الیکشن کمیشن کے اعلان کردہ نتائج پر سارے پاکستانیوں کومتحد و متفق ہوجانا چاہیئے
ہارنے والے پینل کے امیدواروں کو خوشدلی سے اپنی ہار مان کراتحاد کو قائم رکھنا چاہیئے
کمیونٹی کو انتشار سے بچا کر جوڑے رکھنے کی ساری ذمہ داری ہارنے والوں کے کاندھوں پر ہے۔
حسین خاں ۔ ٹوکیو
جن لوگوں کو اپنی ہار صاف نظر آرہی ہے ،وہ الیکشن کمیشن پر طرح طرح کے الزامات لگاکر الیکشن کے نتائج سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ ایک بہت افسوسناک رویہ ہے۔کسی بھی مہذب ملک کے ہارنے والے اس قدر گھٹیا حرکتوں پر اُتر نہیں آتے۔ جاپان جیسے مہذب ملک میں رہتے ہیں تو کچھ تہذیب سے رہن سہن کے اور اجتماعی زندگی سب کے ساتھ مل جل کر گذارنے کے اصولوں کو بھی اپنانا سیکھیں۔ اگر دنیا کے سارے ہارنے والے اس کردار کا مظاہر ہ کرنے لگیں تو دنیا کے کسی ملک میں بھی نہ جمہوریت رہے گی، نہ امن قائم ہوگا اور نہ ہی ایسے ملک کے رہنے والے چین سے رہ سکیں گے۔ ہمیشہ ایسے کردار کے ہارنے والے لوگ اپنے مفادات کی خاطر فتنہ و فساد کے بیج بو کر اپنی لیڈری کو چمکانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ پاکستان کمیونٹی کے لیے یہ باعثِ شرم ہوگا کہ اس کے اندر ایسے نام نہاد شر پسند لیڈر بنے رہیں جو اپنی ہار کو سیدھے طریقے سے ہار ماننے کے بجائے ایک گندی اور سڑی ہوئی مچھلی کی طرح سارے کنویں کے پانی کو گندہ کرنے کے کردار پر اتر آئے ہوں۔ جو لوگ ہار کو ہار نہیں مان سکتے وہ صرف شر و فساد ہی برپا کرسکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اپنا لیڈر بناکر کمیونٹی کے وہی لوگ اپنے سر پر بٹھاسکتے ہیں جن کے ذاتی مفادات ایسے شرپسندوں کے ساتھ وابستہ ہوں ۔ ایسے مفاد پرست حمایتی لوگ، شرپسند لیڈروں کواپنے سر آنکھوں پر بٹھا کر کمیونٹی کا بیڑہ غرق کرنے سے بھی باز نہیں آتے ۔ ہارنے والی ٹیم خوشدلی سے اپنی ہار ماننے تیار نہ ہوتو پاکستان کمیونٹی پر اس سے بڑا ظلم کوئی نہیں ہوگا۔کچھ اور نہیں تو کم از کم اللہ تعالیٰ کی اس ہدایت کی خلاف ورزی ہی کا کچھ توخوف کریں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو متحد و متفق رہنے کی ہدایت کی ہے:وَاعتَصَمُو بِحَبلِ اللہِ جمیعاًوّ لا تَفَرَّقو
’’تم سب لوگ مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑواور آپس میں ٹکڑے ٹکڑے مت ہوجاؤ‘‘
– جن لوگوں نے اس الیکشن کمیشن کی زیرِ نگرانی انتخابات میں حصہ لیا ، وہ اگر اس کمیشن کی طرف سے اعلان کئے جانے والے انتخابی نتائج کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوں تو اس سے بڑی دھاندلی اور کوئی نہیں ہوگی ، جبکہ الیکشن کمیشن نے ان کی شکایات کو تسلیم کرکے ان کی خواہش کی تکمیل کی خاطر 3 مہینہ تک نتائج کو ملتوی بھی کیا اور ان کی شکایات دور کرنے کے لیے ان کے مطالبہ کا بھرم رکھنے کے لیے ان کے اصرار کے مطابق یکم اگست کو 3 پریفیکچرز میں دوبارہ انتخابات بھی کروارہا ہے۔کمیونٹی کے اتحاد کو قائم رکھنے کے لیے الیکشن کمیشن نے اپنے متفقہ فیصلوں سے سارے
امیدواروں اور ان کے پینل کے کہنے کے مطابق انھیں ہر طرحccomodate کرنے کی کوشش کی۔اس مرحلہ تک الیکشن کمیشن اور کمیونٹی کواپنی مرضی کے مطابق نچانے کے بعد اب وہی لوگ اپنے ہارنے کے نتائج سے فرار کی کوشش کریں تو اس سے گھٹیا کردار کا مظاہرہ اور کیا ہوسکتا ہے؟ انتخابی نتائج کو قبول کرنے کی نیت نہیں تھی تو شروع ہی سے الیکشن میں حصہ لینے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔جب الیکشن میں حصہ لیا ہے تو اب ہار ماننے کی ذمہ داری بھی قبول کرنی پڑے گی۔ جن لوگوں میں اپنی ہار اور شکست کو تسلیم کرنے کی اخلاقی طاقت نہیں ہے انھیںکسی بھی الیکشن میں حصہ ہی نہیں لینا چاہیئے تھا۔ کمیونٹی کو 3 مہینہ انتظار کروانے کے بعداب جبکہ انتخابی فیصلہ کا وقت سر پر آگیا ہے اور ہار صاف نظر آرہی ہے تو طرح طرح کے بہانے تلاش کیے جارہے ہیں۔ اس طرح کے فرار کی کوشش انتھائی گندے کردار کا مظاہرہ ہوگا۔ کمیونٹی کو چاہیئے کہ ایسے بد کردار امیدواروں کو اپنا لیڈر بنانے کے بجائے ان کو اپنے جوتیوں کی نوک پررکھے۔ ان کی عزت و احترام کے بجائے ایسے لوگوں کا بائیکاٹ کرے تاکہ اپنی لیڈری چمکانے کی خاطر کمیونٹی کو کھلونا بناکر کھیلنے والوں کو اپنے گھناؤنے کردار کا کچھ احساس ہو۔ اگر یہ لوگ کمیونٹی میں اب بھی اپنی عزت و احترام کو قائم رکھنا اور اپنے ووٹ بنک کو اور اپنے ووٹرز کی حمایت کو آئندہ کے لیے محفوظ رکھنا چاہتے ہوں تو وہ اس اخلاقی کردار کا مظاہرہ کریں کہ اپنی ہار کو ہار مان کر جیتنے والے امیدوار کو اپنے گلے لگائیں اور کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے ہر پروجیکٹ میں کھلے دل سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں جیسا کہ دنیا میں ہر مہذب ملک کے ہارنے والوں کا کردار ہوا کرتا ہے۔ ورنہ ایسے لوگ کمیونٹی کو جوڑنے کے بجائے کمیونٹی میں انتشار پھیلانے کے ذمہ دار ہوں گے۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ اپنی لیڈری کو قائم رکھنے کی خاطر کمیونٹی کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے والے، اپنے آپ کو لیڈر کہلوانے کی خاطر مسلمانوں کی یکجہتی کو بھینٹ چڑھانے اورکمیونٹی میں انتشار پھیلانے والے اور اس گندے کام ایسے نام نہاد شہرت اور عزت کے بھوکے لیڈروں کی معاونت کرنے والے لوگ بھی اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکیں گے۔کمیونٹی کو انتشار سے بچانے کی ساری ذمہ داری اس وقت ہارنے والی ٹیم کے کاند ھوں پر ہے۔
جن لوگوں نے اس وقت ہارنے والے امیدواروں کو ووٹ دیے ہیں، ان کے ضمیر زندہ ہیں، وہی لوگ اگلے الیکشن میں ان امیدواروں کے خلاف ووٹ دینے پر مجبور ہوں گے۔ ہارنے والے امیدوار خوشدلی سے اپنے ہارماننے کے بجائے طرح طرح کے بہانے بناکرپھر کوئی نئی نئی ایسوسی ایشن بنانے کی کوشش کریں تو اس سے بڑھ کر کمیونٹی کے ساتھ بے وفائی کوئی نہیں ہوگی۔ آج جتنے لوگوں نے ایسے امیدواروں کا ساتھ دیا ہے ،کل اس کے آدھے بھی ان کے حمایتی قائم نہیں رہیں گے۔اس لیے میں ہارنے والے سارے امیدواروں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ کوئی متوازی تنظیم بنانے کی کوشش کر کے کمیونٹی میں انتشار اور افتراق پیدا کرنے کے بجائے کمیونٹی کو جوڑنے کی کوشش کریں۔ مسلمانوں کو افتراق سے بچانا اتنابڑا نیک عمل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلامِ پاک میں دی گئی اس ہدایت پر عمل کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت کی نعمتوں سے نوازے گا اور کمیونٹی بھی سچے دل سے ایسے لوگوں کو اپنے سرآنکھوں پر بٹھائے گی ۔