعد ، اور مخلص افراد کی کوششوں کے حتمی نتائج کے بعد ہونی چایئے تھی ۔
غلط یا بوگس ووٹنگ کے بارے میں ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ ایبینا وغیرہ متنازعہ پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج پر پولنگ ایجنٹوں نے دستخط کیوں کئے ؟ خصوصاً شہزاد گروپ کو اعتراضات تھے ، تو ان کے پولنگ ایجنٹوں کو احتجاجاً ان نتائج پر دستخط کرنے سے انکار کرنا چاہئے تھا ۔ دستخط کرنے کا مطلب ہے کہ آپ ان نتائج کو درست تسلیم کرتے ہیں ۔ اور خبروں کے مطابق شہزاد بہلم صاحب خودشام کو ایبینا پولنگ اسٹیشن پر موجود تھے ، اور انہوں نے خود ندا گروپ کو کامیابی کی مبارکباد دی تھی ۔ تو آخر اس کا کیا مطلب تھا ۔ اگر پورے ملک کے نتائج کی غیر موجودگی میں وہ مبارکباد صرف اس پولنگ اسٹیشن پر کامیابی کے لئے تھی ، تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ کم از کم ایبینا کے نتائج کو آپ نے تسلیم کیا تھا ۔ تو اب ان پر اعترض کیوں ؟
بہرحال ان بہت سارے سوالات کے باوجود ، یہ حقیقت واضح ہے کہ کمیونٹی دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے ۔ اب اس مسئلے کا کیا حل نکالا جائے ؟ اس پر انشاء اللہ اگلے آرٹیکل میں روشنی ڈالتے ہوئے ، اپنی جانب سے کچھ تجاویز پیش کروں گا ۔
’بشکریہ پاکستانی ڈاٹ جے پی ‘