ٹویوٹا کی کامیابی کا راز۔۔بِلاسودی سرمایہ کاری (تیسری قسط)

حسین خاں  ۔  ٹوکیو
بانی ءِ ٹویوٹا کا سودی قرضے لینے کی مجبوری کاصدمہ،استعفیٰ، علیحدگی اورانتقال
اس کمپنی کے بانی کی اچی رو  تویودا ، جو موجودہ صدر آکی اُو تویودا کے دادا تھے، انھوں نے قسم کھالی تھی کہ ان کی کمپنی کبھی سودی قرضے نہیں لے گی ۔ انھوں نے اپنے آئندہ آنے والوں کے لئے بھی ٹویوٹا کمپنی کا یہ ضابطہ بنا  چھوڑاتھا کہ یہ کمپنی کبھی کوئی سودی قرض نہ لیا کرے اور یہ نصیحت کی تھی اس ضابطہ پر سختی سے عمل کیا جائے۔انھیں اس طرح کی قسم کھانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی تھی کہ انھیں ایک انتھائی تلخ تجربہ سے گذرناپڑا تھا۔ ان کے اس تجربہ کی تلخی کا اندازہ اس سے لگایئے کہ جس دن ان کو مجبوراً یہ قرضہ لینا پڑا تھا، اُس دن انھوں نے ٹویاٹا کمپنی کو تو دیوالیہ سے بچا لیا ،لیکن اسی دن اس سے اپنی صدارت سے استعفیٰ بھی  دےدیا اور اُسی دن انتھائی صدمہ کی حالت میں اپنے پسینہ اور خون سے سینچی ہوئی اس کمپنی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے علٰحدگی اختیار کرلی۔ جس پودے کا انھوں نے 1937 میں بیج بویا تھا،وہ جب 13 سال بعد950 میں ایک تناور درخت بن گیا اور اس درخت کو زندہ رکھنے کے لیے مجبوراً اسے سودی قرضوں سے آبیاری کرنی پڑی ،تو ایسے درخت کو دوسروں کے حوالہ کرکے خود بصد رنج و غم جون 1950 میں اس  کمپنی سے دور ہوگئے۔ اس کے 2 سال بعد اسی صدمہ سے کی اچی روتویودا اس دارِ فانی سے بھی کوچ کرگئے۔
دوسری جنگ ِعظیم کے فوری بعدکساد بازاری کے سبب ٹویوٹا کمپنی کے دیوالیہ کا اعلان کرنے کی نوبت آگئی تھی۔ اس پریشانی کے عالم میں ایک دن صبح ہی صبح ملاقات کا وقت طئے کئے بغیر  کی اچیرو تویودا اچانک بنک آف جاپان کی ناگویا شاخ کے دفتر پہنچ گئے اور اس وقت کے جاپانی حکومت کی اس مرکزی بنک کے برانچ مینیجر کے سر ہوگئے کہ کسی طرح ٹویوٹا کو دیوالیہ ہونے سے بچائیں ۔ اس وقت کی ٹویوٹا ناگویا کے علاقہ کے لوگوں کے لیے سب سے زیادہ روزگار فراہم کرنے والی کمپنی تھی۔ انھوں نے بنک آف جاپان کو بتایا کہ اگر ٹویوٹا دیوالیہ ہوگئی تو ہزاروں افراد بے روزگار ہوجائیں گے اور ان کے گھروں میں چولھا بھی سلگ نہیں سکے گا۔ اس لیے بنک آف جاپان ٹویوٹا کی مدد کرے اور ہر قیمت پر اسے دیوالیہ ہونے سے بچائے۔ ان کی اس عاجزانہ درخواست پر بنک آف جاپان نے ناگویا کی چند بڑی بڑی بنکوں کے صدور کو بلاکر ان سب بنکوں کو راضی کیا کہ وہ ٹویوٹا کو اتنے قرضے دیں کہ یہ کمپنی دیوالیہ ہونے سے بچ جائے۔
ٹویوٹا کو اس برے حال تک پہنچانے میں دوسری جنگ ِ عظیم  کے وقت کی جاپان کی فوجی حکومت کی مداخلت کا دخل بھی ہے۔ اس جنگ کے دوران 1943 میں جاپان کی فوجی حکومت نے اپنی ضروریات کے لیے ٹویا ٹاپر قبضہ کرلیا تھا اور اس کے بانی کی اچیروتویوداکو اس کے کنٹرول سے بے دخل کردیا گیاتھا۔ جنگ میںشکست کے بعد جو ٹویوٹا اس کے بانی کے ہاتھ میں دوبارہ آئی،  اس وقت یہ کمپنی ہرلحاظ سے تباہ ہوچکی تھی۔اس وقت اس کی گاڑیاں بھی معیار کے اعتبار سے کافی گری ہوئی تھیں۔جنگ کے فوری بعد مارکیٹ بھی کساد بازاری کا شکار تھی۔ ان حالات میں ٹویوٹا کی ناقص اور معیار سے گری ہوئی گاڑیوں کو فروخت کرکے کمپنی کومنافع کے ساتھ چلانا بھی مشکل ہوگیا تھا۔اس کو مسٹر کی اچی رو تویودا نے بہت سنبھالنے کی کوشش کی لیکن 1949 کے اخیر میںیہ اس قابل بھی نہیں رہی کہ اپنے ملازمین کی سالانہ بونس ادا کرسکے، جو اوکو 9 ہزار مان بنتی تھی۔
جاپانی حکومت کی مرکزی بنک یعنی بنک آف جاپان کی ناگویا شاخ کے دباؤ کے تحت  مِتسوئی بنک اور توکائی بنک کی قیادت میں ساری بنکوں نے مل کر اپریل 1950 میں ٹویوٹا کو 2اوکو این سودی قرضہ دینے کافیصلہ کیا۔ لیکن شرط یہ لگائی کہ ٹویوٹااس وقت کے اپنی کمپنی کے600 ملازمین کو نوکری سے نکال دے۔یہ بھی ایک بڑی وجہ تھی جس کے سبب ٹویوٹا کے بانی کی اچیرو تویودا کو سودی قرضوں سے سخت نفرت ہوگئی تھی اور ان کے ایسے قرضوں سے پرہیز سے قسم کھانے کی بھی۔
\    ٹویوٹا کے بانی کی سوچ شروع ہی سے یہ رہی ہے کہ ٹویاٹا کی شرح ِمنافع خواہ کم ہوجائے یااس کو خواہ نقصان بھگتنا پڑجائے لیکن یہ اپنے مستقل ملازمین کو کبھی ملازمت سے فارغ نہیں کرےگی۔ اسی وجہ سے  ٹویوٹا نے گذشتہ 73 سال سے اس پالِیسی پر عمل پیرا رہنے کی ہمیشہ کوشش کی ہے۔لیکن موجودہ عالمی بحران  کی کساد بازاری،0 لاکھ گاڑیوں کی واپسی،امریکی حکومت کے جرمانے، مختلف اسمبلی پلانٹ کوبند کرنے یا ان میں گاڑیاں بنانے کی تعداد کم کرنے جیسے ناگہانی حالات کی مجبوری میں اسے بہت سارے عارضی ملازمین کو فارغ کرنا پڑا،لیکن اس کو بھی اس نے انتھائی کم سے کم حد تک رکھنے کی کوشش کی۔
اپریل 1950 میں بنکوں نے ٹویوٹا کو 2 اوکو  جاپانی ین سودی قرض دینے کی منظوری تو دیدی تھی لیکن 1600 ملازمین کو فارغ کرنے کی شرط مسٹر کی اچیرو تویودا کے لیے انتھائی تکلیف دہ تھی۔ ملازمین ِٹویوٹا کے سلسلہ میں اب تک کی اپنی پالیسی  سے ہٹنا انھیں کسی قیمت پر گوارا نہیں تھا۔ مغربی ماہرینِ مینیجمنٹ اپنی کتابوں میں کمپنیوں کو چلانے کے چند جاپانی  طور طریق کی اچھائیوں کو اچھالتے ہیں ، ان میں ایک اہم  اچھائی اپنے ملازمین کے ساتھ جاپانی کمپنیوں کا زندگی بھر ملازمت کا رواج بھی  ہے۔ جاپانی کمپنیوں کے مالکان اپنے ملازمین کو اپنے خاندان کا ایک فرد سمجھتے ہیں۔ اس لیے  کسی جاپانی کمپنی کے روایتی مالک کے لیے یہ بات کس قدر ذہنی کرب کا سبب بن سکتی ہے اس کا اندازہ لگاناکسی غیر جاپانی  کے بس کی بات نہیں ہے۔
اپریل 1950 میں جب بنکوں نے 1600 ملازمین کو نکالنے کی شرط لگائی تو ٹو یوٹا کی مزدور یونین نے مطالبہ کیا کہ مسٹر کی اچی رو اپنے پرانے وعدے پر قائم رہتے ہوئے اس کا اعلان کریں کہ وہ کسی کو بھی ٹویوٹا کی ملازمت سے فارغ نہیں کریں گے، کیونکہ بنکوں کی طرف سے اس شرط کے سامنے آنے سے پہلے مسٹر کی اچیرو یہ وعدہ کرچکے تھے کہ وہ کسی ٹویوٹا کے ملازم کو نوکری سے فارغ نہیں کریں گے۔ اس مطالبہ کے جواب میں انتھائی افسوس کا ساتھ انھوں نے یہ جواب دیا:
’’میں کسی کو ملازمت سے نہیں نکالوں گا  کاوعدہ کرنے کے باوجود ایسی صورتحال میں پھنس گیا ہوں کہ اپنی وعدہ خلافی پر مجبور ہوگیا ہوں۔ میں اپنی اس وعدہ خلافی کی معافی مانگتا ہوں۔ اب یونین کے اس مطالبہ کے جواب میں اگر میں دوبارہ یہ وعدہ کرلوں کہ کسی کو ملازمت سے نہیں نکالوںگا، تو میرا یہ وعدہ جھوٹ ہوگا۔ اسلئے مجھے معاف کریں کیونکہ اس مرحلہ پر اب میں ایسا کوئی وعدہ یا یقین دہانی کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا ہوں‘‘
اس مرحلہ پر ٹویوٹا کی انتظامیہ مجبور تھی کہ بنکوں کی ہر جائز و ناجائز شرط کے آگے اپنا سرِ تسلیم خم کرلے، ورنہ سودی قرض نہیں ملتا، جس کے نتیجہ میں ٹویاٹا کے پاس اپنا دیوالیہ نکالنے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار باقی نہیں رہتا۔ چنانچہ جون 1950 میں جس دن یہ قرض ملا، اُسی دن مسٹر کی اچیرو نے ٹویوٹا سے استعفیٰ دے کر اس  سے ہمیشہ ہمیشہ  کے لیے علیحدگی اختیار کرلی اور اس کے 2سال بعد اسی صدمہ سے مرگئے، لیکن ٹویوٹا کے لیے یہ ضابطہ چھوڑ گئے کہ یہ کمپنی کبھی کوئی سودی قرض نہ لے ،جوبھی کام کرے وہ سو فیصد بلاسودی سرمایہ کاری سے کرے، خواہ اس کے نتیجہ میں تویودا خاندان کو ٹویوٹا کے کنٹرول کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑجائے۔
ٹویوٹا کے بانی  کی اچیرو اس کمپنی سے حسرت و یاس کے ساتھ علیحدہ ہونے کے بعد زندگی بھر یہی سوچتے رہے ہوں گے اتنے ارمانوں کے ساتھ میں نے ساری زندگی جس کمپنی کے لئے کھپائی تھی ،مجھے اس سے دور کیوں ہونا پڑا؟انھیں جواب یہی نظر آیا کہ یہ سودی قرضوں کی پھٹکار تھی جو مجھ پر پڑی تھی۔ایسا شخص اپنے بعد والوں کے لیے اپنی زندگی کا نچوڑ یہی چھوڑ سکتا تھا کہ سودی لعنت سے بچ کر بلاسودی سرمایہ کاری کے ہرامکا ن کو روبہ عمل لایاجائے۔
جنگِ عظیم دوّم کے بعد اس کے جاپانی معیشت پر پڑنےوالے برے اثرات ختم ہوئے۔951 میں جب جنگِ کوریا شروع ہوئی تو جاپان کی مارکیٹ بحال ہوئی اور خوب چمکی۔دوسری جنگِ عظیم کے بعد کوریا کی جنگ کا  چِھڑجانا جاپان کے لیے فالِ نیک ثابت  ہوا۔ جاپان کی معیشت بحیشیتِ مجموعی خوب بحال ہوئی۔ اس جنگ کی وجہ سے اشیاء کی مانگ میں جو زبردست اضافہ ہوا ،اس سے جاپان کی معیشت کاہر شعبہ خوب چمکا۔ اس صورتِحال سے فائدہ اٹھا کر ٹویوٹانے ان بنکوں کے سارے قرضے جلد از جلد ادا کرکے سودی قرضوں سے اپنی جان چھڑائی۔
اس طرح دیوالیہ سے دوچار ہونے کے انتھائی تلخ تجربہ  سے گذرنے کے بعد ٹویوٹا کمپنی اپنے بانی مسٹرکی اچیرو  تویودا کی بتائی ہوئی اسی پالیسی پر آج0 سال بعداسی طرح گامزن ہے جیسے پہلے تھی کہ یہ کمپنی کبھی بھی  کوئی سودی قرضے لینے کی غلطی نہیں کرے گی، اور غیر سودی سرمایہ کاری کی ہر صورت کو خوش آمدید کہے گی۔

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.