یہودیوں کی اصلیت ‘ بربریت‘ احسان فراموشی اور ناکامی
احادیثِ مبارکہ میںہے کہ اسرائیل کے مقامِ ،لدّھ (Lydh)، جہاں آجکل اسرائیل کی ایر فورس کا ھیڈکوارٹر ہے، دجّال آئے گا اور عیسیٰ علیہ السّلام اس کو قتل کریں گے، سارے یہودی مارے جائیں گے اور پھر قیامت آئے گی۔
یہی وہ فتنہ پرور ہیں جنھوں نے مدینہ طیّبہ میں اسلامی بھیس بدل کر نبی کریمؐ کی قبرِمبارک تک سرنگ کھود کر جسدِ مبارک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی لیکن نبی کریمؐ نے بادشاہِ وقت نورالدّین زنگی کے خواب میں آکراس سازش سے ان کو آگاہ کیاتھا اور انھوں نے ان یہودیوں کو قتل کروادیا تھا۔
اسپین میں مسلمانوں کے زوال کے بعد عیسائیوں کی حکومت آئی تو انھوں نے یہودیوں کو مجبور کیا تھاکہ تم چونکہ عیسیٰ علیہ السّلام کے قاتل ہو اس لیے اب تم اپنا مذہب بدل لو ورنہ تمھیں عیسیٰ علیہ السّلام کے خون کے بدلہ میں قتل کردیا جائے گا۔ اس سے پہلے رومن ایمپائر کے کئی عیسائی بادشاہوں نے بےشماریہودیوں کو اس بنیاد پر قتل کیا تھا۔
ایسے وقت میں جب اسپین میں ان کی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے،یہ یہودی بھاگ بھاگ کر ترکی آتے تھے اور خلافتِ عثمانیہ میں انھیں پناہ بھی ملتی تھی، جان و مال کی حفاظت کی گارنٹی بھی ، اپنے مذہب یہودیت پر آزادانہ قائم رہنے اور اس پرعمل کرنے کی آزادی بھی۔ لیکن اسرائیل کے احسان فراموش یہودیوں نے اپنی فائرنگ سے زیادہ تر ترکوں ہی کو ہلاک کیا۔
اس طرح اللہ تعالیٰ نے ترکی کے مسلمانوں کی کوششوں اور قربانیوں کے نتیجہ میں اسرائیل کی ناکہ بندی ناکام کردی ہے۔ اب مصر کے راستہ سے فلسطینی مسلمان روز ہزاروں کی تعداد میں باہر جاکر اپنی ضروریاتِ زندگی حاصل کر نے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ا س طرح اللہ تعالیٰ نے اسرائیل کو اس معاملہ میں ناکام ،نامراد اور ساری دنیا کی نظروں میں ذلیل کردیا ہے۔
کارٹونوں کے مسئلہ پرنعیم الغنی ارائیں‘ آعظم شاہ‘ رانا عامر اور ان کے ساتھیوں کی کوششوں کے سبب
سفیرِ ڈنمارک کے ساتھ میرے مکالمہ کے NHK ٹیلیوژن کے ذریعہ رات کے 9 بجے کی سب سے اہم خبروں میں پہلی خبر کے طور پر نشر ہونے کی وجہ سے جاپان کے سارے باشندوں کو پہلی مرتبہ یہ پتہ چلا تھا کہ مسلمانوں کے نزدیک نبی کریم ؐ کی ذات کی کتنی اہمیت ہے!
تحریر : حسین خاں ۔ ٹوکیو
% پیپلز پارٹی جاپان کے صدر نعیم الغنی ارائیں نے 4 جون جمعہ کو 3 بجے اسرائیلی سفارت خانہ کے سامنے مظاہرہ کا اعلان کیا ہے۔جاپان ہی نہیں ساری دنیا میں بھی اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں کیونکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو انسانی بھی ہے اور اسلامی بھی۔اسلامی اس لیے کہ ہمارے مکّہ و مدینہ کے بعد تیسرے مقدس مقام اور قبلہءِ اوّل بیت المقدس کے قریب کے علاقہ‘ غزّہ‘ کے لاکھوں فلسطینی مسلمان بھائیوں کو اسرائیلی یہودیوں نے اپنی اندھی طاقت یا لاٹھی کے زور پر اپنی دیرینہ ’اسلام دشمنی‘ کے تحت ان کو روزمرہ کی ضروریاتِ زندگی تک سے بھی محروم کررکھا ہے۔ان کی اسلام دشمنی اس وقت سے چلی آرہی ہے جب سے کہ انھوں نے نبی کریمؐ کو زہر دینے کی کوشش کی تھی۔ یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے عیسیٰ علیہ السّلام کو پھانسی پر چڑھایاتھا لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں اوپر اٹھا لیا اور ان ہی کے ہاتھوں دنیا سے یہودیوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ انھیں دوبارہ بھیج کر انھیں پھر طبعی موت نصیب کرے گا ۔ یہی وہ فتنہ پرور ہیںجنھوں نے مدینہ طیّبہ میں اسلامی بھیس بدل کر نبی کریمؐ کی قبرِمبارک تک سرنگ کھود کر جسدِ مبارک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی لیکن نبی کریمؐ ‘بادشاہِ وقت نورالدّین زنگی کے خواب میںآکراس سازش سے ان کو آگاہ کیاتھا اور انھوں نے ان یہودیوں کو قتل کروادیا تھا۔ یہی وہ قوم ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرانِ پاک میں فرمایا ہے کہ اس قوم کو قیامت تک اللہ تعالیٰ ذلیل و خواررکھ کراقوامِ عالم کے لیے سامانِ عبرت بنائے رکھے گا۔یہی وہ قوم ہے جس کے بارے میں احادیثِ مبارکہ میںہے کہ اس کے مقامِ ،لدّھ (Lydh)، جہاں آجکل اسرائیل کی ایر فورس کا ھیڈکوارٹر ہے، دجّال آئے گا اور عیسیٰ علیہ السّلام اس کو قتل کریں گے، سارے یہودی مارے جائیں گے اور پھر قیامت آئے گی۔
یہ مسئلہ انسانی اس لیے ہے کہ گذشتہ چند سالوں سے اسرائیل نے فلسطین کے اس حصہ کے انسانی باشندوںکا حقّہ پانی بند کیا ہوا ہے ‘جنھیں اس دنیا میں بحیثت انسان جینے کا حق اسی طرح حاصل ہے جیسا کہ ان بے چارے مظلوموں پر ان کے علاقہ پر زبردستی قابض ظالم اسرائیل کے یہودیوں کوبھی اور دنیا کے سارے انسانوں کو بھی ہے۔ ان کا قصور یہ ہے کہ انھوں نے حماس جیسی ایک اسلامی تنظیم کو اپنے اوپر ِ حکومت کے لیے انتخابات میں چنا ہے۔ ان مسلمانوں کو بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی سے روک رکھنے کے عمل کی دنیا کی کوئی حکومت بھی حمایت نہیں کرتی ۔اسرائیل کے سب سے بڑے دوست ملک امریکہ نے بھی یہ کہا ہے کہ اسرائیل کی یہ پالیسی “Unsustainable” ہے۔ یعنی یہ کہ کسی علاقہ کے انسانوں کو اس طرح بھوکا مارنے کی کوشش زیادہ دن چلنے والی پالیسی نہیں ہوسکتی۔
انسانیت کی ہمدردی کے تحت انسانی خدمت کا جذبہ ہی وہ چیز تھی کہ 40 ممالک کے 600 مسلم اور غیرمسلم لوگ 6 بڑے سمندری جہازوں پر جمع ہوکر فلسطین کے ان مصیبت زندہ انسانوںکی ہمدردی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ انسانی ہمدردی کے لیے قربانیاں دے کران جہازوں پر ضروریاتِ زندگی کا ہزاروں ٹن کا سامان لے کر آنے والے مہمانوں کا استقبال اسرائیلی یہودیوں نے اس طرح کیا کہ ان پر فائرنگ کرکے ان کے 9 آدمیوں کو ہلاک کردیا ، سارے والنٹیروں کو گرفتار کرکے انھیں زبردستی ملک بدر Deport کردیا اوران کا سارا لایا ہوا سامان اور ان کے سارے جہاز جو ساری دنیا کے انسانی ہمدردی رکھنے والے لوگوں کے چندوں سے خریدے گئے تھے، ان سب کو ضبط کرلیا۔
اس سارے پروگرام کومنظم کرنے والے زیادہ تر ترک تھے۔ ان لوگوں ہی نے ترکی میں چندے جمع کر کے جہاز بھی خریدے تھے اور ضروریاتِ زندگی کا سامان بھی۔جو 9 افراد اسرائیل کی فائرنگ سے شھید ہوئے ہیں، وہ بھی زیادہ تر ترک ہی تھے۔ اسرائیل نے اس قوم سے بے وفائی کی ہے جس نے اس کو ایسے وقت میں پناہ دی تھی جب کوئی ان کا دنیا میں پرسانِ حال نہیں تھا۔ مسلمانوں نے انھیں اسپین میں بھی اپنی حکومت کے دوران انھیں امن چین سے رکھا تھا اور بعد میں خلافتِ عثمانیہ کے دوران ترکی میں بھی۔اسپین میں مسلمانوں کے زوال کے بعد عیسائیوں کی حکومت آئی تو انھوں نے یہودیوں کو مجبور کیا تھاکہ تم چونکہ عیسیٰ علیہ السّلام کے قاتل ہو اس لیے اب تم اپنا مذہب بدل لو ورنہ تمھیں عیسیٰ علیہ السّلام کے خون کے بدلہ میں قتل کردیا جائے گا۔اس جرم میں رومن ایمپائر کے کئی عیسائی بادشاہوں کے دور میں کئی یہودی قتل بھی ہوچکے ہیں۔ ایسے وقت میں جب اسپین میں ان کی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے،یہ یہودی بھاگ بھاگ کر ترکی آتے تھے اور خلافتِ عثمانیہ میں انھیں پناہ بھی ملتی تھی، جان و مال کی حفاظت کی گارنٹی بھی ، اپنے مذہب یہودیت پر آزادانہ قائم رہنے اور اس پرعمل کرنے کی آزادی بھی۔ لیکن اسرائیل کے احسان فراموش یہودیوں نے اپنی فائرنگ سے زیادہ تر ترکوں ہی کو ہلاک کیا۔ اس احسان فراموشی اور ظلم و بربریت کی وجہ سے ترکی نے اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے اور اس کے ساتھ جنگی مشقوں کو بھی منسوخ کردیا ہے جو اس کے ساتھ کی جانے والی تھیں۔ اس طرح اس کے دوست ممالک میں امریکی دباؤ کے تحت جو 2, 3 مسلم ممالک تھے ان سے بھی اسرائیل کی دوستی اور خیر سگالی ختم ہوتی جارہی ہے۔ترکی کے علاوہ اپنے مسلمان اور عرب بھائیوں کے خلاف مصر ‘ جو امریکی دباؤ کے تحت اور امریکی امداد کو جاری و ساری رکھنے کے لیے ‘ اسرائیل کا ساتھ دیتے ہوئے غزّہ کی ناکہ بندی کی ہوئی تھی، وہ اب ختم کردی ہے ۱ور فلسطینی مسلمانوں کے لیے اپنی سرحدیں کھول دی ہیں۔ ہزاروں فلسطینی اب مصر کے راستے آ ،جا رہے ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ترکی کے مسلمانوں کی کوششوں اور قربانیوں کے نتیجہ میں اسرائیل کی ناکہ بندی ناکام کردی ہے۔ اب مصر کے راستہ سے فلسطینی مسلمان روز ہزاروں کی تعداد میں باہر جاکر اپنی ضروریاتِ زندگی حاصل کر نے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ا س طرح اللہ تعالیٰ نے اسرائیل کو اس معاملہ میں ناکام ،نامراد اور ساری دنیا کی نظروں میں ذلیل کردیا ہے۔ ساری دنیا میں جگہ جگہ اس کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔ اسرائیل کی پالیسی عملاً ناکام ہوچکی ہے اور ساری دنیا کی نظروں میں اس کی جو رہی سہی ساکھ اگرکچھ تھی تو وہ بھی اب اس فائرنگ کے بعد ختم ہوگئی ہے۔ اس کے سب سے بڑے دیرینہ حمایتی امریکہ بھی اس کے خلاف اقوامِ متحدہ کی سیکیوریٹی کونسل کی قردادِ مذمّت کی حمایت میں ووٹ دے چکا ہے۔ صدر بُش ایڈمنسٹریشن کے دورا ن اسرائیل کو جو بے جا حمایت ملاکرتی تھی ، وہ دن اب لد گئے ہیں، اوباما ایڈمنسٹریشن سے اسرائیل پہلے ہی سے ناراض تھا۔ یہودی اس کے خلاف مضامین اور کتابیں لکھ لکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ اوباما اسرائیل کا اگر دشمن نہیں تو دوست بھی نہیں ہے۔ ان حالات میں اس کے وزیرِ آعظم ، نیتھان یاہو،جو اوباما سے ملنے امریکہ گئے تھے، بغیر ملے واپس اسرائیل چلے جانے پر مجبور ہوگئے۔ اسرائیل نے جو کچھ کیا یہ دن دھاڑے اتنا بڑا ظلم تھا کہ اسرائیل کے حمایتی مغربی ممالک اور امریکہ بھی اس پر خاموش تماشائی بنے نہیں رہ سکے اور اقوامِ متحدہ کی سکیوریٹی کونسل نے متفقہ طور پر ان اقدامات کی مذمت کی۔
اس صورتِ حال کی روشنی میں سارے پاکستانی اور دیگر مسلمان بھائیوں سے اپیل کرتا ہو ں کہ وہ سب اسرائیل کے ان مظالم کے خلاف ہو نے والے اس مظاہرہ میں جمعہ کے 3 بجے جوق در جوق شریک ہوں ۔ جاپان میں موجود ساری سیاسی ، مذہبی ، سوشیل اور کمیونٹی تنظیمیں اپنے سارے اختلافات کو بھلا کر اس انسانی اور اسلامی کام میں سب متحد ہوکر اس اعلیٰ و ارفع مقصد کے لیے اپنی یک جہتی کا ثبوت دیں اور نعیم الغنی ارائیں نے سب سے پہلے اس کا جھنڈا اٹھایا ہے ، سب اپنی دلی کدورتوں اور اختلافات کو بھول کر اس ایک جھنڈے تلے جمع ہو کر اسرائیل کے مظالم کے خلاف آواز اٹھائیں اور ساری دنیا کو بتائیں کہ جاپان میں مقیم پاکستانی اور دیگر مسلمان بھی اس نیک کام میں پیچھے نہیں ہیں۔
نعیم الغنی ارائیں کی غیرتِ ایمانی ہر ایسے موقع پر جوش میں آجاتی ہے جب بھی اسلام یا مسلمانوں کا کوئی عالمی مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے۔ نبی کریم ؐ کی کارٹونوں کے ذریعہ تضحیک کے موقع پر بھی جاپان میںیہی اور ان کے ساتھی آعظم شاہ، ہاٹ مصالحہ ریسٹورنٹ کے رانا عامر وغیرہ ہی وہ دردمند لوگ تھے جنھوں نے سب مسلمانوں کو جمع کرکے جاپان مسلم پیس فیڈریشن Japan Muslim Peace Federation (JMPF) نامی تنظیم کی بنیاد رکھی اور مجھے اس کا چیرمین بنایا تھا۔ ٹوکیو میں ڈنمارک سفارت خانہ کے خلاف جلسہ، جلوس اور Foreign Correspondents Club میںسفیرِ ڈنمارک سے میرے مکالمہ کا اہتمام کیا تھا۔اس مکالمہ کے مختلف سین دکھانے کے ساتھ ساتھ اس کی خبر اس دن رات 9 بجے کی ٹیلیویژن خبروں پر جاپان کے واحد سرکاری اور سب سے زیادہ دیکھے جانے والے ٹیلیویژن NHKنے سب سے پہلی خبر کے طور پر نشر کیا تھا۔ اس سے جاپان کے سارے باشندوں کو پہلی مرتبہ یہ پتہ چلا تھا کہ مسلمانوں کے نزدیک نبی کریم ؐ کی ذات کی کتنی اہمیت ہے! اس کے بعد ہی سے پہلی مرتبہ اسی تنظیم جاپان
مسلم پیس فیڈریشن کے تحت ، جس کے کرتا دھرتا آجکل ڈاکٹر عمران الحق ہیں، جاپانی زبان میں سیرتِ مقدسہ کے ہر سال مسلسل تعارف کروانے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔
ان لوگوں کا بویا ہو ا یہی وہ بیج ہے جو اب تک جاپان مسلم پیس فیڈریشن
Japan Muslim Peace Federation کی شکل میں زندہ و تابندہ ہے جو گذشتہ 2 سال سے ٹوکیو یونیورسٹی ہال میں نبی کریمؐ کی سیرتِ مبارکہ سے جاپانیوں کو واقف کروانے کے لیے جاپانی زبان میں جاپانی اور بیرونِ ملک کے مشہور اسلامی اسکالرز کے لیکچرز کے ذریعہ منعقد کرواررہاہے اور اس کو میگزین کی شکل میں شائع بھی کر رہا ہے۔ ڈنمارک سفارت خانہ کے خلاف جلسہ،جلوس،ملاقات، گفتگو اور پبلک مکالمہ جیسے سارے پروگراموں کی قیادت کی سعادت بھی ان لوگوں نے مجھے دی تھی۔ ٹوکیویونیورسٹی کے پہلے سیمینار کی قیادت کی سعادت بھی مجھے حاصل ہوئی تھی اور دوسرے اور تیسرے سیمنار کی‘ کمیونیٹی کے عظیم سرمایہ‘ جناب ڈاکٹر عمران الحق صاحب کو۔ انشاء اللہ یہ سمینار کا سلسلہ ہر سال کسی نہ کسی کی قیادت میں چلتا رہے گا اور اس کا ایصالِ ثواب اس کا بیج بونے والے نعیم الغنی ارائیں اور ان کے ساتھیوں کواللہ تعالیٰ کی طرف سے اس وقت تک انشاء اللہ تعالیٰ ملتا رہے گا جب تک جاپان میں اس سیمینار کا سلسلہ نبی کریمؐ کی سیرتِ مقدّسہ کے تعارف کا جاپانی زبان میں یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔
(اس سلسلہ میں مزید معلومات کے لیے یہودیوں کے رول کے تعلق سے میرے 4, 5 کالم جو روزنامہ جنگ اور جسارت میں شائع ہوئے ہیں ،وہ اور کچھ نئے کالم میںجاپان کے نیٹ اخبارات میں دوبارہ اشاعت کے لیے اگلے چند دنوں یا ہفتوں میں دیتا رہوں گا۔ انشا ء اللہ۔)
Contact Hussain Khan: 09033566207; hk@ourquran.co