تاریخ جاپان چوتھی قسط

History of Japan-04

Afridi

جنگِ عظیم دوئم

جاپان پر یہ بات عیاں ہوچکی تھی کہ سائبیریا اور منگولیا کی مہم جوئى ایک لاحاصل عمل ہے ۔ چونکہ ایشیاء میں برطانیہ، فرانس ، ہالینڈ وغیرہ کا اثر و رسوخ کئى عشروں سے چھایا ہوا تھا اور یہ جاپانی مفادات کے برعکس تھا کیونکہ وہ بھی اپنے زیرقبضہ علاقوں پر گرفت مضبوط کرنے اور مزید علاقوں پر اثر بڑھانے کا خواہش مند تھا اِسلئے اُس نے جرمنی اور اٹلی کے ساتھ معاہدہ کرنے کو ترجیح دی اور یوں جاپان نے ‏27 ستمبر 1940 کو جرمنی اور اٹلی کے ساتھ اےکسےزپکٹ کے نام سے ایک معاہدہ دستخط کیا ۔ یہ وہ فوجی اتحاد تھا جسے یورپ ، افریقہ ، مشرقی اور جنوب مشرقی اور بحرالکاہل کے بڑے حصے پر بالادستی حاصل تھی ۔

اُدھر یورپ میں جرمنی نے پولینڈ کو شکست دینے کے بعد، برطانیہ اور فرانس کے خلاف جنگ شروع کردی تھی اِسلئے روس نے ضروری سمجھا کہ اپنی دفاع کیلئے زیادہ توجہ یورپ پر دے ۔ اُس نے مشرقی بعید سے بہتر تعلقات کیلئے 13 اپریل 1941 کو جاپان کے ساتھ عدم جارحیت کا سویت ۔ جاپانیز نان اگریشن پکٹ نامی معاہدہ دستخط کیا ۔

اُس وقت جنوب مشرقی ایشیاء میں فرانس اور ہالینڈ کے نوآبادیاتی حکمرانی تھی ۔ سائبیریا اور منگولیا جیسے خطوں کی نسبت یہاں پر قدرتی وسائل زیادہ تھے اِسلئے جاپان نے اِس جانب بڑھ کر علاقوں پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنالیا ۔ جرمنی نے فرانس اور ہالینڈ کو شکست دینے کے بعد بحری اور فضائى طاقت سے برطانیہ کا محاصرہ کرلیا تھا ۔ اب جاپان کیلئے راہ ہموار تھی کہ وہ جنوب مشرقی ایشیاء کی جانب پیش قدمی کرے ۔

انڈو چائنہ )ویت نام ، لاؤس،کمبوڈیا( فرانس کی کالونی تھی اور اُس وقت فرانس میں ویچی فرنچ کی حکومت تھی جو ہٹلر کی مرضی کی ایک کٹھ پُتلی حکومت تھی کیونکہ فرانس کو جرمنی کے ہاتھوں شکست کے بعد دونوں کے مابین جنگ بندی ہوگئى تھی ۔ جاپان نے انڈو چائنہ میں داخلے کی اجازت مانگی اور22 ستمبر 1940 میں ویچی فرنچ کی انتظامیہ اور جاپان کے مابین ایک معاہدہ دستخط ہوا جس کے تحت جاپان کو اڈے قائم کرنے اور مال کی ترسیل کی اجازت مل گئى ۔ جاپان کا مقصد جنوب مشرقی ایشیاء میں اتحادیوں کو شکست دینے کیلئے فوجی اڈے قائم کرنا تھا ۔

معاہدے کے چند گھنٹوں بعد جاپان کی پانچویں ڈویژن فوج لیفٹینٹ جنرل آکی ہیتو ناکامورا کی قیادت میں ہلکے اور درمیانے ٹینکوں اور 30,000 فوج سمیت چین سے نکل کرانڈو چائنہ میں تین اطراف سے داخل ہوگئى ۔

فرانسیسی اور انڈوچائنیز نوآبادیاتی فوج نے مزاحمت کی کوشش کی مگر جاپان جیسی بڑی اور طاقت ور فوج کا مقابلہ کرنا ناممکن تھا ۔ انڈو چائنیزحکومت نے جاپان سے احتجاج کیا کہ یہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے مگر سب بے سود ۔ 26 ستمبر کی شام ، جنگ منطقی انجام کو پہنچی کیونکہ جاپان ھنوئى کے باہر واقع گیلام ہوائى اڈے پر قبضہ کرچکا تھا ۔ اِس قبضے کی بدولت ، جاپان نے سوائے برما کے چین کی ہر طرف سے ناکہ بندی مکمل کرلی تھی ۔

جاپان کو امریکہ کے ساتھ بڑھتی ہوئى کشیدگی کی وجہ سے جنگ چِھڑنے کا خطرہ محسوس ہورہا تھا اِسلئے جاپان نے ‏27 ستمبر 1940 کو جرمنی کے شہر برلن میں جرمنی اور اٹلی کے ساتھ مل کر ایک عسکری معاہدہ ٹرائپارٹائٹ پکٹ پر دستخط کیا ۔ اِس معاہدے پر جرمنی کے چانسلر ایڈولف ہٹلر، اٹلی کے وزیر خارجہ گلیزو سیانو اور جاپانی سفیر سابورو کوروسو نے دستخط کیے ۔ یہ تینوں مُلک اب ایکسیز پاور کے نام سے پہچانے جانے لگے ۔ اُنہوں نے دس سال تک ایک دوسرے کی سیاسی ، اقتصادی اور فوجی حمایت اور باہمی مفادات کا تحفظ کرنے پر اتفاق کیا ۔ بعد میں ہنگری ، رومانیہ ، سلواکیہ ، بلغاریہ ، یوگوسلاویہ اور کروشیا نے بھی شمولیت اختیار کی ۔

پرل ہاربر پر حملہ

امریکہ کو جاپان کا انڈو چائنہ پر قبضہ اور پھر جرمنی اور اٹلی سے معاہدہ ایک آنکھ نہیں بھایا ۔ 25 جولائى 1941 کو امریکہ نے جاپان کے تمام اثاثے منجمد کرنے کا حُکم دیا ۔ چونکہ جاپان کو نئے قدرتی وسائل ڈھونڈنے کیلئے اپنی مہم جوئى جاری رکھنی تھی اور اِس عمل کیلئے فوجی کاروائى ناگزیر تھی تو امریکہ نے جاپان کیلئے تیل کی سپلائى بھی روک دی جس سے جاپانی فوج اور خصوصاً بحریہ بہت متاثر ہوئى ۔

کہاجاتا ہے کہ جاپانی وزیراعظم کونوے فومی مارو سمیت کئى جاپانی رہنماؤں کا خیال تھا کہ امریکہ سے جنگ کا انجام اُن کی شکست ہوگی لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ امریکہ نے جو مطالبات کیے ہیں اُس کو پورا کرنے سے جاپان عالمی طاقت نہیں رہے گا اور وہ مغربی طاقتوں کا شکار ہوجائے گا ۔

اب جاپان کے پاس تین راہیں تھیں اول یہ کہ چین اور انڈو چائنہ سے انخلاء کرنے کے امریکی مطالبے کو پورا کیا جائے ۔ دوئم ، شرائط میں نرمی کرنے کیلئے امریکہ سے مزاکرات کیے جائیں اور سوئم ، مغربی طاقتوں سے پنجہ آزمائى کی جائے ۔ جاپان ایک عجیب مخمصے کا شکار ہوچکا تھا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چار بڑے فوجی جرنیلوں اوسامی ناگانو، کوتوہیتو کانین، ہاجیمے سوگی یاما اور ہیدیکی توجو نے اظہار خیال کیا کہ اب امریکہ کے ساتھ جنگ ناگزیر ہے اور اُنہوں نے اُس وقت کے شہنشاہ شوا کو جنگی منصوبے پر دستخط کرنے کیلئے رضامند کیا ۔ نومبر1941 میں امریکہ ، برطانیہ اور ہالینڈ کے خلاف جنگی منصوبے کی منظوری دے دی گئى ۔ جنگ سے قبل کچھ جرنیلوں نے متنبہ کیا کہ جنگ شروع کرنے کے بعد جاپان کیلئے چھ ماہ تک موافق حالات ہونگے اور اگر جنگ نے طول پکڑا تو پھرجاپان کی شکست یقینی ہے ۔

امریکہ نے بھی جاپان کے بدلتے تیور کا اندازہ لگا لیا تھا اور خُفیہ رپورٹوں سے یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ ممکن ہے جاپان، فلپائن پر حملہ کردے لہذا امریکہ نے وہاں فوجی صف بندی شروع کردی ۔ امریکہ کو یقین نہیں تھا کہ جاپان اتنی بہادری دیکھائے گا کہ وہ اُس کی سرزمین پر حملہ کردے لیکن 7 دسمبر 1941 کو جاپان نے پرل ہاربر پر حملہ کرکے امریکہ کے سارے اندازوں کو غلط ثابت کردیا ۔

جاپان کی شاہی بحریہ نے وائس ایڈمرل چوایچی ناگومو کی قیادت میں علی الصُبح میڈگیٹ سب میرینز سے بحری جبکہ طیاروں سے فضائى حملہ کیا جو کہ نہ صرف امریکہ بلکہ دُنیا بھر کیلئے ایک چونکادینے والا واقعہ تھا ۔ اِس حملے میں جاپانی افواج نے اُس علاقے میں امریکہ کے تمام ہوائى اڈوں اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا ۔ زمین پر موجود تقریباً ہر امریکی طیارے کو تباہ کیا گیا جن کی تعداد 155 بتائى جاتی ہے ۔ اِس حملے میں 2,403 امریکی بھی ھلاک ہوئے ۔ امریکی بحری جنگی جہاز یو ایس ایس اریزونا دھماکے سے پھٹ گیا اور اُس پر سوار عملے کے 1,100 افراد ھلاک ہوگئے ۔ بمباری شروع ہونے کے بعد جن پانچ سب میرینز نے امریکی بحری جنگی جہاز کو نشانہ بنایا وہ بھی واپس نہیں لوٹیں اور اُس پر سوار دس افراد میں سے صرف ایک جاپانی کازو او ساکاماکی زندہ بچا جِسے امریکہ نے گرفتار کرلیا تھا اور وہ جنگ عظیم دوئم میں پہلا جاپانی جنگی قیدی بنا ۔

جاپان کی حکمت عملی یہ تھی کہ اگر امریکی بحریہ کو بحرالکاہل میں بِے دست و پا کیا گیا تو اُنہیں ایشیائى خطے میں فوجی کاروائیاں کرنے میں آسانی رہے گی ۔ 8 دسمبر1941 کو امریکی کانگرس نے جاپان کے خلاف اعلان جنگ کردیا ۔ جاپانی حملے کے فوری بعد11 دسمبر1941 کو جرمنی نے بھی امریکہ کے خلاف اعلان جنگ کردیا اور امریکیوں کیلئے حیران کُن بات یہ تھی کہ ایکسیز پکٹ کے تحت جرمنی پابند بھی نہیں تھا ۔ اب امریکی انتظامیہ اور عوام کو پختہ یقین ہوگیا تھا جنگ عظیم دوئم اُن کے گلے پڑچکی ہے ۔

جاپان کا اندازہ درست ثابت ہوتے ہوئے قلیل مدتی فائدہ یہ ہوا کہ اُسے ایشیاء میں کاروائیاں کرنے میں آسانی ہوئى ۔ جاپان پہلے ہی منچوریا، شنگھائى ، فرنچ انڈو چائنہ اور تائیوان کو کالونی بنا چکا تھا اور بڑھتے بڑھتے برٹش ملایا یعنی برونائى ، ملائشیا ، سنگاپور اور ہالینڈ کے ڈچ ایسٹ انڈیز یعنی انڈونیشیا پر قبضہ کرلیا جبکہ تھائى لینڈ نے جاپان کے ساتھ ایک معاہدہ دستخط کیا ۔ یہی نہیں جاپان نے برما کو بھی فتح کرلیا تھا اور اب وہ برصغیر کی سرحد تک پہنچ گیا تھا ۔ جاپان چاھتا تھا کہ وہ اپنی فتوحات کے ثمرات سمیٹنا شروع کردے لیکن یہ سب کچھ ادھورا رہا کیونکہ امریکہ نے اپنی معیشت کو جنگی معیشت میں بدل دیا تھا ۔ بڑے پیمانے پر جنگی طیارے، بحری جہاز اور جدید اسلحہ تیار ہونے لگا تھا اور پوری فوج کو حرکت دے دی گئى تھی ۔

جنگِ Coral Sea

جنگ عظیم دوئم پوری طرح چِھڑنے کے بعد جاپانی بحریہ نے حکومت کو شمالی آسٹریلیا پر چڑھائى کرنے تجویز دی تاکہ اُس خطے کو بحرالکاہل میں جاپان کے جنوبی دفاعی لائن کے خلاف کسی بھی حملے میں استعمال ہونے سے بچایا جاسکے ۔ جنوبی بحرالکاہل میں تعینات جاپانی بحریہ کے چوتھے بیڑے کے وائس ایڈمرل شیگے یوشی انویے نے خیال ظاہر کیا کہ اگر جنوب مشرقی سولومن جزائر، چھوٹے جزیرے تولاگی اور نیو گِنی میں بندر گاہ موریس بے پر قبضہ کرلیا جائے تو یہ مقامات جاپان کے دفاع میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ مزید یہ کہ اگر نیو کالیڈونیا، فیجی اور ساموا پر قبضہ کرلیا گیا تو امریکہ اور آسٹریلیا کے درمیان رسد کی فراہمی اور مواصِلاتی رابطے ختم کیے جاسکتے ہیں ۔

جاپانی فوج اور بحریہ نے اپریل 1942 کو آپریشن ایم او کے نام سے جنگی حکمت عملی ترتیب دے دی جس کا مقصد آسٹریلیا اورنیوزی لینڈ کا اتحادیوں سے رابطہ منقطع کرنا اور اپنے حالیہ بحری علاقائى قبضے کا مضبوط طور پر دفاع کرنا تھا ۔

مارچ 1942 تک ، امریکی بحریہ کا کمیونیکیشن سیکورٹی سیکشن ، جاپان کی خُفیہ پیغام رسانی کو تقریباً 15 فیصد تک سمجھ لیتا تھا اور یہ صلاحیت اپریل میں 85 فیصد تک پہنچ گئى تھی ۔ 5 اپریل کو امریکہ نے ایک پیغام پکڑا جِسے ڈی کوڈ کرنے پر معلوم ہوا کہ جاپان نے اپنے بحری بیڑے اور دیگر بڑے بحری جہازوں کو وائس ایڈمرل اینوۓ کے آپریشن ایریا تک پہنچنے کا حُکم دیا ہے ۔ اِس دوران 13 اپریل کو برطانیہ نے بھی آپریشن ایم او کے بارے میں ایک جاپانی پیغام ڈی کوڈ کرکے فوری طور پر امریکہ کو دیا جس کے بعد اتحادیوں کو پورا یقین ہوا کہ جاپان مئى کے اؤائل میں جنوب مغربی بحرالکاہل میں بندرگاہ مورس بے پر کوئى بڑی کاروائى کرنے والا ہے ۔

یہ بندرگاہ ، اتحادیوں کی جانب سے جوابی کاروائى کیلئے خاصی اھمیت کے حامل تھی اِسلئے امریکہ اور دیگر اتحادیوں کے مابین مشاورت کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ اُس وقت دستیاب چار بحری بیڑوں کو کورل سی کے محاذ پر روانہ کردیا جائے ۔ 27 اپریل کو پکڑے جانے والے خفیہ جاپانی پیغامات سے مزید معلومات حاصل ہوئیں ۔

جاپان نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ وسطی بحرالکاہل میں صرف ایک امریکی بحری بیڑہ ہے جبکہ باقی کے بارے اُسے کوئى معلومات حاصل نہیں تھیں ۔ اپریل کے اؤاخر میں دو جاپانی جاسوس سب میرینزآراو 33 اورآراو 34 نے اُس علاقے کا جائزہ لیا جہاں فوجوں نے اُترنا تھا ۔ اُنہیں اردگرد علاقے میں کوئى اتحادی بحری جہاز نظر نہیں آیا ۔ دو مئى کو اتحادیوں نے جاپانی فوج کو آتے ہوئے دیکھ لیا تھا ۔ اگرچہ جاپان اپنی منصوبہ بندی کے مطابق آگے بڑھ رھا تھا تاہم خراب موسم کی وجہ سے ائرفورس کے زیرو نامی جنگی طیاروں کو بحری بیڑے پر اُتارنے میں مشکل پیش آرہى تھی جس کی وجہ سے اُنہیں دو دِن انتظار کرنا پڑا ۔

جاپانی بحریہ تولاگی کی جانب بڑھ رھی تھی اور اتحادیوں نے اپنا نقصان کم رکھنے کیلئے کوئى مزاحمت نہیں کی ۔ امریکی ٹاسک فورس 17 کے کمانڈر ایڈمرل فلیچر اپنی فوج کو دشمن کی نظروں سے اوجھل رکھنا چاھتے تھے تاکہ جب وہ اپنی کاروائى کا آغاز کرے تو تب جوابی حملہ کیا جائے ۔

جاپانی فوج 3 اور 4 مئى کو کامیابی سے تولاگی میں اُتر گئیں ۔ حالانکہ اِس دوران ایڈمرل فلیچر نے 4 مئى کو ٹاسک فورس 11 کے ایڈمرل فیچ کے ساتھ اہم ملاقات کے بعدتولاگی کے جنوب میں پہنچنے والی جاپانی فوج پراپنے بحری بیڑے یورک ٹاون سے 40 بمبار طیاروں کے ذریعے حملہ بھی کیا جو جاپانی ایڈمرل شیما کیلئے حیران کن حملہ تھا ۔ اُس وقت جاپان کے دس بحری جہاز پانی میں موجود تھے لیکن اُن کے پاس فضائى طاقت ابھی نہیں پہنچی تھی ۔ اُن پر صبح اور دوپہر میں تین بار حملہ کیا گیا جس میں اتحادیوں کے صرف 3 طیارے تباہ ہوئے ۔ اِن حملوں میں جاپان کا ایک تباہ کُن جہاز اور تین چھوٹے جہاز تباہ ہوئے ۔ 5 مئى کو امریکہ کی دونوں ٹاسک فورسز نے مشترکہ حملے کیلئے بہتر فارمیشن ترتیب دی ۔

اب چونکہ جاپانی بحریہ کو اِس علاقے میں امریکی جنگی بیڑوں کی موجودگی کا علم ہوگیا تھا لہذا اپنے جہازوں کو کورل سی میں جانے کا حُکم دیا تاکہ اتحادی افواج کو ڈھونڈ کر ٹھکانے لگایا جائے ۔ 7 مئى کو دونوں افواج نے ایک دوسرے پر مسلسل دو دِن حملے کیے جس میں جاپان کا ہلکا بحری بیڑا شوھو غرقاب ہوگیا جبکہ دوسری جانب امریکہ کے تیل بردار بڑے بحری جہاز کو بُری طرح نقصان پہنچا۔ اگلے دِن جاپانی جہاز شوکاکو کو کافی حد تک ناکارہ کردیا گیا ۔ جاپان نے حملوں میں تیزی لاکر امریکہ کے طیارہ بردار بحری بیڑے لیکس ینگٹن کو غرق کرنے اور یورک ٹاون کو بڑی حد تک نقصان پہنچانے میں کامیابی حاصل کى یوں دونوں اطراف کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑا۔

جنگ کورل سی چار سے آٹھ مئى 1942 تک لڑی گئى ۔ یہ اُن چار جنگوں میں سے پہلی جنگ تھی جس میں بحری بیڑوں کا نہ تو آمنا سامنا ہوا اور نہ ہی ایک دوسرے پر براہِ راست فائرنگ کی بلکہ بیڑے پر موجود طیاروں نے ایک دوسرے پر حملے کیے ۔ ایک اور تبدیلی یہ تھی کہ اب اتحادیوں نے دفاع کی بجائے جارحیت کی پالیسی اختیار کرلی تھی ۔

جنگ Midway

جاپان کی تاریخ میں جنگ مڈوے کو بھی کبھی نظر انداز نہیں جاسکتا جو پرل ہا ربر پر حملے کے چھ ماہ بعد 4 سے 7 جون 1942 تک بحرالکاہل میں واقع امریکہ کے ایک چھوٹے جزیرے کے آس پاس لڑی گئى تھی ۔ جاپان نے اپنی طرف سے منصوبہ تیار کیا کہ بحرالکاہل کی بڑی بحری طاقت امریکہ کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ ایک فیصلہ کُن حملہ کیا جائے ۔ جاپان اپنی دفاعی سرحدوں کو بڑھاتے ہوئے اُسے مزید امریکہ کے قریب کرنا چاہتا تھا ۔

جاپانی بحریہ کی حکمت عملی یہ تھی کہ اگر امریکہ پر ایک بھر پور وار کردیا جائے تو پھر جاپان کے مقابلے کی کوئى طاقت بحرالکاہل میں نہیں رہے گی اور اگر مڈوے علاقے پر قبضہ کرلیا گیا تو جاپانی افواج مشرقی بحرالکاہل میں اہم امریکی بندرگاہ ھوائى کے قریب تر ہو جائیں گی ۔ جاپانی بحریہ اتنی مضبوط ہوچکی تھی کہ وہ کسی بھی وقت کہیں بھی حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی ۔ جاپانی بحریہ کے ایڈمرل یاماموتو کی بُنیادی حکمت عملی یہ تھی کہ امریکہ کے بچ جانے والے طیارہ بردار بحری بیڑوں کا خاتمہ کرکے جنگی مہم میں اصل رکاوٹ کا خاتمہ کردیا جائے ۔ کیونکہ 18 اپریل 1942 کو امریکہ کی جانب سے جاپان پر پہلے فضائى حملے سے خطرات بڑھ گئے تھے ۔ یہ حملہ ھونشو کے علاقے پر کیا گیا تھا اور تاریخ میں ڈولٹل ریئڈ کے نام سے یاد کیا جاتا ھے ۔ اِس فضائى حملے کی منصوبہ بندی لیفٹینٹ کرنل جیمز جیمی ڈولٹل ریئڈ نے کی تھی ۔

ایڈمرل ایسوروکو یاماموتو، امریکہ کے ساتھ جنگ لڑنے کے حق میں نہیں تھا لیکن چونکہ فیصلہ کرلیا گیا تھا لہذا حملے کی تیاریاں شروع کردی گئیں ۔ جاپانی جنگی حکمت عملی قدرے پیچیدہ تھی کیونکہ انٹیلیجنس ذرائع سے اندازہ لگا لیا گیا تھا کہ امریکی بحریہ کے پاس بحرالکاہل کیلئے فی الوقت بحری بیڑے یو ایس ایس انٹرپرئز اور یو ایس ایس ھومٹ ہی رھ گئے ہیں کیونکہ ایک ماہ قبل لڑی جانے والی جنگ کورل سی میں بحری بیڑہ یو ایس ایس لیکس ینگٹن غرق ہوچکا تھا اور یو ایس ایس یورک ٹاون کو بڑی حد تک نقصان پہنچا تھا لیکن جاپان کا خیال تھا کہ وہ بھی ڈوب چکا ہے ۔ جاپانیوں کو یہ بھی معلوم ہوچکا تھا کہ امریکی بحری بیڑے یو ایس ایس ساراتوگا کی مرمت کی جارہی ہے کیونکہ ایک آبدوز کے حملے میں اُسے نقصان پہنچا تھا ۔

ایڈمرل یاماموتو، کو یہ اندازہ بھی تھا کہ پے درپے شکست کے بعد امریکی فوج کے حوصلے پست ہوچکے ہیں ۔ اُنہوں نے مڈ وے کے محاذ کی امداد کیلئے پہنچنے والے کسی بھی کمک کو راستے ہی میں نیست و نابود کرنے کی منصوبہ بندی بھی کرلی تھی ۔ لیکن افسوس کہ وہ یہ معلوم نہ کرسکا کہ امریکہ نے جاپانی بحریہ کے خفیہ پیغام رسانی کے کوڈ ورڈز معلوم کرلیے تھے ۔

امریکی بحریہ کے بحرالکاہل کے کمانڈر اِن چیف ایڈمرل چیسٹر ڈبلیو نیمٹز نے بھی جنگ کی بھر پور تیاریاں شروع کیں ۔ بحری بیڑے انٹرپرایز اور ھومٹ کے علاوہ بحری بیڑے یورک ٹاون کی مرمت پر دن رات کام ہورہا تھا اور 72 گھنٹوں کی محنت کے بعد ، یہ بیڑہ جنگ کیلئے تیار ہوگیا تھا ۔ اِس کے علاوہ ، مڈوے جزیرے پر مختلف نوعیت کے جنگی طیارے تعینات کردیئے گئے ۔

جاپانی جنگی بیڑے شوکاکو کو جنگ کورل سی میں خاصا نقصان پہنچا تھا اور اُس کی مرمت کیلئے کئى ماہ درکار تھے جبکہ طیارہ بردار بیڑہ زویے کاکو، جاپان کے کورے بندرگاہ پر لنگر انداز تھا اور وہ ائیر گروپ کی تبدیلی کا منتظر تھا لیکن تربیت یافتہ افراد کی بروقت ٹرینگ مکمل نہ ہونے کی وجہ سے مشکل پیش آرہی تھی ۔ البتہ بمبار طیارے آیچی ڈی تھری اے ون ، اور ناکاجیما بی فایو این ٹو تیار تھے ۔ جاپان کے وہ طیارے جو نومبر1941 سے زیر استعمال تھے اُنہیں بہترین حالت میں رکھا گیا تھا ۔

جاپان کی جنگی تیاری کے دوران امریکہ نے ایک خُفیہ کوڈ جے این 25 کو معلوم کرلیا تھا جو ایڈ مرل نیمٹز کیلئے ایک بڑی کامیابی تھی ۔ امریکی بحریہ کو معلوم ہوگیا تھا کہ جاپان کہاں ، کب اور کس طاقت کے ساتھ حملہ آور ہوگا جبکہ جاپان کو امریکی حکمت عملی اور قوت کا درست اندازہ نہیں تھا ۔

مڈ وے، شمالی بحرالکاہل میں 6.2 کلومیٹر کا ایک جزیرہ ہے جو امریکہ کے مغربی ساحل کی دفاع کیلئے ھوایی جزیرے کے بعد دوسرے نمبر پر اہمیت رکھتا ہے ۔ 3 جون 1942 کو رات ساڑھے بارہ بجے امریکی بی 17 طیاروں نے مڈ وے سے اُڑان بھر کر پہلا فضائى حملہ کیا لیکن حملے عین ہدف کو نشانہ بنانے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوئے اِسلئے کوئى زیادہ نقصان بھی نہ ہوا ۔ 4 جون صُبح ساڑھے چار بجے ، جاپان کے وائس ایڈمرل ناگومو کے طیارہ بردار بحری بیڑے سے پہلا حملہ کیا گیا ۔ ایک اور بھر پور حملہ صبح چھ بجکر بیس منٹ پرکیا گیا جس سے امریکی اڈے کو بھاری نقصان پہنچا ۔ ابتدائى چند منٹوں میں امریکہ کے کئى طیاروں کو مار گِرایا گیا ۔ امریکی انٹی ائیر کرافٹ گنز نے بھی کئى جاپانی طیاروں کو گِرایا ۔ 7 جون تک امریکی طیارے مڈوے جزیرے کو ایندھن بھرنے اور حملہ کرنے کیلئے استعمال کرتے رہے ۔ جب جاپانی طیارے کامیاب حملے کے بعد واپس لوٹے تو ایڈمرل ناگومو نے مڈوے پر ایک اور حملہ کرنے کیلئے طیاروں پر اسلحہ لوڈ کرنے کا حکم دیا ہی تھا کہ اِس دوران مشرق کی جانب امریکی بحری جہازوں انٹرپرایز اور ھورنٹ کی موجودگی کی نشاندھی کی گئى ۔ جس وقت یہ پیغام جاپانی بحریہ کو دیا جارہا تھا اُس وقت انٹرپرائز کے کوڈ بریکر نے یہ پیغام انٹرسیپٹ کیا کہ دُشمن کو ہماری موجودگی کا علم ہوگیا ہے ۔ یہ پیغام ملنے کے بعد جہاں ایڈمرل ناگومو نے امریکی بحری جہازوں پر حملہ کرنے کیلئے طیاروں پر لوڈ کیا جانے والا اسلحہ تبدیل کرنے کا حکم دیا ۔ اُسی لمحے انٹرپرئز سے 14 اور یشرک ٹاون سے 12 طیارے ، جاپانی بحریہ پر حملہ کرنے کیلئے محوِ پرواز ہوچکے تھے ۔ چونکہ طیاروں پر اسلحہ لوڈ کرنے کیلئے 30 سے 40 منٹ درکار تھے اِسلئے سنبھلنے کا موقعہ ہی نہ ملا اور حملہ ہوگیا ۔ جاپانی بیڑے کی انٹی ائر کرافٹ گنوں سے بھی جوابی حملہ کیا گیا ۔ اُدھر جاپانی بحری بیڑے ھیریو سے اُڑے طیاروں نے امریکی جہاز یورک ٹاون پر حملہ کردیا جس سے یورک ٹاون کو شدید نقصان پہنچا اور وہ کام کا نہ رھا ۔

سات جون کو ایک جاپانی سب میرین آیی 168 نے سامنے آکر چار تارپیدو داغے جس میں ایک یو ایس ایس ہممان کو لگا جو دو ٹکرے ہوگیا اور دو تارپیدو بحری بیڑے یورک ٹاون کیلئے تباہ کُن ثابت ہوئے ۔ سب میرین نے اِن کا کام تمام کرتے ہوئے راہِ فراراختیار کرلی ۔ دوسری جانب یو ایس ایس انٹرپرائز سے طیاروں نے جاپانی بحری جہاز ھیروۓ پر ایک طاقتور حملہ کیا اور اُسے آگ کے شعلوں میں لپیٹ دیا اور تباہ کن جاپانی جہاز ایسوکازے کو خاصا نقصان پہنچایا ۔ اِسی طرح کے حملے جاپانی کروز موگامے اور میکوما پر بھی کیے گئے جس سے اُنہیں ناکارہ بنا دیا گیا ۔

اب مڈوے کا محاذ سرد پڑگیا تھا اور جاپان کے چھ میں سے چار طیارہ بردار جہاز تباہ ہوچکے تھے ۔ جاپان کی بحرالکاہل میں مہم جوئى اور توسیع پسندی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا تھا جس سے وہ دفاعی پوزیشن میں چلا گیا تھا کیونکہ صرف دو بحری بیڑے شوکاکو اور زوۓکاکو ہی رھ گئے تھے جبکہ دیگر بحری جہاز ریوجو، جونیو اور ھیو مؤثر ہونے کے لحاظ سے دوسرے درجے کے تھے ۔

اِس جنگ میں جاپان پر یہ ایک الزام بھی لگایا گیا کہ اُس نے تین امریکی ہوا بازوں کو گرفتار کرکے بعد میں قتل کردیا تھا اور یوں جاپانی بحریہ جنگی جرم کا مرتکب پائى گئى ۔ جاپانی مؤقف تھا کہ مذکورہ افراد انتقال کرگئے تھے اور اُنہیں سمندر برد کردیا گیا تھا ۔

)جاری ( ###

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.