حسین خان ۔ ٹوکیو
0 کیا اسلام میں موسیقی جائز ہے؟مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرنے کے لیے ہراتوار کو عیسائیوں کی کلیساؤں میں موسیقی کے ساتھ گانے گائے جاتے ہیں۔ ہندو اپنے مندروں میں بھجن گاتے ہیں۔لیکن مسلمانوں کی کسی مسجد میں موسیقی کے ساتھ ذکر اذکار کی کوئی محفل سجائی نہیں جاتی۔ کیا مسلمانوں کو اپنے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے؟کیا یہ طریقے نبی کریم ؐ کے دور میں ہندوؤں اور عیسائیوں میں رائج نہیں تھے؟ اگر تھے تو پھر کیوں نبی کریم ؐ نے ان طریقوں کو اپنانے کا حکم کیوں نہیں دیا؟ اس کے بجائے اُلٹا قران و حدیث میں موسیقی کو منع کیا گیا ہے۔
بعض صوفیاء نے قوالی کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ اس میں اللہ تعالی کی عظمت رسولؐ سے محبت کا کلام ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور رسول ؐ کی محبت دلوں میں بٹھانے کا یہ طریقہ کیا ہمارے نبیؐ اور ان کے صحابہ کرام نے کبھی اختیار کیا ہے؟ کیا اللہ کے رسولؐ نے نماز،روزہ، قران خوانی اور مسنونہ ذکر اذکار کے ساتھ ساتھ اس کی بھی تلقین کی ہے کہ تم موسیقی کی دھنوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ اور رسول ؐ کا ذکر کیا کروتواس صورت میں تم کو زیادہ اجر ملے گا یاالٹایہ کہ بانسری کی آواز سننے والے صحابہ نے اپنے کانوں میں انگلیاں دے کر اس کو اتّباعِ رسول قرار دیا تھا؟اللہ اور اس کے رسول ؐنے نعوذ با للہ گانے کے ذریعہ تزکیہ نفس کے لیے یہ’’ کمی‘‘کیوں رہنے دی، جسے ہندو اور عیسائیت جیسے دوسرے مذاہب نے اختیار کیا ہواہے؟
اس موضوع پر فی الحال میں اپنا ایک پرانا مضمون معمولی سی رد و بدل کے ساتھ پیش کررہا ہوں۔امید کہ تویاما میںاسطرح کی محفل کے منتظمین نے جن اعلیٰ مقاصد کے لیے اپنی تنظیم خدمتِ خلق کے جذبہ سے بنائی ہے،وہ قران و حدیث اور صحابہ کرام کے طریقوں سے مسلمانوں کو ہٹانے کے لیے اس پاک و مبارک تنظیم کو استعمال کرنے سے پرہیز کریں گے۔
اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کلامِ پاک میںفرمایا ہے:
وَمِن النّاسِ مَن یَّشتَرِی لَھُوَ الحَدِ یثِ لِیُضِلَّ عَن سَبِیلِ اللہِ بِغَیرِ عِلمٍ ق وَّ یتّخِذَ ھَاھُزُوًا ط اُولَءِکَ لَھُم عَذَابُٔ مُّھِینُٔ (سورۃ لقمان۔ آیت 6 ) :
ترجمہ ’’اور انسانوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کلام دلفریب خرید کر لاتا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے علم کے بغیر بھٹکادے اور اس راستہ کی دعوت کو مذاق میں اڑادے۔ ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔‘‘
مندرجہ بالا آیت میں گانے کی محفل میں شرکت کا عمل ’’ لَھُوَ الحَدِ یثِ ‘‘کی تعریف میں آتاہے کیونکہ اس سے مراد ایسی بات ہے جو آدمی کو اپنے اندر مشغول کر کے ہر دوسری چیز سے غافل کردے ۔ ان الفاظ کا اطلاق گپ شپ، خرافات، ہنسی مذاق، داستانیں ، افسانے، ناول، گانا بجانا ،موسیقی کی دھنوں سے محظوظ ہونا، فلمیں دیکھنا یا فلموں کے ویڈیو دیکھنا وغیرہ اور اسی طرح کی دوسری چیزوںپر ہوتا ہے۔ان سارے خرافات میں پڑنے والے نوجوان ان چیزوں کا جواز یہ بتاتے ہیں کہ آدمی کو اپنے کام دھندے کی مصروفیات کے بعد کچھ سیر و تفریح کی یا اپنے آپ کو Relax کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جو ان خرافات سے میسر آتی ہے کیونکہ اس چیزوں میں پڑکر آدمی کچھ دیر کے لیے اپنے آپ کوآلامِِ روزگار سے آزاد محسوس کرتا ہے یا کچھ دیر کے لیے اپنے درد و غم بُھلا بیٹھتا ہے۔یہ بات تو اپنی جگہ بظاہر صحیح لگتی ہے لیکن اسی وجہ سے اس سے منع کیا گیا ہے کہ ان اعمال سے آدمی کے دل و دماغ پر غفلت کے پردے پڑجاتے ہیںاور وہ تھوڑی دیر کے لیے دنیا و مافیھا سے بے خبر ہو کر اپنے آپ کو دھوکہ تو دے لیتا ہے لیکن اس سے نہ تو مصائب دور ہوتے ہیں، نہ کوئی پریشانی رفع ہوتی ہے نہ آلامِ روزگار سے چُھٹکارے کی کوئی سبیل نکلتی نظر آتی ہے۔ جیسے ہی یہ پروگرام اور رنگارنگی ختم ہوتی ہے وہی کالی گھٹائیں پھر دل و دماغ پر منڈلانے لگتی ہیں۔ آلامِ روزگار سے بچنے کا یہ وہ طریقہ ہے جو موجودہ مغربی تہذیب نے ہمارے دل و دماغ میں پیوست کردیا ہے۔ لیکن ایک دوسرا طریقہ اور ہے جس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ نے ہمیں بتا یا ہے۔ بحیثیتِ مسلمان آپ خود ہی سوچئے کہ اللہ تعالیٰ نے پریشانیوںاور مصائب و تفکّرات سے بچنے کا کیا طریقہ ہمیں سکھایا ہے۔یہ تو کہیں نہیں بتایا گیا کہ آپ ناچ رنگ میں اپنے آپ کو مشغول کرلوتو آپ Relax بھی ہو جائیں گے اور آپ کے سارے مسائل حل بھی ہو جائیں گے۔
اسلام نے جائز سیر و تفریح سے کہیں منع نہیں کیا۔اس میں اسپورٹس بھی شامل ہے‘ پکنک بھی‘ ہلکا پُھلکا ہنسی مذاق بھی‘ ایسے افسانے ‘ ناول ‘ فلمیں اور ویڈیو بھی جو تعمیری نوعیت کے ہوں اور جو آدمی کے سیرت و کردار پر اچھے اثرات ڈالتے ہوں۔قرانی الفاظ ’’ لَھُوَ الحَدِ یثِ ‘‘ میںجن باتوں سے منع کیا گیا ہے ان کی خصوصیت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اپنے اندر مشغول کر کے ہر دوسری چیز سے غافل کردیں۔ یا مختصر الفاظ میں ان سے مراد وہ اعمال ہیں جو آدمی کو غفلت میں ڈال دیں۔ وہ ساری باتیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اگر ایسی ہوں کہ وہ آدمی کو غفلت میں ڈالنے کے بجائے اس میں کچھ مثبت اور تعمیری جذبات پیدا کرتی ہوں تو یہی باتیں عبادت کی تعریف میں بھی آسکتی ہیں۔ اگر ایسے نتائج سامنے نہ آئیں بلکہ آدمی ان باتوں میں پڑکر اپنی ذمّہ داریوں کو بھول بیٹھے اور اپنے فرائضِ منصبی کی ادائیگی میں غفلت برتنے لگے تو ان کو ’’ لَھُوَ الحَدِ یثِ ‘‘ کہہ کر ان سے منع کیا گیا ہے۔ ان کو منع کرنے کی 3 وجوہات اسی آیت کے اگلے حصّے میں بیان کی گئی ہیں۔
% اس طرح کی باتوں کی ایک خرابی یہ بتائی گئی ہے کہ یہ آدمی کو ’اللہ کے راستہ سے بھٹکاتی ہیں‘ ۔ اللہ تعالیٰ نے آدمی کو زندگی اس لیے عطا فرمائی ہے کہ وہ اپنی ذمّہ داریاں اور فرائض کو خوش اسلوبی سے انجام دے کر ابدی سکون‘ راحت ‘آرام اورہمیشہ ہمیشہ قائم رہنے والی خوشیوں کاامیدوار بن سکے۔اس کا احساس تو ہر مسلمان کو رہتا ہے اور ہمشہ ہرمسلمان کی نیت بھی یہی رہتی ہے اور وہ پانچوں وقت نماز میں ہر رکعت میں دعائیں بھی مانگتا رہتا ہے کہ یا اللہ مجھے صراطِ مستقیم پر چلنے کی ہدایت دے۔ جب آدمی ایک دفعہ مسلمان ہو چکاتو اُسے تو ایمان کی ہدایت مل چکی لیکن وہ بار بار پھر صراطِ مستقیم کی دعا‘ دن میں بار ہر رکعت میں کیوںمانگتا رہتا ہے؟آدمی کے 24گھنٹے کے اعمال میں سے ہر عمل اُسے جنّت کی طرف یا دوزخ کی طرف لے جانے والا ہوتا ہے۔ آدمی کے ساتھ 24گھنٹے شیطان بھی لگا ہوا ہے۔غفلت کی زندگی کا کوئی ایک لمحہ بھی ایسا آسکتا ہے کہ شیطان ہمیںجہنّم والے عمل کی طرف بھٹکا دے۔ آدمی کو آخرت کی حقیقت یاد رہے تو وہ نہیں بھٹکتا لیکن غفلت کی حالت میں آدمی سے کوئی بھی گناہ سرزد ہوسکتا ہے جس کے لیے وہ پھر زندگی بھر معافیاں مانگتا رہتا ہے ۔ ناچ گانوں کی محفلوںمیں جاکر آدمی جانتے بوجھتے اپنے آپ کو تھوڑی دیر کی لطف و لذّت کے حصول کے لیے اس طرح کی غفلت کا شکار ہونے کاخطرہ کا کیوںمول لے ؟
l کچھ مسلمان ایسے بھی ہوں گے جو عارضی طور پر تھوڑے عرصہ کے لیے جہنّم میں ڈالے جائیں گے اور پھر اپنے کلمہءِ طیّبہ پر ایمان کے سبب اپنی بداعمالیوں کی سزاء بُھگتنے کے بعد جہنّم سے نکال لیے جائیں گے۔ لیکن یہ کچھ عرصہ والی عارضی جہنّم بھی کسی بھی انسان کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگی۔ اس بات کا صحیح ادراک کرنے کے لیے ذرا یہ تصوّر کر کے دیکھئے کہ آپ اپنی انگلی کے ایک معمولی سے حصّہ کو کتنی دیر تک آگ میں جلائے رکھ سکتے ہیں۔ کوئی بھی شخص ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے لیے تیار نہیں ہوگا۔آپ اپنی اس تکلیف کا مقابلہ اس لطف ولذّت سے کیجیئے جو آپ کوگانے کی محفل کی شرکت سے حاصل ہوتی ہے۔اس طرح کی محفل میں شرکت کے وقت آپ پر ایسی غفلت طاری ہوجاتی ہے کہ آپ کو یہ یاد کبھی بھی نہیںآئےگی کہ اس لطف و لذّت کے عوض مجھے اگر تھوڑے سے عرصہ کے لیے بھی جہنّم کی آگ میں ڈالا جائے تو میں کیا اسے برداشت کرسکوں گا؟اللہ تعالیٰ بڑا معاف کرنے والا بھی ہے اور ہر مسلمان کو نبی کریم ؐ کی شفاعت کی امید بھی رہتی ہے لیکن آپ کے پاس کیا اس کی گارنٹی موجود ہے کہ آپ جتنے چاہے دنیا کے مزے لوٹتے رہیںآپ کے سارے گناہوں کی معافی ضرور بالضّرور لازماً ہوگی، تو پھر وہ کونسے مسلمان ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ عارضی طور پر جہنّم میں ڈالے جائیں گے؟ کیا آپ کے پاس کوئی ایسی ضمانت ہے کہ آپ اس زمرے میں ہرگز ہرگز شامل نہیں ہوسکتے خواہ آپ کو ناچ گانے کی محفلیں کتنا ہی غفلت میں کیوں نہ ڈال دیں؟ غفلت کی وجہ سے راہِ راست سے بھٹکنے کے اس امکانی خطرہ سے بچنے کے لیے اس آیت میں پہلی تنبیہ اسی بات کی کی گئی ہے کہ ’’ لَھُوَ الحَدِ یثِ ‘‘ والے سارے اعمال انسان کو ’اللہ کے راستہ سے بھٹکاتے ہیں‘ ۔
سورۃ انبیاء کی پہلی آیت اس طرح شروع ہوتی ہے کہ ’’اِقتَرَبَ لِلنََّاسِ حِسابُھم وھُم فی غَفلَۃً مُّعرِضُون‘‘ ترجمہ:’ انسانوں کے لیے حساب کا وقت قریب آچکا ہے اور وہ غفلت کا شکار ہو کر اللہ کی بندگی سے منہ موڑ رہے ہیں۔ ‘ اس آیت میںاللہ تعالیٰ نے انسان کو غفلت سے بچنے کا کیا طریقہ بتایا ہے؟ قرانِ کریم یہ کہتا ہے کہ یومِ حساب کوآدمی قریب سمجھے۔کیا گانے کی محفلوں سے لطف اندوزہونے والے کو دور دور بھی کبھی یہ خیال آسکتا ہے کہ یومِ حساب قریب ہے یا دور؟ جو بھی طریقہ بتایا ہو وہ اس شخص کے لیے ہے جو غفلت سے بچنا چاہتا ہو۔ لیکن جس کی خواہش ہی یہ ہو کہ وہ اپنے آپ کو غفلت میں جان بوجھ کر ڈال کر تھوڑی دیر کے لیے اپنے آپ کو اپنے پریشان کن مسائل سے دور ر کھے تو ایسے شخص کے لیے یہ آیت غیر ضروری ہے۔
انسان کی فطرت میں بھول و نسیاں ویسے ہی موجود ہے جو اُسے غفلت میں ڈالے رکھتی ہے اس سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ نسخہ تجویز کیا ہے کہ آدمی ہر تھوڑی تھوڑی دیر بعد اللہ کو یاد رکھنے کے لیے دن میںکم از کم 5بار تو ضرور نماز پڑھتا رہے ورنہ وہ اس حالتِ غفلت سے چُھٹکارا نہیں پاسکے گا۔گانوں جیسی محفلوں میں شرکت کے بغیر بھی آدمی غفلت کا شکار رہتا ہے جس کی تلافی کے لیے اللہ تعالیٰ نے نمازیں بھی فرض کی ہیں اور بار بار اُٹھتے ،بیٹھتے، لیٹتے ہروقت کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے رہنے کی قرانِ کریم اور احادیثِ مبارکہ کے ذریعہ بار بار تلقین بلکہ تاکیدبھی کی ہے۔ ان سب ہدایات کو پسِ پشت ڈال کر آدمی کیسے اپنے آپ کو یہ دھوکہ دے سکتا ہے کہ نہیں ،میں تو گانے کی محفل میں شریک ہوکر بھی ایسی غفلت کا شکار نہیں ہوں گا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ یہ انسان کو اللہ کے راستہ سے بھٹکاتی ہے؟
’’ لَھُوَ الحَدِ یثِ ‘‘ سے بچنے کے لیے جو دوسری بات اسی آیت کے اگلے حصّہ میں بتائی گئی ہے اس کے لیے الفاظ’’بِغَیرِ عِلمٍ ‘‘ استعمال کیے گئے ہیں۔یہ پورا جملہ اس طرح بنتا ہے’’ لِیُضِلَّ عَن سَبِیلِ اللہِ بِغَیرِ عِلمٍ‘‘ ترجمہ: ’’تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے علم کے بغیر بھٹکادے‘‘۔ اس سے مراد یہ ہے کہ یہ اللہ کے راستہ سے بھٹکانے کا ایسا ذریعہ ہے جس کی کوئی علمی بنیاد نہیں ہوتی ۔ دہریے بھی اپنے بھٹکنے پر علمی دلائل دیتے ہیں جیسے آج کی دنیا کے سب سے بڑے دہریے برطانوی سائنس دانawkins ،ڈارون کے نظریہءِ ارتقاء کو بنیاد بناکر گذشتہ 30, 40 سال سے مسلسل کتابیں لکھے جارہا ہے اور اس کی تازہ ترین کتاب The God Delusion نیویارک ٹائمز کی Best Sellers کی فہرست پر کافی عرصہ تک رہی ہے۔’’ لَھُوَ الحَدِ یثِ ‘‘ سے جو لوگ بھٹکتے ہیں ان کی کوئی اس طرح کی علمی بنیاد نہیں ہوتی بلکہ وہ لطف و لذّت کے جذبات میں اندھے ہو کر ’بغیر کسی علم‘ یا حُجّت یا دلیل کے اللہ کے راستے سے بھٹکتے ہیں۔ کوئی علمی بنیاد یا دلیل کی بنیاء پربھٹکا ہو تو اس دلیل کا جواب دے کر اُسے بھٹکنے سے بچانے کی کوئی نہ کوئی تدبیر سوچی جاسکتی ہے۔ لیکن جو ناچ گانے کی محفل میں جذبات سے مغلوب ہوکر بھٹک رہا ہو اس کو بھٹکنے سے بچانا اتنا آسان نہیں ہوتا ۔ بلکہ ایسا شخص اگر اس تحریر کو پڑھ بھی رہا ہو تو اس کا ردّعمل یہ ہوگا کہ ذرا سی موسیقی کو بھی حرام قرار دے کر یہ شخص اپنے آپ کو عالم ثابت کر نے کی کوشش کر رہا ہے۔ایسے شخص کو اپنی عاقبت کے بجائے لکھنے والے کی عاقبت کی فکر لگی رہتی ہے۔ اس طرح علم کے بغیر یعنی سوچے سمجھے بغیر جو شخص بھٹک رہا ہو اس کو راوِ راست دکھانا، لانا ہے جوئے شیر کا۔ وہ اس طرح کی باتیں لکھنے والے کو گالیاں دے کر اپنے دل کی تسلّی تو کرسکتا ہے لیکن لکھنے والے کی بات پر ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنے کے لیے تیار نہیں ہوسکتا۔ اسی بات کو قرانِ کریم کی اس آیت میں بغیر علم کے بھٹکنا کہا گیا ہے۔
(
’’ لَھُوَ الحَدِ یثِ ‘‘ کی تیسری خرابی جو اس آیت میں آگے بتائی گئی ہے اس کے عربی الفاظ یہ ہیں: ’’ وَّ یتّخِذَ ھَا ھُزُوًا‘‘ ترجمہ:’’ اور اس راستہ کی دعوت کو مذاق میں اڑادے۔‘‘ آدمی کو ’’ لَھُوَ الحَدِ یثِ ‘‘ کی باتوں میںاتنا مزہ آتا ہے کہ وہ بغیر سوچے سمجھے محض بھٹکنے ہی پر نہیں رُکتا بلکہ اس بھی آگے بڑھ کروہ پھر اللہ کی باتوں کا مذاق بھی اُڑانا شروع کردیتا ہے۔جس آدمی کا ضمیر ابھی زندہ ہو وہ اپنی غلطی کا اعتراف بھی کرتا ہے ، اپنے گناہوں کی معافی بھی مانگتا ہے۔جس شخص کے دل سے احساسِ زیاں اور احساسِ گناہ ہی جا تا رہے تو پھر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ؐ کی تعلیمات کا مذاق اڑانے لگتا ہے۔ اس سلسلہ میں ایک حدیث مبارک کو پیشِ نظر رکھا جائے تو اس بات کی اہمیت کو سمجھنا زیادہ آسان ہو جائے گا۔ا س حدیثِ مبارک کا کم و بیش مفہوم یہ ہے کہ برائی کو بزورِ طاقت روکنا چاہیئے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو اسے زبان سے روکا جائے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو کم از کم دل میں ہی اسے برا سمجھے اور یہ ایمان کا آخری درجہ ہے۔ ناچ گانے کی محفلوں کا رسیا ایمان کی ا س آخری حد سے بھی آگے اس وقت نکل جا تا ہے جبکہ وہ دل میں بھی برائی کو برائی سمجھنے کے بجائے اللہ کے راستہ والی باتوں کا مذاق اُڑانے پر اُتر آئے۔ یہ آیت صاف صاف بتاتی ہے کہ مو سیقی یا ناچ گانے کی یہ ذرا سی تفریح آدمی کوایمان کے آخری درجہ پر بھی قائم رہنے نہیں دیتی۔جو شخص ایمان کے آخری درجہ سے بھی نکل گیا ہو آخرت میں اس کا کیا حشر ہوگا؟
عام طور پر عذاب کے ساتھ ’دردناک ‘ کا لفظ بالعموم استعمال ہو تا ہے ۔ لیکن یہان پر ’’ اُولَءِکَ لَھُم عَذَابُٔ مُّھِین ‘‘ ترجمہ:’’ ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے ‘‘ ’دردناک ‘ کے بجائے ’سخت ذلیل کرنے والا‘ کے الفاظ عذاب کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں۔ جو شخص اللہ کی باتوں کا مذاق اڑانے پر اتر آ ئے اس کے لیے اللہ نے بھی ‘ سخت ذلیل کرنے والا عذاب تیارکیا ہوا ہے۔
اس آیت میں’’ لَھُوَ الحَدِ یثِ ‘‘ کی خرابیاں اس انداز میں بتائی گئی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مخاطب بھٹکنے والے کو نہیں ،بلکہ بھٹکانے والے کو کیا ہوا ہے۔ اس آیت کے ترجمے کو دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ بھٹکنے والے کے عمل کا تذکرہ کررہا ہے یا بھٹکانے والے کا ۔ ’’ ’’اور انسانوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کلام دلفریب خرید کر لاتا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے علم کے بغیر بھٹکادے اور اس راستہ کی دعوت کو مذاق میں اڑادے۔ ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔‘‘ بھٹکنے والے سے زیادہ بڑے عذاب کا مستحق بھٹکانے والا ہوتا ہے۔