History of Japan-08
Afridi
معاہدہ سان فرانسیسکو
جب جاپان کو جنگ عظیم دوئم میں شکست ہوئى تو امریکہ نے جاپان کے تمام انتظامی امور اپنے ہاتھ میں لیکر امریکی افواج نے شاہی جاپانی فوج اور بحریہ کے اڈوں پر قبضہ کرلیا تھا ۔ جاپانی مسلح افواج کی ہر طرح کی سرگرمی مکمل طور پر ختم کی گئى ۔ امریکی فوج بشمول اتحادی افواج کا منصوبہ تھا کہ جاپان کو فوج سے قطعی طور پر صاف کیا جائے اور ایک ایسا آئین مرتب کیا جائے جس میں فوج رکھنے کی کوئى شِق نہ ہو ۔
سن 1950 میں کوریا کی جنگ شروع ہوئى تو جاپان میں اتحادی افواج کے کمانڈر ڈگلس میک آرتھر نے جاپانی حکومت کو پیرا ملٹری ریزرو پولیس رکھنے کی اجازت دی گئى جو بعد میں جاپان کی سیلف ڈیفینس فورس کے نام سے پہچانی جانے لگی ۔ جب معاہدہ سان فرانسیسکو ہوا تو جاپان کی خود مختاری بحال کردی گئى اور اُسے ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا گیا ۔
معاہدہ سان فرانسیسکو ، امن معاہدے کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے ۔ جاپان نے اتحادی ممالک کے ساتھ اِس معاہدے پر 8 ستمبر1951 کو دستخط کیے جس سے جاپان اور اتحادی ممالک کے درمیان جنگ کے خاتمے کا باضابطہ طور پر اعلان کیا گیا ۔ اِس معاہدے کے تحت جاپان نے اتحادی ممالک کے عام شہریوں اور سابق جنگی قیدیوں کو معاوضہ دینے پر رضامندی ظاہر کی ۔ اِس کانفرنس میں امریکہ، جاپان، برطانیہ، فرانس، انڈونیشیا، آسٹریلیا اور پاکستان سمیت 52 ممالک نے شرکت کی ۔ برما ، بھارت یوگوسلاویہ کو بھی مدعو کیا گیا تھا تاہم اُنہوں نے شرکت نہیں کی ۔ عوامی جمہوریہ چین اور تائیوان نے بھی خانہ جنگی کی وجہ سے حصہ نہیں لیا ۔ سوویت یونین نے اِس معاہدے پر سخت تنقید کی اور کہا کہ امریکہ اور برطانیہ نے جو امن مسودۀ تیار کیا ہے اُس میں روس کے مفادات کا خیال نہیں رکھا گیا اور نہ ہی مشورہ کیا ۔ سوویت یونین کے نائب وزیرِ خارجہ آندرے گرومیکو اور اُن کے وفد نے کئى بار کاروائى روکنے کی کوشش کی اور جس روز معاہدہ دستخط ہورہا تھا اُس روز گرومیکو نے اعتراضات بھرا ایک تفصیلی بیان جاری کیا ۔ سوویت یونین کو یہ اعتراض بھی تھا کہ اِس معاہدے کے بعد جاپان، امریکہ کا فوجی اڈہ بن جائے گا جس سے سوویت یونین کی سلامتی کو براہِ راست خطرہ ہے ۔
معاہدے کے مطابق، بونین اور ریوکیو کے جزائر جن میں اوکیناوا،عمامی، میاکو اور یائی یاما کے جزیرے بھی شامل تھے، امریکہ کے تسلط میں دئیے گئے ۔ جاپانی حکومت، کمپنیوں، تنظیموںاور عام شہریوں کے تمام اثاثوں کو ضبط کیا گیا ۔ ایک اندازے کے مطابق، جاپان کے کوریا میں اثاثوں کی مالیت 46 کروڑ 80 لاکھ امریکی ڈالر سے زیادہ تھی ۔ تائیوان میں 2 ارب 84 کروڑ61 لاکھ ڈالر،شمال مشرقی چین میں 9 ارب 76 کروڑ88 لاکھ،شمالی چین 3 ارب 69 کروڑ 58 لاکھ،وسطی جنوبی چین میں 2 ارب 44 کروڑ 79 لاکھ ڈالر جبکہ دیگر علاقوں میں ایک ارب 86 کروڑ 76 لاکھ ڈالر تھی ۔
جاپان كواثاثوں کے ضبط کرنے کے علاوہ پابند کیا گیا کہ وہ برما کو 20 کروڑ ڈالر، فلپائن کو 55 کروڑ، انڈونیشیا کو 22 کروڑ 30 لاکھ 80 ہزار اور ویت نام کو 3 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کا معاوضہ ادا کرے گا ۔
اِس معاہدے کے شِق نمبر5 کے تحت ، جاپان نے اپنآپ کو پابند کرلیا کہ وہ اپنے بین الاقوامی تنازعات کوپرامن طریقوں سے حل کرے گا ۔ کسی ملک کی خودمختاری یا سیاسی آزادی کے خلاف دھمکی یا طاقت کے استعمال سے گریز کرے گا ۔ اقوام متحدہ کے اپنے چارٹر کے مطابق کی جانے والی کاروائیوں میں معاونت کرے گا ۔
جنگِ کوریا اور جاپان
جب امریکہ نے جاپان پر قبضہ کرلیا تو جنگ عظیم دوئم کے اختتام پر اتحادیوں نے کوریا سے پوچھے بغیر،اُن کی سرزمین کو یک طرفہ طور پر امریکہ اور سوویت یونین کے مابین اڑتیئس متوازئ خط پرتقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ۔ چونکہ مشرق و مغرب اور سوشلسٹوں اور سرمایہ داروں کے مابین سرد جنگ شروع ہوچکی تھی اِسلئے نہ صرف یورپ اور افریقہ بلکہ ایشیاء کے کئى حصوں پر ایک اور عالمی جنگ چھڑنے کے آثار خاصے گہرے ہوتے جارہے تھے، بلکہ خدشہ تھا کہ اب ایک ایٹمی جنگ ہونے والی ہے کیونکہ سنہ 1949 کے اواخر میں سوویت یونین ایٹمی صلاحیت کا تجربہ کرچکا تھا ۔ جزیرہ نماء کوریا پرجنگ کے بادل تیزی کے ساتھ چھاگئے تھے کیونکہ جنوبی کوریا ، امریکہ کے زیرِ عتاب تھا جبکہ شمالی کوریا، سوویت یونین اور چین کے زیرِ اثر تھا ۔ کوریا کے اِن دونوں حصوں نے اپنے قانونی ہونے کا دعویٰ کیا ۔
گو کہ جاپان نے کوریا پر سنہ 1910 میں قبضہ کرلیا تھا لیکن اِس سے کافی عرصہ پہلے وہ جاپان کے اثر و رسوخ کے تحت رہا ۔ کوریائى لوگوں نے جاپانی قبضے کے خلاف خاصی طویل جدوجہد کی ۔ جاپان کے خلاف لڑنے والے گوریلہ گروپ کے ایک رہنماء کم ال سنگ تھے جنہیں سوویت یونین سے تربیت اور مالی اور فوجی اعانت ملتی تھی ۔
جب جاپان ایٹمی حملے کے بعد شکست کھانے لگا تھا تو اُسی دوران سوویت افواج نے شمالی کوریا کی جانب سے حملہ کیا اور اُس کی فوجیں بڑھتے بڑھتے اڑتیس متوازی خط تک پہنچ گئیں تھیں جہاں پر جزیرہ نماء کوریا کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ۔ گوریلہ لیڈر کیم ال سنگ ، شمالی کوریا کے رہنماء بنے اور اُنہوں نے مُلک کو سوشلسٹ بُنیادوں پر استوار کرنا شروع کردیا ۔ اُنہیں سوویت یونین سے بدستور امداد ملتی رہی لیکن جنوبی کوریا کو امریکہ کی جانب سے کوئى خاص مدد نہیں مل رہی تھی ۔ سنہ 1949 کے اوائل میں جاپان سے آزادی حاصل کرتے وقت کیم ال سنگ نے سوویت یونین کے رہنماء جوزف سٹالن سے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ جنوبی کوریا پر چڑھائى کرکے اُس پر قبضہ کرلیا جائے ۔
جون 1950 میں شمالی کوریا ئى حکومت نے دونوں کے ادغام کیلئے تجاویز دیں لیکن جنوبی کوریا نے مسترد کیں ۔ پانچ روز بعد ایک اور تجویز پیش کی گئى لیکن وہ بھی مناسب نہ ہونے کی بناء پر مسترد کردی گئى اور اِسی اثناء شمالی کوریا کی فوجوں نے خطِ تقسیم کے مختلف علاقوں سے حملہ کردیا اور مختصر وقت اُن کی پیش قدمی جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول تک پہنچی ۔ اُن کا ارادہ تھا کہ پُسان کی بندرگاہ پر قبضہ کرکے بیرونی کُمک کا راست روک دیا جائے ۔ ستائیس جون 1950 کو سلامتی کونسل نے ایک قرارداد کے ذریعے شمالی کوریا کی جارحیت کی مذمت کی اور اُس کے خلاف فوجی کاروائى کا حکم دیا ۔ سوویت یونین اور چین نے مخالفت کی ۔ اقوام متحدہ کی زیرِ قیاد فوجوں نے بھرپور تیاری کے ساتھ جوابی کاروائى شروع کی ۔ امریکہ اور اقوام متحدہ کی افواج کی خوش قِسمتی تھی کہ جاپان اگلے محاذ کیلئے بہترین اڈے کے طور پر موجود تھا ۔ جاپان کی بندرگاہیں، ہوائى اڈے اور دیگر تنصیبات کے ساتھ ساتھ ایک تعلیم یافتہ اور جفاکش جاپانی قوم سے بھی استفادہ کیا جاسکا ۔ امریکی بحریہ کیلئے جاپان کے مغربی کیوشو میں بندرگاۀ ساسیبو کافی مدد گار ثابت ہوئى کیونکہ یہ علاقہ کوریا کے جنوب سے تقریباً 165 سمندری میل کے فاصلے پر تھا ۔ اِسی طرح ٹوکیو کے نزدیک یوکوسوکا کا علاقہ جنگی سازو سامان کی صفائى اور مرمت کیلئے بہترین اڈہ تھا ، حالانکہ یہ جنگی محاذ سے 700 سمندری میل کے فاصلے پر تھا ۔
15 ستمبر 1950 کو امریکی جنرل میک آرتھر نے شمالی کوریائى فوجوں پر 40 ہزار امریکی اور برطانوی افواج کی بھرپور قوت کے ساتھ پیچھے سے حملہ کیا اور شمالی کوریائى فوجوں مارتے دھکیلتے ہوئے چین کے دریائے یالو تک پہنچا دیا ۔ جنرل میک آرتھر کا اندازہ تھا کہ چین مداخلت نہیں کرے گا مگر یہ سب غلط ثابت ہوا اور چین نے تقریباً 3 لاکھ فوج سے حملہ کیا اور سال کے اختتام تک اقوام متحدہ کی فوجوں کو مارتے ہوئے واپس خط تقسیم تک پہنچا دیا ۔ اِس کے بعد جنوری 1951 میں چینی اور کوریائى فوجوں نے موسمِ سرما کا بڑا حملہ کرکے سیئول تک چڑھائى کی ۔ امریکی زیرقیادت اقوام متحدہ کی فوجوں کے حوآلے بڑی حد تک پست ہوچکے تھے اور یہاں تک کہ مقالہ کرنے کیلئے ایٹمی حملہ پر سوچا جانے لگا ۔ کئى محاذوں پر لڑائى کے ساتھ ساتھ جنگ بندی کے مذاکرات بھی ہوتے رہے ۔ سرد جنگ کی پہلی پراکسی جنگ 1950 سے 1953 تک لڑی گئى اور بالاخر 27 جولائى 1953 کو جنگ بندی کا معاہدہ دستخط ہوا ۔
جنگِ کوریا سے جاپان کو اقتصادی طور پر بڑے فوائد حاصل ہوئے ۔ چونکہ اقوام متحدہ کی افواج نے زیادہ تر جنگی کاروائیوں کیلئے جاپان کی سرزمین استعمال کی لہذا یہاں کے کارخانوں اور فیکٹریوں کی پیداوار میں بھر پور اضافہ ہوا کیونکہ ضروریات یہیں سے خرید کر پوری کی جاتی تھیں ۔ روزگار میں تیزی سے اضافہ ہوا اور تعمیراتی کا بڑے پیمانے پر ہوا ۔ چونکہ جاپان، امریکہ کے فوجی دفاعی چھتری تلے رہ رہا ہے اِسلئے اُسے دفاع پر نہ ہونے کے برابر خرچ کرنا پڑا اور تمام فنڈز معاشی ترقی، سرمایہ کاری، صنعتوں کے قیام اور بہتر معاشرتی زندگی پر خرچ ہونے لگے ۔
چونکہ جاپان خطے کے ایک اہم قوت کے طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا اِسلئے معاہدہ سان فرانسیسکو کے ذریعے اُس کے بین الاقوامی وقار کو بحال کیا ۔ بعد میں اِسی معاہدے پر نظرثانی کرکے باہمی تعاون اور سلامتی کا ایک نیا معاہدہ دستخط کیا گیا ۔
جاپان ۔ امریکہ باہمی تعاون اور سلامتی کا معاہدہ
جنگ کوریا اور سوویت یونین اور چین کی فوجی طاقت نے امریکہ کو مجبور کردیا تھا کہ وہ اپنے دشمن مُلک جاپان کے ساتھ باہمی تعاون اور سلامتی کی بنیاد اپنے روابط کو مزید مضبوط کردے ۔ چونکہ جاپان کی کوریا سمیت چین اور روس کے ساتھ ماضی کے ادوار کئى تلخیوں سے بھرے پڑے تھے لہذا یہ پیش رفت دونوں ممالک کے مفاد میں تھی ۔
جاپان اور امریکہ نے سنہ 1951 کے سلامتی کے معاہدے پر نظر ثانی کرنے اور ایک نیا معاہدہ دستخط کرنے کیلئے سنہ 1959 میں مذاکرات کا آغاز کیا اور بالاخر 19 جنوری 1960 کو دونوں مُلکوں نے واشنگٹن ڈی سی میں باہمی تعاون اور سلامتی کے معاہدے پر دستخط کیے ۔ لیکن توقعات کہیں زیادہ خراب صورت حال اُس وقت سامنے آئى جب یہ معاہدہ منظوری کیلئے 5 فروی کو جاپانی پارلیمان میں پیش کیا گیا ۔ حزب اختلاف نے اِس معاہدے کی بھرپور مخالفت کی اور ایوان نمائندگان میں تند و تیز بحث ہوئى ۔ جاپان سوشلسٹ پارٹی نے اُس وقت کی حکمراں جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے قانون سازوں کو ایوانِ زریں میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی ۔ بڑی تعداد میں پولیس فورس بُلوائى گئى ۔ طالب علموں اور مزدور انجمنوں نے مُلک بھر میں وسیع پیمانے پر مظاہرے شروع کیے ۔ صورت حال یہاں تک ابتر ہوئى کہ امریکی صدر آئیزن ہاور کا طے شُدہ وقت کے مطابق دورہ نہ ہوسکا ۔ یہ جنگ عظیم دوئم کے بعد جاپان کا سب سے بڑا اندرونی سیاسی انتشار سمجھا جاتا ہے ۔ اِسی معاہدے کی وجہ سے جاپان کے وزیرِاعظم کیشی نوبوسوکی کو بھی مستعفی ہونا پڑا ۔
سولہ جون کو معاہدہ منظور ہوا، جس کے مطابق اگر جاپانی انتظامیہ کے ماتحت کسی علاقے پر مسلح حملہ ہوا تو دونوں ممالک ایک دوسرے کی مدد کرنے کے پابند ہونگے ۔ چونکہ جاپان کو صرف خود دفاعی فوج رکھنے کی اجازت ہے اِسلئے وہ امریکی سرزمین پر امریکہ کی مدد کا اختیار نہیں رکھتا ۔ جاپان میں موجود امریکی افواج اگر کسیقِسم کی فوجی نقل و حمل کرے گی تو وہ جاپانی حکومت کو پہلے سے اطلاع دے گی ۔ اِس کے علاوہ بین الاقوامی تعاون اور باہمی اقتصادی تعاون کو فروغ دینے پر بھی اتفاق کیا گیا ۔ یہ معاہدہ دس سال کیلئے دستخط کیا گیا ۔
ٹوکیو اولمپک 1964
جاپان میں گرمائى اولمپک کھیلوں کا انعقاد سن 1964 میں کیا گیا تھا ۔ گو کہ اِس سے پہلے سن 1940 کے اولمپک کھیلوں کی میزبانی بھی جاپان کو دینے کی منظوری مل گئى تھی ، مگر جاپان کی جانب سے چین پر حملے کے باعث یہ اعزاز ہیلسنکی کو دیا گیا تاہم کھیلوں کا انعقاد نہ ہوسکا کیونکہ جنگ عظیم دوئم کی وجہ اِن کھیلوں کی منسوخی کا اعلان کیا گیا ۔
ٹوکیو اولمپک میں امریکہ نے 36 گولڈ کے ساتھ پہلے ، سوویت یونین نے 30 گولڈ میڈل کے ساتھ دوسرے اور جاپان نے 16 گولڈ میڈلز کے ساتھ تیسری پوزیشن حاصل کی تھی ۔ یہ ایشیاء میں منعقد ہونے والے پہلے اولمپک کھیل تھے ۔ ایک اندازے کے مطابق ، ٹوکیو میں کھیلوں کے انعقاد کیلئے تقریباً 3 بلین امریکی ڈالرز خرچ کیے گئے ۔
جاپانی صنعتی پیداوار میں تیز ترقی
امریکی قبضے اور ٹوکیو اولمپک کھیلوں کے بعد جاپانی معاشرہ تیزی سے مغربی انداز اپنانے لگا۔ امریکی موسیقی، لباس اور اندازِ زندگی اپنایا جانے لگا ۔ جاپان کے کئى دانشوروں کی تخلیقات کو یورپ اور امریکہ میں پذیرائى ملنے لگی ۔ جاپانی انیمیشن کارٹون اور مانگا کامِک کتابیں دُنیا بھر میں مشہور ہونے لگیں ۔ کہا جاتا ہے کہ 1960 کی دہائى میں جاپان نے اتنی بہترین معاشی پالیسیاں مرتب کیں کہ اُس کا سالانہ اقتصادی شرح نمو 9 فیصد تک پہنچا ۔ خاص طور پر آٹوموبائل اور الیکٹرانکس کی صنعت نے زیادہ ترقی کی ۔ بندرگاہوں، سڑکوں اور ریلوئے لائنوں کی تعمیر کی گئى ، جس کی وجہ سے جاپانی برآمدات تیزی سے بڑھانے میں بہت زیادہ مدد ملی ۔ سرکاری اخراجات میں کمی کی گئى اور ٹیکس آمدنی کو عوامی فلاحی منصوبوں کیلئے بہتر طور پر استعمال کیا جانے لگا ۔ چونکہ لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کو اکثریت حاصل تھی جس نے 1963 کے انتخابات میں 55 فیصد ووٹ جیتے تھے اور ایوانِ زریں میں 60 فیصد نشیستیں جیت لیں تھی اِسلئے اُسے بہتر پالیسیاں تشکیل دینے میں خاصا اختیار حاصل تھا اور اُس نے مُلک کو بڑی اقتصادی ترقی سے ہمکنار کیا ۔ اُسی دور میں شنکانسن ٹرین کا آغاز کیا گیا ۔ سن 1964 میں آغاز کرنے والے توکائیدو شنکانسن کی ابتداء میں رفتار 210 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی جس کی رفتار سن 2003 میں مقناطیسی نظام کے تحت ورلڈ ریکارڈ 581 کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچی ۔
سنہ 1960 کی دہائى میں جاپانی گاڑی ساز صنعت نے تیزی سے ترقی کرنی شروع کی اور کہا جاتا ہے کہ جاپانی وزارتِ بین الاقوامی تجارت و صنعت نے اِس حوالے سے کلیدی کردار ادا کیا ۔ 1950 کی دہائى کی وسط میں “عوامی گاڑی” تیار کرنے کیلئے کئى اعانتیں دیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب بین الاقوامی سطع پر مسابقت سازی میں تیزی آئى تو وزارت نے 60 کی دہائى کی وسط میں جاپانی گاڑی سازوں کے ادغام پر زور دیا اور نسان نے پرنس موٹرز اور اِسی طرح ٹویوٹا نے ہینو اور ڈائیاہتسو کو ضم کیا ۔ اِس فیصلے کے بہت دور رس نتائج سامنے آئے اور جاپان چند سالوں میں دُنیا کا گاڑیاں بنانے کا چھٹا بڑا ملک بنا ۔
جنگ عظیم دوئم کے بعد جاپانی الیکٹرانکس مصنوعات میں بھی تیزی سے ترقی ہوئى اور معیار و پیداوار دونوں میں اضافہ ہوا ۔ اِس میدان میں سونی نے بڑا کردار ادا کیا ۔ یہ کمپنی سنہ 1946 میں ماسارو ایبوکا اور آکیو موریتا نے قائم کی تھی ۔ سونی نے جدید الیکٹرانکس میں بڑی تیزی سے ترقی کی اور پہلا پاکٹ سائز ریڈیو ایجاد کرکے سونی نے جاپان اور دُنیا بھر میں بڑا نام کمایا ۔ بعد میں جاپانی کمپنیوں نے ٹرانزسٹرز کے بعد سیمی کنڈکٹرز کی پیداوار شروع کی جس کی دُنیا بھر میں بہت مانگ رہی ۔
جاپانی مصنوعات نے بہتر معیار کی وجہ سے دُنیا کر ہر مارکیٹ پر غالبہ پانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے اُسے امریکہ اور یورپ کے مصنوعات کے مقابلے میں ترجیح دی جانے لگی ۔
عموماً کہا جاتا ہے کہ جاپان کی ترقی میں لبرل ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اِس پارٹی کا سنہ 1955 میں اُس وقت قیام عمل میں لایا گیا جب جناب یوشیدا شیگیرو کی زیرِقیادت لبرل پارٹی اور جناب ایچیرو ہاتویاما کی قیادت میں جاپان ڈیموکریٹک پارٹی کا ادغام کیا گیا ۔ یہ دونوں قدامت پسند جماعتیں تھیں اور اِن کا مقصد جاپان سوشلسٹ پارٹی کے خلاف ایک مضبوط اتحاد قائم کرنا تھا ۔ اِسی اتحاد کی بدولت اُنہوں نے بائیں بازوکی جماعتوں کے خلاف اکثریت حاصل کرکے اقتدار سنبھالا ۔
ایل ڈی پی پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ امریکی انٹیلیجنس ایجنسی سی آئى اے سے بھرپور مالی معاونت حاصل کرتی رہی ہے تاکہ سوشلسٹ اور کمیونسٹ نظریات والی بائیں بازو کی جماعتیں اقتدار میں نہ آئیں ۔ امریکی پالیسی تھی کہ جاپان میں کسی بھی صورت میں سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کا زور نہ بڑھے کیونکہ جاپان کے ہمسایہ ممالک سوویٹ یونین ، شمالی کوریا اور چین پہلے ہی سوشلزم کا نظام رائج کرچکے تھے اور امریکہ ، یورپ میں بھی سوشلزم کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے اقتصادی اور فوجی اقدامات کرچکا تھا ۔
امریکی جنرل میک آرتھر نے 6 جون 1950 کو اُس وقت کے وزیر اعظم یوشیدا کے نام ایک خط بھیجا تھا جس میں اعلٰی سرکاری عہدوں پر تعینات کمیونسٹ نظریات کی حامل شخصیات نکالنے کی تاکید کی گئى تھی ۔ جریدے ایشیاء پیسیفیک کے مطابق، 1948 سے 1950 تک کی مدت میں انتظامی عہدوں، سرکاری سکولوں کے اساتذہ اور یونیورسٹی پروفیسروں اور نجی کمپنیوں سے سوشلسٹ نظریات کے 27 ہزار سے زائد افراد کو نکال دیا گیا تھا ۔
جاپان اور جنوب ۔ مشرقی ایشیا ء
جاپان نے اُن ایشیائى ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی بھرپور کوشش کی جن پر جاپانی شاہی فوج کا قبضہ رھا یا جاپانی جارحیت کا شکار رہے ۔ گو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تعلقات میں بہری آئى ہے تاہم یا یاسکونی زیارت کا ذکر کرنا تمہید کے طور پر ضروری ہے کیونکہ یہ معاملہ اب بھی کبھی کبھار اُس وقت تنازعہ کی صورت اختیار کرلیتا ہے جب جاپانی پارلیمنٹ کے اراکین یا مقتدر شخصیات اِس زیارت کا دورۀ کرتے ہیں ۔
یہ شنتو مذہب کی زیارت ہے جواُن افراد کی روحوں کی یاد کیلئے ہے جنہوں نے سنہ 1867 سے 1951 تک سلطنتِ جاپان کی خدمت کی یا لڑتے ہوئے مرگئے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق ، زیارت کے ریکارڈ بُک میں چوبیس لاکھ ، چھیاسٹ ہزار پانچ سو بتیس روحوں کا اندراج کیا جا چکا ہے ۔ اِس میں ایک ہزار اڑسٹھ وہ افراد بھی ہیں جنہیں جنگ عظیم دوئم میں جنگی جرائم کے پاداش میں اتحادیوں کے قائم کردہ ٹربیونلز نے سزائے موت سنا دی تھی ۔
جاپانیوں کو یہ افسوس زندگی بھر رہے گا کہ اُن کے افراد کو جنگی جرم کی بناء پر سزائے موت دی گئى لیکن ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے میں لاکھوں بے گناہ افراد کو ہلاک وہ زخمی کرنے کے جرم میں کسی امریکی کو سزاء نہیں دی گئى ۔ جاپان کے اراکین پارلیمنٹ یا وزیراعظم نے جب بھی اِس زیارت کا دورۀ کیا ہے تو چین، شمالی و جنوبی کوریا اور تائیوان سمیت کئى حلقوں سے تنقید بھری آوازیں اُٹھتی ہیں کہ جن لوگوں نے اِن ممالک کے عوام کے خلاف جنگی جرائم کیے ہیں اُنہیں کسی بھی صورت میں تعظیم پیش نہ کی جائے ۔ جاپان کے سابق وزیر اعظم جُن ایچیرو کوئى زومی اِس حوالے سے خاصے تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں جنہوں نے سنہ 2001 سے 2006 تک باقاعدگی سے یاسکونی زیارت کا نجی طور پردورۀ کیا ۔
جنگ عظیم دوئم کے بعد ، جاپانی خارجہ پالیسی نے کروٹ لی اور جنوب مشرقی ایشیاء کے جن ممالک کو جاپانی عسکریت پسندی سے بہت نقصان پہنچا تھا اُن کے ساتھ سنہ 1950 کی دہائى میں روابط بحال اور مضبوط کرنے کیلئے مختلف اقدامات کیے گئے ۔ سنہ 1954 میں جاپان نے کولمبو منصوبے میں حصہ لیا اور کئى جاپانی تکنیکی اور زرعی ماہرین کو خطے کے مختلف ممالک میں تربیت اور رہنمائى فراہم کرنے کیلئے بھیجا ۔ اُسی سال کاروباری تنظیم ایشین ایسوسیشن قائم کی گئى جس کا مقصد، جاپانی آلات اور اور ٹیکنالوجی کو ایشیاء کے ترقی پذیر ممالک کو بہم پہنچانا تھا ۔ ایک سال بعد، جاپان نے اقوام متحدہ کے اقتصادی کمیشن برائے ایشیاء اور مشرقِ بعید میں شمولیت اختیار کی، اور سنہ 1955 ہی میں جاپان نے ایشیاء۔افریقہ کانفرنس کیلئے وفد بھیجا ۔ جب لبرل ڈیموکریٹک پارٹی معرِض وجود میں آئى تو اُس وقت کے وزیر خارجہ نے خیال ظاہر کیا کہ اُن کا مُلک ، جنوب مشرقی ایشیاء میں استحکام پیدا کرنے کیلئے طویل مدتی اقتصادی منصوبوں کا ارادہ رکھتا ہے ۔ اُسی دہائى میں جاپان نے جنگ کے نقصانات کا ازلہ کرنے کیلئے سنہ 1960 سے پانچ سالہ مدت میں جنوبی ویت نام کو 3 کروڑ 90 لاکھ ڈالر ادا کرنے پر اتفاق کیا ۔ اِسی طرح چھ سالہ مدت میں لاؤس کو 20 لاکھ 80 ہزار ڈالر، کمبوڈیا کو پانچ سال میں 40 لاکھ 20 ہزار ڈالر اور تھائى لینڈ کو 2 کروڑ 68 لاکھ ڈالر کی ادائیگی پر رضامندی ظاہر کی گئى ۔
چونکہ اِسی دہائى میں جنگِ ویت نام شروع ہوگئى تھی جو 30 اپریل 1975 تک جاری رہی ، تاہم جاپان نے اپنا غیر جانبدار موقف اپنایا ۔ اِس جنگ میں کوریا کی تاریخ دہرائى گئى جہاں شمالی ویت نام کی کمیونسٹ اتحادیوں نے مدد کی جبکہ جنوبی ویت نام کی امریکہ اور جنوب مشرقی ایشیائى معاہدہ تنظیم سیٹو نے مدد کی ۔ اِس جنگ میں ویت نامیوں نے امریکی استعمار کے خلاف گوریلہ جنگ لڑی جو امریکہ کیلئے بہت مہنگی پڑی اور بالاخر اُسے وہاں سے نکلنا پڑا ۔
ویت نام کی جنگ میں جاپان نے فوجی کردار ادا نہیں کیا بلکہ مزاکرات کے عمل کو آگے بڑہانے کی حوصلہ افزائى کی ۔ امن قائم ہونے کے بعد جاپان اور ویت نام کے سفارتی تعلقات اگست 1975 میں قائم ہوئے ۔
جاپان ۔ چین تعلقات
جاپان اور چین کی تاریخ کئى باہمی رشتوں اور رنجشوں سے بھری پڑی ہے ۔ کیونکہ جغرافیائى لحاظ سے دونوں ممالک کے مابین پانی کی ایک تنگ سی پٹی حائل ہے اِسلئے ایک دوسرے پر اثر انداز ہونا ایک فطری سی بات ہے ۔
جنگ عظیم دوئم کے بعد ، دونوں ممالک کے دوطرفہ تعلقات میں اُس وقت تیزی آئى جب 1960 کی دھائى میں روس اور چین کے تعلقات خراب ہوئے جس کی بناء پر روس نے اپنے تمام ماہرین واپس بلوا لیے اور ایسے میں چین کے پاس بہتر راستہ یہی تھا کہ وہ جاپان کی تکنیکی مہارت اور مستحکم مالی حثیت سے استفادہ کرے ۔ اِس سلسلے میں پہلا بڑا قدم لیؤ۔ تاکاساکی معاہدہ تھا جس کی بدولت جاپان ، چین کو صنعتی کارخانوں کی خرید کیلئے مالی معاونت دینے پر رضامند ہوا اور چین کو ٹوکیو میں اپنا تجارتی مِشن کھولنے کی اجازت دی گئى ۔ دونوں مُلکوں کے باہمی تعلقات میں اُس وقت تیزی پیدا ہوئى جب 1972 میں امریکی صدر رچرڈ نکسن نے عوامی جمہوریہ چین کا پہلی بار دورۀ کیا ۔ یہ دورۀ اُس وقت طے پایا جب اُس وقت کے امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر ھنری کسینجر نے پاکستان کے توسط سے خُفیہ طور پر بیجنگ کا جاکر باہمی تعلقات میں بہتری لانے کیلئے نکسن کے دورے کا اہتمام کیا ۔ جاپان کے اُس وقت کے وزیر اعظم تاناکا کاکوئے نے اقتدار سنبھالنے کے بعد بیجنگ کا دورۀ کیا اور ستمبر 1972 میں دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات قائم ہوئے ۔ ماؤژے دونگ کی وفات کے بعد چین میں اقتصادی اصلاحات کو آغاز ہوا تو ٹوکیو اور بیجنگ کے تعلقات میں وسعت لانے کی مزید گنجائش پیدا ہوئى ہے، کیونکہ اب چین میں نجی ملکیت کے کاروبار کو ترقی ملنے لگی تھی اور یوں جاپانی سرمایہ کاروں کو سرمایہ لگانے کے کئى شعبے پیدا ہوئے ۔
جاپان اور چین کے مابین امن معاہدے کیلئے سنہ 1974 میں بھی کوشش کی گئى تھی لیکن کچھ شِقوں پر اختلاف کی وجہ سے یہ سلسلہ رُک گیا تھا ۔ شمالی تائیوان میں واقع سینکا کو جزائر پر اور ریوکیو جزائر کے جنوبی حصے پربھی اختلاف تھا ۔ چار سال بعد دونوں ممالک نے امن عمل کو ایک بار پھر بڑھایا اور 12 اگست 1978 کو امن اور دوستی کے معاہدے پر دستخط ہوئے ۔ چین کے رہنماء ڈینگ ژیاؤپنگ اور جاپان کے وزیراعظم فوکودا تاکئو نے اِس معاہدے پر دستخط کیے اور یوں ایشیاء کی دو بڑی طاقتوں کے مابین پرانی دشمنی دوستی میں بدلنے کی راہ ہموار ہوئی۔
۔ختم شد۔