روزنامہ جسارت میں’’ قائدآعظم کا تصور پاکستان‘‘ کی پہلی قسط
قائدِآعظم کا تصورِ پاکستان
حسین خاں ۔ ٹوکیو
x یہ سوچنے اور جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ قا ئد آعظم کا تصوّرِ پاکستان کیا تھا؟ ان کے تصوّرِ پاکستان کو ہمارے چند ٹیلیوژن کے مکالموں اور اخبارات وغیرہ میں بعض دانشوروروں،اردواور انگریزی اخباروں کے سیکولر صحافیوں اور حکمران پارٹی کی طرف سے اُلٹے معنی پہنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جس مقصد کے لیے پاکستان بنایاگیا تھا، کیا ہم اُس کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں یا ہمارے حکمران ہمیں اُلٹی سمت میں لے جارہے ہیں؟پاکستان کی آئیڈیالوجی کیا تھی؟سیکولرزم یا اسلام؟نفاذِ لادینیت یا نفاذِ شریعت؟پاک فوج کو مالاکنڈ ڈیویژن میں نفاذِ شریعت کے لیے استعمال کیا گیا یا اس تحریک کو کچلنے کے لیے؟
پاکستان میں شامل ہونے سے قبل جو شرعی نظام 110 سال سے سوات میں رائج تھااس کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے مولاناصوفی محمد نے حکومت سے ایک پُر امن معاہدہ کیا تھا ۔عوامی نیشنل پارٹی حکومت کا بھی یہ کہنا تھا کہ سوات کے عوام کا یہ متفقہ مطالبہ ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی تھی کہ اس شرعی نظامِ عدل سے عوام کو جلد انصاف مل جاتا تھا۔ اس معاہدہ کے نتیجہ میں مولانا صوفی محمد نے اس علاقہ کے طالبان کے لیڈر مولانا فضل اللہ کو راضی کر لیا تھا کہ وہ اپنی سرگرمیاں روک دیں اور حکومت سے اُنھوں نے جو معاہدہ کیا تھا اس پر عمل درآمد کرنے کا موقع دیں۔ مولانا فضل اللہ چونکہ مولانا صوفی محمد کے داماد بھی ہیں، اس لیے بھی وہ اپنے خُسر کی بات کو ٹال نہیں سکے اور طالبا ن کی ساری کارروائیاں اس طرح روک دی گئیں۔ جب چاروں طرف امن امان کا دور دورہ ہوگیا تو انڈین ایجنٹوں کو بھی موقع نہیں مل سکا کہ وہ طالبا ن کے نام پر اپنی دہشت گردی اور انسانیت سوز جرائم کو جاری رکھ سکیں۔
مالاکنڈ ڈیویژن میں طالبان کا جہاد بھی رُک گیا تھا۔اس علاقہ میں امن و امان قائم ہو گیا تھا ۔لیکن ہمارے سیکولر طبقہ کو ایسا امن جو شریعت کے نفاذ کے نام پر ہو، وہ ایک آنکھ نہیں بھایااور خصوصاً ہمارے انگریزی اخبارات کے سیکولر صحافیوں نے اس امن معاہدہ کے خلاف اپنا قلمی جہاد شروع کردیا۔ زرداری صاحب تو اپنی ٹوکیو کی تقریر میں پہلے ہی یہ وضاحت کر چکے تھے کہ ہماری پارٹی تو ایک سیکولر پارٹی ہے۔اپنے آپ کو یا اپنی پارٹی کو سیکولر کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم اور ہماری پارٹی کے جیالے اپنی انفرادی زندگیوں میں نماز،روزہ، حج ، زکوٰۃ، دعوت و تبلیغ،ذکر اذکار ، صدقہ و خیرات اوربزرگوں کی قبروں پر جاکر دعائیں اور منّتیں مانگنے کا کام تو سب کریں گے لیکن پاکستان میں نفاذِ شریعت کی مخالفت کریں گے اور کسی قیمت پر اس ملک میں مُلّاؤوں کو نفاذِ شریعت کے نام پر آگے آنے نہیں دیں گے۔پارٹی کے سیکولر ہونے کا اعلان دوسرے الفاظ میں یہ ہے کہ ہماری پارٹی نفاذِ شریعت کے بجائے نفاذِ لادینیت کے لیے کوشاں رہے گی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس سیکولر پارٹی کے سربراہ صدر زرداری نیشنل عوامی پارٹی کے مولانا صوفی محمد کے ساتھ کیے گئے معاہدہ پر دستخط نہیں کررہے تھے۔ ان سے دستخط کروانے کے لیے پارلیمنٹ کو ایک متّفقہ قرارداد پاس کرنی پڑی۔ اس مجبوری کے تحت دستخط تو کردیے گئے لیکن ایک سیکولر پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے وہ اسی تاک میں رہے کہ کسی طرح اس معاہدہ کو کالعدم کردیا جائے۔ اُدھر ہماری حکومت کے آقا و مولا امریکی سرکار نے نفاذِ شریعت کے اس معاہدہ کو طالبان کے آگے ہتھیار ڈالنا قرار دیا تو پھر کیا تھاکہ اس معاہدہ کو توڑنے کے لیے مولانا صوفی محمد صاحب پر بے بنیاد جھوٹے الزامات کی بارش کی گئی اور امریکی سرکار کی خوشنودی اور ڈالر حاصل کرنے کے لیے پاک فوج کو ناپاک حکم دیا گیا کہ وہ اپنے ہی ملک کے ان لوگوں سے جنگ شروع کردے جو نفاذِ شریعت کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اسطرح امن کی فضاء کو جنگ کی صورتحال میں تبدیل کردیا گیا۔اُدھر انڈین ایجنٹوں کو بھی موقع مل گیا کہ وہ مصنوعی طالبان بن کر مزید جرائم کریں اور سچے طالبان کے نفاذِ شریعت کے مطالبہ کو دفن در گور کردیں اور انھیں دہشت گرد بناکر ذرائع ابلاغ کے سامنے پیش کریں۔اس طرح سیکولر قوتوں کا ایک بڑا اتحاد بن گیا۔حکومت، انگریزی اخباروں کے صحافی، امریکہ اور انڈین ایجنٹ‘ سب کی بناءِ اتحاد یہ تھی کہ پاکستان میں شریعت نہ آنے پائے جسے یہ سب مل کر مُلّاؤوں کا نظام کہتے تھے۔ اس کے نتیجہ میں 20 لاکھ سے زائد افراد بے گھر بھی ہوئے اور ان گنت معصوم بے گناہ مارے بھی گئے۔
مولانا صوفی محمد جیسے طالبان کو پُر امن کرنے والے اورشریعت کا نام لینے والوں پر بغاوت کا مقدمہ چلاکر ہماری حکومت یقیناً اپنے سیکولر ہونے کا ثبوت بھی پیش کررہی ہے اور جنرل مشرف نے پاکستان میں نفاذِ لادینیت کے لیے لال مسجد والے بے گناہوں کوشھیدکرنے اور 29 ۔سالہ شرعی حدود قوانین کو منسوخ کرنے کے جو اقدامات کیے تھے ، اُسی مہم کو آگے بڑھاکر پاکستان کے مقصدِ وجود اور اس کی آئیڈیالوجی کو دریا بُرد کرنے کے عزمِ صمیم کو واشگاف بھی کررہی ہے۔
گذشتہ2سال کے دوران اسلامی قوتیں تو کمزور ہوتی چلی گئیں اور لادینی قوتوں کی یہ جرء ات ہوگئی ہے کہ نفاذِ شریعت کانام لینے والوں کو لال مسجد میںگھس کر ماردیا جاتا ہے اور اگر کوئی زندہ بچ گیا ہو تو اس پر بغاوت کا مقدمہ چلایا جائے گا ، جس کا پہلا شکار مولانا صوفی محمد کو بنایا جارہا ہے کیونکہ اُن کا اصلی جرم یہ ہے کہ انھوں نے گذشتہ 110 سال کی طرح کا سوات میںشرعی نظامِ عدل کے قیام کا مطالبہ کیا تھا۔
پاکستان کی اصل آئیڈیالوجی کے خلاف لادینیت کی مہم کا آغازجسٹس منیر نے کیاتھا۔ اُنھوں نے بانیءِ پاکستان قائدِ آعظم محمد علی جناح ہی کو سیکولر یعنی لادین ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان کی کتاب From Jinnah to Zia 1979 میں شائع ہوئی تھی جس میں انھوں نے یہ انکشاف فرمایا تھا قائد آعظم ایک لادین آدمی تھے۔ اس انکشاف کی بنیاد انھوں نے قائد آعظم کے نام سے ایک جھوٹے حوالہ پر رکھی تھی۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد 25 سال تک سارے سیکولر دانشور اور صحافی اس کو سچ سمجھ کراسی حوالہ کو جسٹس منیر کے نام سے پیش کرتے رہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ سب سے مشہور کتاب رہی۔ سارے لکھاری اسی کتاب کے حوالہ سے اپنے لادینی تصوّرِ پاکستان کو پیش کرتے رہے۔ 2005 میں لندن سے ایک کتاب شائع ہوئی جس میں جسٹس منیر کے جھوٹے حوالہ کی پول کھولی گئی ، ورنہ 25 سال تک سیکولر دانشور اس جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرتے رہے۔
لندن سےSecular Jinnah” کے نام سے 2005 میں ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس میںا س جھوٹ کا پول کھولنے والی مصنّفہ سلینہ کریم کا کہنا ہے کہ جسٹس منیر نے قائد آعظم کے حوالہ سے یہ بتایا کہ قائد آعظم نے پاکستان کے بارے میں یہ الفاظ استعمال کیے ہیں کہ یہ ایک ’’جدید جمہوری مملکت‘‘ ہوگی جس میں ’’ حاکمیت کا انحصار عوام کے ہاتھوں میں‘‘ ہوگا۔ مصنّفہ کا کہنا ہے کہ اگر واقعی قائد آعظم نے اپنے تصوّرِ پاکستان کو ان الفاظ میں پیش کیا ہو تو یقینا اس کا مطلب ایک سیکولر یا لادین پاکستان ہی ہوگا۔
(جاری ہے
اس کالم کو درجِ ذیل ویب اڈریس پر کلک کر کے براہِ راست روزنامہ جسارت کی ویب سائٹ پر بھی پڑھا جاسکتا ہے۔
http://www.jasarat.com/epaper/index.php?page=03&date=2010-06-12#
http://www.jasarat.com/epaper/mmdetails.php?date=12-06-2010&file=01&category=column