پاکستان کااسلامی بم(تیسری قسط)-
’’انڈیا کے ایک سابق امریکی سفیر، نیویارک کے سنیٹر دانیال پیٹرک موینی ہان نے کہا،’لو، اب ایک اسلامی بم بھی آج ہمارے سامنے آگیا ہے۔ اس کو میزائیل پر بھی لگایا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب اسرائیل کی تباہی بھی ہوسکتا ہے۔ ‘‘
’’ہمارے ایٹم بم کو ہم کتناہی کہیں کہ یہ ’اسلامی‘ نہیں بلکہ صرف پاکستانی ہے لیکن دنیا اس کو تسلیم کر نے تیار نہیں ہے کیونکہ یہ دھماکے اس پارٹی نے کیے ہیں جو ایک صدی پہلے 1906 میں اپنے قیام کے وقت سے ہی یہ نعرہ لے کر اٹھی تھی کہ ہم ہندوستان کے مسلمانوں کے حقوق ہی کی جنگ نہیں لڑ رہے ہیں بلکہ ان کی حفاظت،عزّت و وقار کو بھی دوبارہ بحال کرنا چاہتے ہیں اور مسلم د نیا کو بھی متحد کرکے اسلام کی صداقت ،عظمت و شوکت و سطوت کاجھنڈا بھی دوبارہ اقوامِ عالم کے آگے سر بلند کرناچاہتے ہیں ۔‘‘
’’’یومِ تکبیر‘ کے بعد پاکستان کے مسلمان نواز شریف سے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ جب بھی اللہ تعالیٰ انھیں ایک مرتبہ اور برسرِ اقتدار آنے کا موقع دے تو ہم سب لوگ پھر ’یومِ تکبیر‘ کے ساتھ ساتھ ’یومِ نفاذِ شریعت‘بھی منانے لگیں کیونکہ یہی نظریہ پاکستان کا آخری مقصود تھا ‘‘
تحریر : حسین خاں ۔ ٹوکیو
ہمارے سارے لیڈر شروع ہی سے یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ ہمارا بم ’اسلامی‘ نہیں بلکہ صرف پاکستان کا ایٹم بم ہے ، یہ بات جنرل ضیاء الحق نے بھی کہی ، بے نظیر بھٹو نے بھی کہی ، نواز شریف کے اس وقت کے وزیر مشاہد حسین نے بھی کہی، لیکن نہ معلوم کیا بات ہے کہ دنیا ان میں سے کسی کی بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے، وہ مانتی ہے تو اس بات کو جو ذوالفقار علی بھٹو نے کہی۔نیویارک ٹائمز کی June 7, 1998 کی ایک رپورٹ کے مطابق 1970 کی دہائی اپنی کسی ایک پرائیویٹ گفتگو میں بھٹو صاحب نے اسے ’اسلامی‘ بم کہا تھا ۔جاپان کو Economic Animal کہنے والے بھی بھٹو صاحب ہی تھے۔ جاپانی اس زمانہ میں پاکستان کے نام سے تو اتنے واقف نہیں تھے جتناکہ بھٹو صاحب کے ان الفاظ کی وجہ سے ان کے نام سے ۔
نیویارک ٹائمز کی اس رپورٹ کے مطابق اس وقت کے حالات میں یہ بات مغربی ممالک کو ایک گمبھیر وارننگ لگ رہی تھی کہ اگر ایک مسلم ملک ایٹمی طاقت بن جائے تو یہ سارے اسلامی ممالک کے لیے تقویت کا باعث بن جائے گا۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کے کامیاب ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستانی عوام میں ایسا جوش و خروش دیکھنے میں آیا کہ کراچی جیسے بڑے بڑے شہروں میں ایٹم بم کی شکل کے مصنوعی ایٹم بم بناکر ، اس پر ’اسلامی‘ بم لکھ کر ، اس کے جلوس نکالے گئے ۔ اسلام آباد میں مظاہرے کیے گئے جس میں مظاہرین نے انڈیا کے خلاف ’جہاد‘ ، ’جہاد‘ کے نعرے لگائے ۔انڈیا کے ایک سابق امریکی سفیر، نیویارک کے سنیٹر دانیال پیٹرک موینی ہان نے کہا،’لو اب ایک اسلامی بم بھی آج سامنے آگیا ہے۔ اس کو میزائیل پر بھی لگایا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب اسرائیل کی تباہی بھی ہوسکتا ہے۔ ‘‘
فلسطین کے ایک عربی اخبار ’’القدس‘‘ نے ایٹمی دھماکوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے دھوئیں کے بادل کو اپنے ایک خاکہ میں اس طرح دکھایا کہ یہ سب اسلام کے نشان ِہلال کے ساتھ ساتھ یعنی عربی مہینوں کے شروع میں جو چاند طلوع ہوتا ہے ، اس کے طلوع کے ساتھ ساتھ یہ دھوئیں کے بادل بھی گہرے ،گھنے اور گھنگور ہوتے جارہے ہیں۔اسرائیلی اخبار ہآرٹز کی ایک رپورٹ میں یہ بتایا گیا کہ ایک دوسرے عربی اخبار نے اپنے خاکہ میں ’’ ایک نیا مشرقِ وسطیٰ‘‘کے عنوان کے تحت ایٹم بموں سے لدے ہوئے بہت سارے میزائیل دکھائے۔
ان ساری باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی دنیا میں پاکستانی ایٹم بم کے دھماکوں سے کس قدر خوشی کی لہر دوڑ گئی اور اس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے قلوب سے مغربی دنیا اور مسلمانوں کے دشمن یہودیوں کے ملک اسرائیل کی اسلحہ میں برتری کے مقابلہ میں اُن کے احساسِ کمتری کو رفع کر کے انھیں خود اعتمادی سے لبریز کردیا اور یہ احساس ، ولولہ اور جوش و خروش بھی پیدا کردیا کہ اب مسلمانوں کے پاس اللہ کی مدد آگئی ہے جس کے بل پر وہ اپنے دشمنوں سے نمٹ سکتے ہیں۔
اسرائیل کے یہودی اخبار’یروشلم پوسٹ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق :
’’ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے نتیجہ میں ان کے فوری بعد سارے عرب ممالک میں اور خصوصاً فلسطین میںبڑی خوشیاں منائی گئیں اور جشن نکالے گئے۔ فلسطین میں مسجدِ اقصیٰ کے امام شیخ حیّان ادریسی نے جب اپنے خطبہ میں یہ کہا کہ ’پاکستان کا ایٹم بم اسلامی طاقتوں کے دوبارہ ابھرنے اور ان کے عروج اور سربلندی کی ابتداء ہے‘ تو لوگوں نے بہت جوش و خروش کا اظہار کیا۔شیخ احمد یٰسین نے اپنی مسرت کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ ’ یہ سارے عرب اور مسلم ممالک کے لیے ایک بہت بڑا سرمایہ ہے۔‘‘
واضح رہے کہ مرحوم شیخ احمد یٰسین فلسطین کے درجہ اوّل کے ایسے عالمِ دین تھے جن کے فتوؤںکوسارے فلسطینی مان کر ان پراپنی جانیںنثارکرتے تھے اور ساری عرب دنیا پر ان کے اخلاص اوران کی علمیت کا دبدبہ چھایا ہوا تھا۔ انھوں نے اپنے ایک فتوے سے اسرائیل کی چولیں ہلادی تھیں۔ ان کے اس فتوے کے نتیجے میں اسرائیل کو فلسطینیوں کے روز روز کے خود کش حملوں سے اپنے بچاؤ کے لیے اپنی سرحدوں پر دیوار بنانی پڑی تھی جو اب تک قا ئم ہے۔ ویسے تو خود کشی اسلام میںحرام ہے لیکن انھوں نے اسرائیل کامقابلہ کر نے والے نہتّے فلسطینی مجاہدین کے لیے خود کش حملوں کو جائز اور حلال قرار دیا تھا اور مجاہدین کو اس کی ترغیب بھی دی تھی۔ ان کے اس فتوے کے بعد اور بھی بہت سے علماء نے اس کے حق میں فتوے دیئے اور اب دنیا میں فلسطین ہی نہیں بلکہ عراق،افغانستان ، کشمیر، Chechnya اور پاکستان کے اسلامی شریعت کا مطالبہ کرنے والے سارے مجاہدین نے اس فتوے پر عمل کرتے ہوئے خود کش حملوں کو بطور ایک ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ اسی وجہ سے اسرائیل نے شیخ احمد یٰسین کی ٹارجٹ کِلنگarget Killing کی۔مسجد سے گھر جاتے ہوئے راستہ میں ہیلی کاپٹر سے ان پر میزائیل کا حملہ کرکے انھیں شہید کردیا۔
شیخ احمد یٰسین کے علاوہ دیگر بے شمار عرب خصوصاً سعودی عرب ، پاکستانی و بنگلہ دیشی وغیرہ علماءِ کرام کے فتوؤں کی وجہ سے مسلمانوں میںخود کش حملوں کے نام پر جہاد کا جذبہ بھی ایک وجہ ہے کہ دنیا پاکستان کے ایٹم بم کو ’اسلامی‘ بم کہتی ہے۔ اس پر ’اسلامی‘ کا لیبل لگاکریہ در اصل ’ اسلامی شریعت ‘ سے اپنے خوف و ہراس کا اظہار کرتی ہے۔ اپنی برتر اقتصادی اور اسلحہ کی طاقت کے باوجود اور ان کے مقابلہ میں مسلمانوں کی ہر طرح کی کمزوری کے باوجود،ان کے جہاد کے جذبہ سے خوف کھائے بیٹھی ہے۔ان کو اس بات کا ڈر ہے کہ ان مسلمانوں کو تو اپنی جان کا کوئی خوف نہیں ہے۔ یہ تو آخرت کی کامیابی اور اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے ہر وقت اپنی جان ہتھیلی میں لیے پھرتے ہیں۔اسلام کی سر بلندی کے لیے اگر ضرورت محسوس کریں تو یہ کسی وقت بھی کہیں بھی ایٹم بم سے حملہ کرسکتے ہیں کیونکہ دشمن کے جوابی ایٹمی حملہ کا انھیں نہ کوئی ڈر ہے نہ پریشانی یا غم۔ شہادت کی سعادت حاصل کرنے کے لیے یہ خود سر سے کفن باندھے ہمیشہ تیاربیٹھے رہتے ہیں۔
صدرِامریکہ اوباما نے واشنگٹن میں منعقدہ ایک حالیہ سربراہوں کی کانفرنس میں اس ایجنڈہ کو رکھا کہ دنیا کس طرح ایٹمی اسلحہ کو ’’دہشت گردوں‘‘کے ہاتھ میں جانے سے روکے۔ ’’دہشت گردوں‘‘ سے اوباما کی مراد خودکش حملوں کا حوصلہ رکھنے والے مسلمان مجاہدین تھے۔ساری دنیا کو پاکستان کے ایٹم بم سے یہ خطرہ ہے کہ یہ’ اسلامی بم‘ کسی بھی وقت ’دہشت گردوں‘ کے ہاتھ لگ سکتا ہے۔ساری دنیا کے سر براہوں نے اس پر خصوصی توجہ دینے کے ارادے کیے کہ سب اپنے اپنے ملکوں میں ’’دہشت گردوں‘‘ پر اور ان کی خفیہ سرگرمیوں پر پوری نظر رکھیں گے۔مغربی دنیا نے نواز شریف پر ’دہشت گرد‘ ہونے کا الزام تو نہیں لگایا لیکن انھیں ’دہشت گردوں‘ کے قریب کا آدمی سمجھتے ہیں کیونکہ انھوں نے ایٹمی دھماکے کرکے ایک ایسے ’اسلامی‘ بم کو سامنے لانے کا کام کیا ہے جس سے ان کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں اور یہ بھی ایک ایسا ہی کام ہے جو اسلام کا نام لیوا کوئی ’دہشت گرد ‘ ہی کرسکتا ہے۔
’ اسلامی ‘ بم سے ان کے مزید خوف کھانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی قیادت کبھی یہ کہنے اور اس کا اعلان کرنے سے باز نہیں آتی کہ اگر ہمارے ملک کو انڈیا سے یا کسی بھی دشمن کی طرف سے کوئی بھی خطرہ پیش آئے تو ہم پہلے ایٹم بم استعمال کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔ پاکستان کے علاوہ دنیا کی ساری ایٹمی طاقتیں بشمول انڈیا یہ کہتی ہیں کہ ہم کبھی ایٹم بم پہلے استعمال نہیں کریں گے۔ صرف پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جو یہ کہتا ہے کہ ہم ایٹم بم کے استعمال میں پیش قدمی کریں گے۔ سابق آرمی چیف اور پاکستانی فوجوں کے کمانڈر انچیف مرزا اسلم بیگ نے اسلام آباد میں منعقدہ ایک عوامی مباحثہ میں کھلم کھلا اور برملا اس کا اظہار کیا:
’’ ہم ہی پہلی دفعہ ایٹم بم سے حملہ کریں گے ، دوسری دفعہ بھی ہم ہی پہل کریںگے اور یہاں تک کہ تیسری دفعہ بھی۔‘‘ ایٹمی جنگ کی تباہ کاری کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’آپ سڑک پار کرتے ہوئے بھی کسی وقت مرسکتے ہیں یا کسی ایٹمی جنگ میں بھی۔آپ کو ایک نہ ایک دن کسی نہ کسی صورت میں مرنا تو ہے ہی۔‘‘
نواز شریف کو بھی امریکہ اور دوسری مغربی طاقتیں اسی قبیل کا ایک لیڈر سمجھتے ہیں کیونکہ ہزار دھمکیوں اور طرح طرح کے لالچ اور دباؤکے باوجود یہ ایٹمی دھماکوں سے باز نہیں آئے۔نواز شریف کی سوچ کی بنیادیں تلاش کرنے کے لیے جب انھوں نے ان کی پارٹی مسلم لیگ (ن)کا دستور دیکھا تو ان کی سمجھ میں آیا کہ یہ کس قماش کا بندہ ہے اور کیوں یہ کسی دباؤ، لالچ،دھونس اور دھمکیوں کے آگے سپر نہیں ڈالتا۔یہ شخص بھی اپنے دستور میں قران و سنّت لانے کی ویسی ہی باتیں کرتا ہے جس کامطالبہ بقول امریکہ طالبان یا انتھاء پسند مذہبی جماعتیں کرتی ہیں۔صرف باتیں ہی نہیں بلکہ اس شخص نے اپنے پچھلے دورِ حکومت میں شریعت کے نفاذ کے لیے شریعت بِل بھی منظور کرانے کی کوشش کی تھی جو پارلیمنٹ میں مسلم لیگ کی دو تہائی اکثریت سے منظور ہونے کے باوجود بھی سنیٹ میں صرف ایک ووٹ کی کمی کی وجہ سے پاس نہیںہوسکا۔
12 دسمبر 1998 کیndia Abroad نامی ایک بیرونی پریس رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ نیشنل پریس کلب میں وائس آف امریکہ کے ایک رپورٹر نے شریعت بِل پر اعتراض کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا کہ کیا آپ طالبان کی طرح کا نظام پاکستان میں لانا چاہتے ہیں ، جیسا کہ افغانستان میں چوروں کے ہاتھ کاٹے جاتے ہیں اور زانیوں کو سنگسار کیا جاتا ہے؟ اس کے جواب میں نواز شریف نے کہا کہ’’ یہ سارا پرپیگنڈہ ’بے بنیاد‘ ہے اور جو کچھ میڈیا میں کہا جارہا ہے سب غلط ہے۔ہمارا فوکس اس بات پر ہے کہ عوام کو سستا اور تیز رفتاری سے فیصلے کرنے والا انصاف مہیا کیا جائے جو موجودہ نظامِ قانون کے تحت ناممکن ہے‘‘ انھوں نے کہا کہ شریعت بِل کا مقصد انتھاء پسندی یا بنیاد پرستی کو لانا نہیں ہے۔…… طالبان یا کسی اور ملک کا ماڈل ہر دوسرے ملک میں نہیں چل سکتا۔ ہر ملک کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔‘‘ وہ یہ واضح کرنا چاہ رہے تھے کہ شریعت بِل کااصل مقصد شرعی قانون کے ذریعہ ایک عادلانہ نظام قائم کرنا ہے جس میں لوگ آسانی سے انصاف فوراً حاصل کرسکیں۔
نواز شریف نے اس پریس کانفرنس میں یہ بھی بتایا کہ شریعت بِل کی دفعہ 2 میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ اس قانون کا اطلاق غیر مسلموں پر نہیں ہوگا۔
نواز شریف کی نفاذِ شریعت کی کوشش ہی وہ وجہ تھی جس کی بناء پرمغربی اخبارات میں یہ رپورٹیں شائع ہوتی رہیں کہ نواز شریف طالبان اور مذہبی جماعتوں سے قریب ہیں ۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ فوج کی مدد سے ان کا تختہ بھی اسی لیے الٹا گیا تھا کہ ان سے ’خطرہ ‘ تھا کہ یہ طالبان جیسی شریعت کہیں پاکستان میں نافذ نہ کردیں۔ اس لیےمغربی اخبارات امریکی حکومت کو یہ مشورہ دیتے رہے کہ امریکہ کو مشرف جیسے لادینی بندے کے ہٹنے کے یا ہٹائے جانے کے بعدایسے ’مسلمان‘ کو اقتدار پر آنے نہیں دینا چاہیئے۔ ان کی جگہ لادینی پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کو آگے لانا چاہیئے۔ وہ بیچاری تو اس خواب کی تکمیل سے پہلے ہی شہید ہوگئیں۔ ان کے جانشین مسٹر 10% اس وقت بر سرِ اقتدار ہیں جو لادینیت کو اپنی پارٹی کا نصب العین بھی قرار دیتے ہیں، امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے بہتریں آلہ کار بننے کی ساری صلاحیتیں بھی رکھتے ہیں۔ اس لیے امریکی Drones کے حملوں اور امریکی مافیا کی اسلام آباد میں موجودگی کے ذریعہ ان کی کرسی کو مضبوط سے مضبوط کیا جارہا ہے۔
ہندوستان کے ایٹم بم کو کوئی ’’ہندو‘‘ بم نہیں کہتا اور بقول مشاہد حسین جو نواز شریف کے ترجمان وزیر تھے کوئی اسے Vegetaian بم بھی نہیں کہتا، حالانکہ اس کا دھماکہ کرنے والی درمیانی رویہ رکھنے والی کانگریس پارٹی نہیں بلکہ اپنی ہندو پرستی کے لیے مشہور BJP پارٹی تھی، جس نے بابری مسجد کوشہید کروایا اورجواس مسلم دشمنی کا کارنامہ دکھاکر کے ہندو تہذیب کی سربلندی کے نعرہ کے تحت انتھاء پسند ہندوؤں سے ووٹ لے کر اقتدار میں آئی تھی۔پاکستان کی طرف سے دھماکہ کرنے والے نہ طالبان تھے نہ ایسی کوئی پارٹی جسے مغربی دنیا انتھاء پرست مذہبی پارٹی قرار دیتی ہو۔ پاکستان کی طرف سے دھماکہ کرنے والی پارٹی مسلم لیگ تھی ، جس کے قائد دھماکہ کے وقت بھی اور آج بھی نواز شریف ہیں۔ یہ پارٹی اپنا ناطہ 1906میں غیر منقسم ہندوستان کے شہر ڈھاکہ میں جدوجہد ِ آزادی کے لیے جو مسلم لیگ قائم ہو ئی تھی اس سے ملاتی ہے ۔یہ اپنے دستور میں 1936 اور 1940 کے دو اہم سنگِ میل کا ذکر کرتی ہے کہ قائد آعظم محمّد علی جناح کے زیرِ قیادت ہندوستان کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ سیاسی جماعت کی حیثیت سے جد و جہد کرتی ہوئی بالآخر اس نے 1947 میں اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی رحمت کے سبب پاکستان جیسی ایک اسلامی ریاست حاصل کی ، جو محض مسلمانوں کی اتاترک کے ترکی یا انڈیا کے ہندوؤں کی طرح ’سیکولر‘ یا لادینی نہیں‘ بلکہ ایک ُاسلامی‘ ریاست ہے ، جس کا ثبوت اس کے نام ’اسلامی‘ جمہوریہ پاکستان اور اس کے دستور کے ’اسلامی‘ دستور ہونے سے ملتا ہے، کیونکہ مسلم لیگ پارٹی کا دستور بھی اسی طرح کا ایک ’اسلامی‘ دستور ہے جیسا کہ ریاستِ پاکستان کا۔ مسلم لیگ (ن)کے دستور کے Preamble میں تمہید کے طور پر شروع میں لکھی ہوئی ساری باتوں کے آخری نتیجہ کے طورپر یہ بتا یا گیا ہے:
’’ اس لیے اب ہم اس دستور کے ذریعہ (غیر منقسم ہندوستان میں اس کے قیام سے لے کر)اب تک کی مسلم لیگ کی روایات اور اس کے سیاسی مقاصد اور اقدار کے وارث ہونے کی حیثیت سے اس بات کا اعادہ اور دوبارہ اس عزم کی تجدید کرتے ہیںکہ ’’ہم اپنے آباء و اجداد کے خوابوں کی ضرور تکمیل‘‘ کریں گے اور پاکستان کوایک ’اسلامی‘ جمہوری ریاست بنائیں گے۔………‘‘
پھرمسلم لیگ (ن)کے اس دستور کی ابتداء ہی میں ’اغراض و مقاصد‘کی دفعہ کی شق b میں یہ لکھا ہے:
’’ پاکستان کے مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں میں اسلام کی تعلیمات اور تقاضوں ، جنھیں قران و سنّت میں متعین کیا گیا ہے ،کے مطابق زندگی گذار سکیں۔ ‘‘
ہمارے ایٹم بم کو ہم کتناہی کہیں کہ یہ ’اسلامی‘ نہیں بلکہ صرف پاکستانی ہے ،لیکن دنیا اس کو تسلیم کر نے تیار نہیں ہے ،کیونکہ یہ دھماکے اس پارٹی نے کیے ہےں جو ایک صدی پہلے 1906 میں اپنے قیام کے وقت سے ہی یہ نعرہ لے کر اٹھی تھی کہ ہم ہندوستان کے مسلمانوں کے حقوق ہی کی جنگ نہیں لڑ رہے ہیں بلکہ ان کی حفاظت،عزّت و وقار کو بھی دوبارہ بحال کرنا چاہتے ہیں اور مسلم د نیا کو بھی متحد کرکے اسلام کی صداقت ،عظمت و شوکت و سطوت کاجھنڈا بھی دوبارہ اقوامِ عالم کے آگے سر بلند کرناچاہتے ہیں ۔
محض یہی نہیں بلکہ دستور میں لکھے گئے’’ اپنے آباء و اجداد کے خوابوں کی تکمیل ‘‘کے لیے ایٹمی دھماکہ کے کچھ عرصہ بعد ہی نواز شریف نے شریعت بل بھی پارلیمنٹ میں پیش کیا اور اسے مسلم لیگ کے ممبروں کی دو تہائی اکثریت کے ذریعہ پارلیمنٹ سے منظور بھی کروالیا ۔لیکن سنیٹ میں پیپلز پارٹی اور دوسری سیکولر(لادینی) جماعتوں کی اکثریت تھی،انھیں نفاذِ شریعت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، بلکہ یہ سب اپنے لادینی ہونے کے ناطہ اس کے مخالف تھے کہ پاکستان کے لوگوں کی اجتماعی زندگی میں بھی اسلام یا اسلامی قانون جیسی نعوذ باللہ 1500 سال پرانی ’مُلّاؤں‘ کی لائی ہوئی کوئی دقیانوسی چیز آجائے ۔ پیپلز پارٹی ، MQM ، عوامی نیشنل پارٹی اوردیگر سیکولرپارٹیوں نے سنیٹ میں اسے پاس ہونے نہیں دیا۔ صرف ایک ووٹ کی کمی سے یہ پاس ہونے سے رہ گیا۔ اس لیے وہ سارے خواب اب تک شرمندہئَ تکمیل ہےں اور انتظار کررہے ہیں کہ نواز شریف دوبارہ اقتدار میں آئیں اور اپنے دستور کے مطابق نفاذِ شریعت کرکے’’ ہمارے آباء واجداد کے ان خوابوں کی تکمیل‘‘ کر کے دکھائیں جو ان کی پارٹی کا نصب العین بھی ہے اور ان کے دستور کے اغراض و مقاصد میں شامل ہونے کے علاوہ پاکستان اور دنیا کے ہر اس مسلمان کامقصدِ زندگی بھی ہے جو دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضائے الٰہی کا طالب ہو۔
’یومِ تکبیر‘ کے بعد پاکستان کے مسلمان نواز شریف سے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ جب بھی اللہ تعالیٰ انھیں ایک مرتبہ اور برسرِ اقتدار آنے کا موقع دے تو ہم سب لوگ پھر ’یومِ تکبیر‘ کے ساتھ ساتھ ’یومِ نفاذِ شریعت‘بھی منانے لگیں کیونکہ یہی نظریہ پاکستان کا آخری مقصود تھا، جس کے لیے گذشتہ 63 سال سے مسلمان تڑپ رہے ہیں، جس کے ذریعے ہی ہمارے سارے مسائل بھی اُسی طرح حل ہوسکتے ہیں جس طرح کہ ہمارے نبیؐ نے عرب دنیا کے سارے مسائل کو حل کر کے دکھا یا تھااوراس سوسائیٹی میںامیری و غریبی کے سارے فرق مٹاکر،مظلوموں کی داد رسی کرنے والا ایک عادلانہ نظام قائم کرکے دنیا کو عدل و انصاف ، مساوات وجمہوریت اور حرّیت و آزادی کا سبق سکھایا تھا،انھیں کے مبارک نقشِ قدم پر چل کر جس طرح خلفاءِ راشدین نے قیصر وکسریٰ کی صدیوں سے قائم سلطنتوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی اور اس وقت کی ساری مہذب دنیا پر اسلام کا پرچم لہرایا تھا جو بعد میں بھی ہندوستان کی مغل سلطنت اور ترکی کی خلافتِ عثمانیہ کی شکل میں بالترتیب 19 ویں صدی کے اواخر اور 20 ویں صدی کی ابتداء تک تاریخ عالم میںسب سے طویل ترین 1200 سال سے زائد عرصہ تک پوری آب و تاب کے ساتھ لہراتا رہا۔یہی تھے وہ خواب جو ہمارے آباء و اجداد نے 1906 میں مسلم لیگ کے قیام کے وقت دیکھے تھے ۔ نواز شریف اپنے دستور میں اپنے آپ کو ان خوابوں کا ’’وارث ‘‘ قرار دیتے ہیں اور جن کی تکمیل کا انھوں نے بیڑہ اٹھانے کا دعویٰ کیا ہوا ہے۔ نفاذِ شریعت کے انہی خوابوں کی تکمیل میں نواز شریف سمیت ہر مسلمان کی اُخروی نجات کی چابی بھی پوشیدہ ہے اور پاکستان کی غربت و افلاس سے نجات، رشوت وکرپشن اور ساری برائیوں کے معاشرہ سے خاتمے،اس کی اقتصادی ترقی وخوشحالی اور بقا و سالمیت کا راز بھی۔
نفاذشریعت ہی وہ کلید ہے جسے ہم اپنے نبیؐ سے وفا کرنا بھی کہتے ہیں کیونکہ شریعت سو فیصد نام ہی ان چیزوں کا ہے جو پوری باریک بینی اور جزئیات کی تفصیلات کے ساتھ ہمارے پیارے نبیؐ نے اپنی قیامت تک آنے والی اُمّت کو بتائی ہیں۔ علامہ اقبال جرمنی کے PH.D اور لندن کے بیرسٹر تھے ، ان پر سیکولرزم یعنی لادینیت کا کوئی پرستار ’’مُلّا‘‘ کی پھبتی نہیں کَس سکتا ۔ انھوںنے نفاذِ شریعت کو محمّدؐ سے وفا کرنے کے الفاظ سے تعبیرکیا ہے۔ انھوں نے شریعت کی برکات کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
پاکستان کے سارے مسائل حل کرنے ، اس کی ساری مشکلات دور کرنے، اس کے معاشرہ سے ساری برائیوں کو دور کرنے ،ظلم و استحصال کی جگہ عدل و انصاف قائم کرنے ،غربت و افلاس ختم کرنے اورمعاشی ترقی کے لیے سعودی عرب کی طرح تیل ،گیس و دیگر معدنیات کے نئے نئے قدرتی وسائل کی دریافت کرنے کے لیے جس رحمت و کرم کے ہم اللہ تعالیٰ سے طلبگار ہیں ، اس کے لیے نفاذِ شریعت کاراستہ چھوڑ کر کیا وہ ہم کو امریکہ،جاپان اور یوروپی ممالک کی نقّالی سے حاصل ہوسکتی ہے؟
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی یہ صنّاعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے (اقبال