چور کی ڈاڑھی میں تنکاحسین خاں ۔ ٹوکیو` الیکشن کے سلسلہ میں میرے پچھلے کالم کے جواب میں جو باتیں سامنے لائی گئی ہیںان میں ایک تو یہ کہ پاکستان کی سیاست میں جماعتِ اسلامی نے کیا رول ادا کیا تھا اس کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ فرض کیجیے کہ جماعتِ اسلامی نے بہت ساری سیاسی غلطیاں کی ہونگی۔ ان باتوں کا جاپان کی پاکستان کمیونٹی سے کیا تعلق ہے؟ میں نے اپنی پچھلی تحریر میں کہیں بھی جماعتِ اسلامی کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔اگر جماعتِ اسلامی نے فرض کیجیئے کہ میرے:وَاعتَصَمُو بِحَبلِ اللہِ جمیعاًوّ لا تَفَرَّقوکے د رس پر عمل نہیں کیا تھاتو کیا ہم کو بھی جاپان میں قرانِ پاک کی اس تعلیم پر عمل نہیں کرنا چاہیئے؟ دوسرے یہ کہ پچھلی ساری باتوں کو دہرایا جارہا ہے کہ کس نے کیا رول ادا کیا تھا؟ کون قابلِ تعریف ہے اور کون قابلِ مذمت ہے؟کون صحیح تھا اور کون غلط تھا؟ اس پنڈورے کے باکس کو کھولا جائے تو دونوں طرف سے کہنے کی باتیں بہت کچھ ہیں۔الیکشن کمیشن کے چیف نے کھلے عام اپنی توبہ کا اعلان کرکے اس پنڈورے کے باکس کو بند کردیا تھا اور الیکشن کمیشن کے سارے ارکان اس کے بعد شیر و شکر ہوکراس کے بعد سے سارے فیصلے سو فی صد متفقہ طور پر کرنے لگے تھے اور آج تک اسی اتفاق اور اتحاد کو برقرار رکھا ہوا ہے۔الیکشن کمیشن کی طرف سے اب بھی ہر فیصلہ باہمی مشورہ سے اتفاقِ رائے کے ساتھ کمیونٹی کے سامنے پیش کیا جارہا ہے۔ ماضی کے ان گڑے ہوئے مردوں کو اب سامنے لانے کا کیا مقصد ہے؟اس سے بھی یہی بات سامنے آتی ہے کہ ماضی کی طرح طرح کی حقیقی اور فرضی غلطیوں کو سامنے لاکر الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کرکے اس کے اعلان کردہ نتائج اگر اپنے مفاد کے خلاف ہوئے تو ان سے فرار کا بہانہ بنانے کے لیے ان مردوں کو قبر سے اٹھا کر لایا جائے۔ میں ماضی کے ان گڑے ہوئے مردوں کو قبروں سے اٹھا کر لاکر ان کو وَاعتَصَمُو بِحَبلِ اللہِ جمیعاًوّ لا تَفَرَّقوکا درس نہیں دے رہا تھا، نہ یہ بتا رہا تھا کہ ماضی میں اس پر کس نے عمل کیااور کس نے نہیں کیا، بلکہ ا پنے آپ کوبھی ساری پاکستانی کمیونٹی کو بھی آئندہ کے لیے کچھ بتا رہا تھا کہ یکم اگست کی ووٹنگ کے نتائج کاجب الیکشن کمیشن کی طرف سے اعلان سامنے آجائے تو اس کے بعد ہمیں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیئے، اس سلسلہ میں ہمیں قران کی تعلیم کیا سکھاتی ہے ،اس کی یاد دہانی اس آیت کے ذریعہ کررہا تھا۔ قران کی یہ یاد دہانی اگر کسی شرپسند، انتشار پھیلانے والے، اپنی ہار سے فرار اختیار کرنے والے فرد یا گروہ کے مفاد کے خلاف پڑتی ہے تو کیا اس کا میں مجرم ہوں کہ میں کیوں یہ قرانی تعلیم لوگوں کو بتا رہا ہوں؟ فرض کیجیئے کہ آپ کے الزام کے مطابق ماضی میں میں نے خود اس پر عمل نہیں کیا تھا تو کیا ساری پاکستان کمیونٹی کو بھی وہی غلطی کرنی چاہیئے جو میں نے اس مفروضہ کے مطابق ماضی میں کبھی کی تھی؟اگر بالفرض میں نے غلطی کی تھی تو کیا مجھے دوسروں کو یہ بتانا نہیں چاہیے کہ مجھ سے جو غلطی ہوگئی ہے اس سے سبق سیکھ کر دوسرے لوگ تو کم از کم اس غلطی سے پرہیز کریں۔ایک شرابی باپ اپنے بچوں سے تو یہی کہے گا کہ بیٹے میں تو اپنی حماقتوں سے شراب کا رسیا ہونے کی غلطی کردی ہے لیکن میرے بچّو تم اس غلطی سے ضرور پرہیز کرنا۔ مزید یہ کہ ماضی کے اس پنڈورے کے باکس کو بند کرکے تینوں پینل کے ذمہ داروںاور الیکشن کمیشن کے سارے ممبروں نے پچھلی ساری باتوں کو بھلاکر ایک متفقہ معاہدہ کیا تھاکہ یکم اگست کو 3 جگہوں پر اسی الیکشن کمیشن کی نگرانی میں دوبارہ ووٹ ڈلوائے جا ئیں گے۔ اس وقت کسی فریق کی طرف سے یہ بات نہیں اٹھائی گئی تھی کہ جن لوگوں نے دھاندھلی با لفرض اگر کی تھی تو ان کو نااہل قرار دیا جائے۔جب سارے متعلقہ فریقین کے درمیان ایک معاہدہ ہوچکا تو اب اس طرح کے مسئلے بعد از وقت اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ جس فریق کو اپنے ہارنے کا ڈر ہے ،وہ فرار کا بہانہ ڈھونڈھ رہا ہے اور ایک متفقہ معاہدہ کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی آواز اٹھائی جارہی ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ’الزام تراشی‘ کسی خاص گروہ یا فرد کی طرف کی جارہی کہ وہ ہار سے بھا گ رہاہے۔ چور کی ڈاڑھی میں تنکا کا ثبوت اس بات سے مل جاتا ہے۔ ابھی الیکشن کے نتائج کو کوئی اعلان نہیں ہوا اور یہ پتہ نہیں کہ کون جیتے گا اور کون ہارے گا، لیکن کچھ لوگ یہ کہنے لگ جائیں کہ آپ ہم پر الزام لگا رہے ہیں کہ ہم شکست یا ہار کی صورت میں بھاگ جائیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو شخص یہ کہہ رہا ہے کہ آپ کی یہ ٹوپی تو ہمارے سر پر فِٹ آتی ہے تو ظاہر ہے کہ جو بھی یہ کہہ رہا ہے اسی کی ڈارھی میں تنکا ہے۔ جب تک نتائج سامنے نہ آجائیں کسی شخص کی یہ شکا یت کہ آپ ’الزام تراشی ‘ کررہے ہیں، کا مطلب یہ ہے کہ شکایت کرنے والا خود ہی اپنے آپ کوملزم سمجھ کر شکایت کررہا ہے۔میں نے تو نیٹ پر کچھ لوگوں کے بیانات پڑھے تھے جو فرار کی راہیں تلاش کررہے تھے۔ کسی پر الزام تراشی نہیں تھی۔الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کے اظہار کا کوئی معقول بہانہ ہاتھ نہیں آیا تو یہی رَٹ لگانی شروع کردی کہ 644,000 ین واپس لو۔ الیکشن کمیشن نے وہ پیسے واپس بھی لے لیے اور نیٹ پر اس کی واپسی کی تصاویر بھی شائع کروارہا ہے، اور اس کا اعلان کردیا ہے کہ پورے پورے پائی پائی کا حساب نیٹ پر شائع کیا جائے۔ اس الزام سے بھی ہوا نکل گئی تو اب دیکھیے ہار سے فرار کاکون سا نیا بہانہ تلاش کیا جاتا ہے؟ ایسے لوگ اپنی قبر آپ کھود رہے ہیں۔یہ اپنی رہی سہی عزت بھی کھو رہے ہیں اور موجودہ جیتنے والے گروہ کو اگلی دفعہ اور زیادہ ووٹوں سے جتوانا چاہتے ہیں۔ جیتنے والا گروہ تو ان کا شکریہ ہی ادا کرسکتا ہے کہ آپ اپنی ان حرکتوں کے ذریعہ اپنے ووٹروں سے کہہ رہے ہو کہ آئندہ ہمیں ووٹ مت دو۔
چور کی ڈاڑھی میں تنکا
حسین خاں ۔ ٹوکیو
`الیکشن کے سلسلہ میں میرے پچھلے کالم کے جواب میں جو باتیں سامنے لائی گئی ہیںان میں ایک تو یہ کہ پاکستان کی سیاست میں جماعتِ اسلامی نے کیا رول ادا کیا تھا اس کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ فرض کیجیے کہ جماعتِ اسلامی نے بہت ساری سیاسی غلطیاں کی ہونگی۔ ان باتوں کا جاپان کی پاکستان کمیونٹی سے کیا تعلق ہے؟ میں نے اپنی پچھلی تحریر میں کہیں بھی جماعتِ اسلامی کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔اگر جماعتِ اسلامی نے فرض کیجیئے کہ میرے:وَاعتَصَمُو بِحَبلِ اللہِ جمیعاًوّ لا تَفَرَّقوکے د رس پر عمل نہیں کیا تھاتو کیا ہم کو بھی جاپان میں قرانِ پاک کی اس تعلیم پر عمل نہیں کرنا چاہیئے؟
دوسرے یہ کہ پچھلی ساری باتوں کو دہرایا جارہا ہے کہ کس نے کیا رول ادا کیا تھا؟ کون قابلِ تعریف ہے اور کون قابلِ مذمت ہے؟کون صحیح تھا اور کون غلط تھا؟ اس پنڈورے کے باکس کو کھولا جائے تو دونوں طرف سے کہنے کی باتیں بہت کچھ ہیں۔الیکشن کمیشن کے چیف نے کھلے عام اپنی توبہ کا اعلان کرکے اس پنڈورے کے باکس کو بند کردیا تھا اور الیکشن کمیشن کے سارے ارکان اس کے بعد شیر و شکر ہوکراس کے بعد سے سارے فیصلے سو فی صد متفقہ طور پر کرنے لگے تھے اور آج تک اسی اتفاق اور اتحاد کو برقرار رکھا ہوا ہے۔الیکشن کمیشن کی طرف سے اب بھی ہر فیصلہ باہمی مشورہ سے اتفاقِ رائے کے ساتھ کمیونٹی کے سامنے پیش کیا جارہا ہے۔ ماضی کے ان گڑے ہوئے مردوں کو اب سامنے لانے کا کیا مقصد ہے؟اس سے بھی یہی بات سامنے آتی ہے کہ ماضی کی طرح طرح کی حقیقی اور فرضی غلطیوں کو سامنے لاکر الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کرکے اس کے اعلان کردہ نتائج اگر اپنے مفاد کے خلاف ہوئے تو ان سے فرار کا بہانہ بنانے کے لیے ان مردوں کو قبر سے اٹھا کر لایا جائے۔
میں ماضی کے ان گڑے ہوئے مردوں کو قبروں سے اٹھا کر لاکر ان کو وَاعتَصَمُو بِحَبلِ اللہِ جمیعاًوّ لا تَفَرَّقوکا درس نہیں دے رہا تھا، نہ یہ بتا رہا تھا کہ ماضی میں اس پر کس نے عمل کیااور کس نے نہیں کیا، بلکہ ا پنے آپ کوبھی ساری پاکستانی کمیونٹی کو بھی آئندہ کے لیے کچھ بتا رہا تھا کہ یکم اگست کی ووٹنگ کے نتائج کاجب الیکشن کمیشن کی طرف سے اعلان سامنے آجائے تو اس کے بعد ہمیں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیئے، اس سلسلہ میں ہمیں قران کی تعلیم کیا سکھاتی ہے ،اس کی یاد دہانی اس آیت کے ذریعہ کررہا تھا۔ قران کی یہ یاد دہانی اگر کسی شرپسند، انتشار پھیلانے والے، اپنی ہار سے فرار اختیار کرنے والے فرد یا گروہ کے مفاد کے خلاف پڑتی ہے تو کیا اس کا میں مجرم ہوں کہ میں کیوں یہ قرانی تعلیم لوگوں کو بتا رہا ہوں؟
فرض کیجیئے کہ آپ کے الزام کے مطابق ماضی میں میں نے خود اس پر عمل نہیں کیا تھا تو کیا ساری پاکستان کمیونٹی کو بھی وہی غلطی کرنی چاہیئے جو میں نے اس مفروضہ کے مطابق ماضی میں کبھی کی تھی؟اگر بالفرض میں نے غلطی کی تھی تو کیا مجھے دوسروں کو یہ بتانا نہیں چاہیے کہ مجھ سے جو غلطی ہوگئی ہے اس سے سبق سیکھ کر دوسرے لوگ تو کم از کم اس غلطی سے پرہیز کریں۔ایک شرابی باپ اپنے بچوں سے تو یہی کہے گا کہ بیٹے میں تو اپنی حماقتوں سے شراب کا رسیا ہونے کی غلطی کردی ہے لیکن میرے بچّو تم اس غلطی سے ضرور پرہیز کرنا۔
مزید یہ کہ ماضی کے اس پنڈورے کے باکس کو بند کرکے تینوں پینل کے ذمہ داروںاور الیکشن کمیشن کے سارے ممبروں نے پچھلی ساری باتوں کو بھلاکر ایک متفقہ معاہدہ کیا تھاکہ یکم اگست کو 3 جگہوں پر اسی الیکشن کمیشن کی نگرانی میں دوبارہ ووٹ ڈلوائے جا ئیں گے۔ اس وقت کسی فریق کی طرف سے یہ بات نہیں اٹھائی گئی تھی کہ جن لوگوں نے دھاندھلی با لفرض اگر کی تھی تو ان کو نااہل قرار دیا جائے۔جب سارے متعلقہ فریقین کے درمیان ایک معاہدہ ہوچکا تو اب اس طرح کے مسئلے بعد از وقت اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ جس فریق کو اپنے ہارنے کا ڈر ہے ،وہ فرار کا بہانہ ڈھونڈھ رہا ہے اور ایک متفقہ معاہدہ کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی آواز اٹھائی جارہی ہے۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ’الزام تراشی‘ کسی خاص گروہ یا فرد کی طرف کی جارہی کہ وہ ہار سے بھا گ رہاہے۔ چور کی ڈاڑھی میں تنکا کا ثبوت اس بات سے مل جاتا ہے۔ ابھی الیکشن کے نتائج کو کوئی اعلان نہیں ہوا اور یہ پتہ نہیں کہ کون جیتے گا اور کون ہارے گا، لیکن کچھ لوگ یہ کہنے لگ جائیں کہ آپ ہم پر الزام لگا رہے ہیں کہ ہم شکست یا ہار کی صورت میں بھاگ جائیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو شخص یہ کہہ رہا ہے کہ آپ کی یہ ٹوپی تو ہمارے سر پر فِٹ آتی ہے تو ظاہر ہے کہ جو بھی یہ کہہ رہا ہے اسی کی ڈارھی میں تنکا ہے۔ جب تک نتائج سامنے نہ آجائیں کسی شخص کی یہ شکا یت کہ آپ ’الزام تراشی ‘ کررہے ہیں، کا مطلب یہ ہے کہ شکایت کرنے والا خود ہی اپنے آپ کوملزم سمجھ کر شکایت کررہا ہے۔میں نے تو نیٹ پر کچھ لوگوں کے بیانات پڑھے تھے جو فرار کی راہیں تلاش کررہے تھے۔ کسی پر الزام تراشی نہیں
تھی۔
الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کے اظہار کا کوئی معقول بہانہ ہاتھ نہیں آیا تو یہی رَٹ لگانی شروع کردی کہ 644,000 ین واپس لو۔ الیکشن کمیشن نے وہ پیسے واپس بھی لے لیے اور نیٹ پر اس کی واپسی کی تصاویر بھی شائع کروارہا ہے، اور اس کا اعلان کردیا ہے کہ پورے پورے پائی پائی کا حساب نیٹ پر شائع کیا جائے۔ اس الزام سے بھی ہوا نکل گئی تو اب دیکھیے ہار سے فرار کاکون سا نیا بہانہ تلاش کیا جاتا ہے؟ ایسے لوگ اپنی قبر آپ کھود رہے ہیں۔یہ اپنی رہی سہی عزت بھی کھو رہے ہیں اور موجودہ جیتنے والے گروہ کو اگلی دفعہ اور زیادہ ووٹوں سے جتوانا چاہتے ہیں۔ جیتنے والا گروہ تو ان کا شکریہ ہی ادا کرسکتا ہے کہ آپ اپنی ان حرکتوں کے ذریعہ اپنے ووٹروں سے کہہ رہے ہو کہ آئندہ ہمیں ووٹ مت دو۔
1 comment for “چور کی ڈاڑھی میں تنکا”