حسین خان کا ایک تنقیدی کالم ، ناچ گانے کے متعلق

نورِ محمّد ؐ کا اجالا کرنے کے لیے نورمحمّد جامدانی سفیرِ پاکستان کاانوکھا انداز
اپنی بہنوں اور لڑکیوں کو نچوانا ہو تو چیمبرآف کامرس سے رجوع کیجئے
پھر وہی ناچ گانے کی کہانی‘ سفارت خانہ کی زبانی
پاکستان کا سافٹ امیج پیش کرنے کے لئے سفارت خانہ کا نیا اجتہاد
’’یہ محض سفیر صاحب کی ذاتی عزت کا مسئلہ نہیں ہے۔ پاکستان کمیونٹی ایسے مخربِ اخلاق مناظر کو خاموش تماشائی بنے بیٹھے دیکھ نہیں سکتی۔ یہاں ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور بچے بھی ہمارے ساتھ رہتے ہیں اور زیادہ تر وہ  ہیں جو نومسلمہ جاپانی ہیں۔ ہم انھیں سفارت خانہ کے زیرِ سرپرستی ایک ایسی پاکستانی سوسائٹی کا امیج دینا نہیں چاہتے جو اسلام اور اسلامی شعائر کی کھلم کھلا خلاف ورزی پر مبنی ہو۔ کیا کبھی اسلام کا سافٹ امیج دینے کےلیے نبی کریمؐ اور خلفائے راشدہ کے دور میں ناچ گانے کے پروگرام رکھے گئے تھے؟‘‘
’’ جس طرح پچھلے سفیر صاحب کے خلاف سفارت خانہ کی فروخت کے معاملہ پر کمیونٹی نے مظاہرہ کیا تھااسی طرح اگر سفیرِ محترم اپنی ناچ گانے کی سرپرستی کے اشتھار کے معاملہ میں اپنی عدم شرکت کا اعلان نہ کریں تو کمیونٹی کو پاکستانی سفارت خانہ کے خلاف مظاہرہ کرنے پر غور کرنا پڑے گا۔ہم ایسے کسی سفیر کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جو پاکستانیوں میں بے حیائی اور مخرب اخلاق کاموں کو روکنے کے بجائے مسلسل اس کو ہر موقع پر فروغ دے کر پاکستان کے اسلامی دستور کی خلاف ورزی پر تلا ہوا ہو اوراپنی عاقبت خراب کرنے کے ساتھ ساتھ کمیونٹی کو بھی لے ڈوبنے والے اعمال کی ہمت افزائی کررہا ہو۔کیا خلافِ اسلام چیریٹی شو کی سرپرستی کرنا پاکستان کے نام’اسلامی جمہوریہ‘ اور اس کے اسلامی دستور کی اسپرٹ کے منافی نہیں ہے؟
سفیرِمحترم! آپ کے بھی بیوی بچے ہیں۔ کیا آپ ان کو پاکستان کا سافٹ امیج دینے کے لیے نیم عریاں لباس میں لوگوں کے سامنے نچوانے کی تربیت دینا پسند کریں گے؟ اگر نہیں تو آپ ہمارے بچوں کے اعمال اور اخلاق خراب کرنے والوں کاموں کی سرپرستی کیوں قبول کرلیتے ہیں؟ اگر ان کاموں سے پاکستان کا سافٹ امیج اچھا ہوتا ہو تو پہلے اپنے سفارت خانہ کے افسروں اور خود اپنے گھر والوں کو ناچنے گانے کی تربیت دے کر کمیونٹی کے سامنے ایک مثال پیش کرکے دکھایئے۔
تحریر: حسین خاں  ۔  ٹوکیو
سیلاب زدگان کی امداد کے نام پر چیریٹی شو کا اہتمام کرنے والی تنظیم‘پاکستان چیمبر آف کامرس ،جاپان کی طرف سے3 جیسے سب سے بڑے سائز کے آرٹ پیپر جیسے قیمتی کاغذ پر رنگین طباعت کے ساتھ اپنے جسمانی اتار چڑھاؤ کو نمایاں کرکے دکھانے والی کسی بے حیاء لڑکی کی بڑی فوٹو کے ساتھ ساتھ سفیرِ پاکستان کے مہمانِ خصوصی ہونے اور سفارت خانہ کے تعاون کے اعلان کے ساتھ بڑے بڑے اشتہار چھاپ کر پاکستان کمیونٹی میں تقسیم کیے جارہے ہیں۔ اس اشتہار میں یہ بتایا گیا ہے کہ 9,10اور1 اکتوبرکو یاشیو،ناگویا اور یوکوہاما میںچیریٹی شو دکھائے جائیں گے۔
سیلاب زدگان اس وقت کس مپرسی کی حالت میں ہیں اوراللہ تعالیٰ سے سیلاب زدگان بھی اور پوری پاکستانی قوم  بھی روز گڑا گڑا کر دعائیں مانگ رہی ہے کہ یااللہ ان مصیبت زدوں کی حالتِ زار پر رحم فرما اور سیلاب کے نتیجہ میں ان پر جو مصیبتیں نازل ہوئی ہیں ان سے جلد از جلد نجات عطافرما۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو اپنی حالتِ زار پر متوجہ کرنے کے لیے  وہ خود بھی روز صبح و شام دعائیں کررہے ہیں اور پانچوں وقت مسجدوں میں بھی ہر بار باجماعت نماز کے بعد دعائیں مانگی جارہی ہیں۔ مصیبت زدہ لوگوں کی امداد کے لیے سامان اور پیسے جمع کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی روحانی امداد دعاؤں کے ذریعہ کی جارہی ہے۔یہی مسنو ن طریقہ ہے جو ہمارے نبیؐ نے ہمیں سکھایا ہے۔
قران و حدیث میں بتائے گئے ان طریقوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان چیمبر آف پاکستان اور سفارت خانہ کی ملی بھگت سے جو اشتہار چھاپے گئے ہیں ،ان میں بتایا گیا ہے کہ ہم اپنی قوم کی بہنوں اور لڑکیوں کونچوا کر پیسے جمع کریں گے اور اس طرح کے مخربِ اخلاق اور بے حیائی کے طریقوں سے جو پیسے جمع ہوں گے ،ان سے سیلاب زدگان کی امداد کریں گے۔ایک طرف تو ساری پاکستانی قوم سیلاب زدگان کی مدد کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت کی طلبگار ہے لیکن ہمارا سفارت خانہ اور نام نہاد چیمبر آف کامرس اللہ تعالیٰ کے غضب اور قہرِالٰہی کو دعوت دینے کا اہتمام کررہے ہیں۔ آپ ناچ گانے اور ڈھول پیٹ کرکچھ پیسے تو جمع کرلوگے لیکن ان اعمال سے اللہ تعالیٰ کی جو ناراضگی مول رہے ہیں اس کی تلافی ان پیسوں سے نہیں ہوسکے گی۔اس طرح سیلاب زدگان کی امداد نہیں بلکہ یہ چیریٹی شوز‘ ان سیلاب زدگان پر بھی اور ان طریقوں سے امداد دینے والے اور اس طرح کی امداد کا اہتمام کرنے والے سب لوگوں پر نئی مصیبتیں لانے کا پیش خیمہ ہوںگے۔اس طرح سے بے حیائی اور خلافِ اسلام طریقوں سے جمع کیے ہوئے حرام پیسوں سے گویا ہم نئی نئی آفتیں خریدیں گے۔اس طرح سیلاب زدگان کی کوئی امداد نہیں ہوگی بلکہ اس حرام پیسے سے امداد دینے والے بھی اور ا س کا اہتمام کرنے والے بھی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا عذاب کا مستحق قرار دیں گے۔ اس بے حیائی میں شریک لوگوں کو خود امداد کی اس سے زیادہ ضرورت پڑجائے گی جتنا کہ انھوں نے اس بے حیائی کو امداد سمجھ کر فروغ دیا ہوگا۔
سب سے پہلے تو اس چیمبر آف کامرس کے اپنے آپ کے صدر کہنے والے ذوالفقار صاحب کی بداعمالیوں پر اللہ تعالیٰ نے جوپردہ ڈالا ہواتھا، وہ چاک ہوگا۔ساری دنیا جانتی ہے کہ انھوں نے یاشیو کے الکرم ریسٹورنٹ پر کس طرح اپنا قبضہ جمایا ہے۔ کوئی اس  پاکستانی خاتون سے جاکر پوچھے جو اس کی مالکہ تھی کہ اس کو کیسے چکر دے کر اس سے یہ ریستوران ہتھیالیا گیا ہے۔نئی منتخب شدہ پاکستان ایسوسی ایشن کے سب سے زیادہ ووٹ لینے والے سینئیر نائب صدر ملک یار محمّد صاحب نے بیچ میں پڑکر معاملہ کو سلجھانے اور اس ریسٹورنٹ کو اس کی اصل مالکہ کو واپس دلانے کی مخلصانہ کوشش کی تو اس چیریٹی شو کے کرتا دھرتا ذوالفقار صاحب نے ایسی زبردست چال چلی کہ بیچ بچاؤ کرنے والے  ملک یار محمّد بھی مات کھا گئے۔ ان کی چال یہ تھی کہ ذولفقار نے کہا کہ میں نے اس ریسٹورنٹ پر اب تک جو خرچہ کیا ہے وہ مجھ دے دیا جائے تو میں یہ ریسٹورنٹ اس کی اصل مالکہ پاکستانی خاتون کو واپس دے دوں گا۔ اس خاتون کا موقف یہ ہے کہ ذوالفقار نے ماہوار جو رقم دینے کا و عدہ کیا تھا ۔ وہ سب دے تو وہ مالکہ ذولفقار کو ساری ادائیگی کرسکتی ہے۔ریسٹورنٹ کی کمائی تو ساری خود رکھ لے اور خرچہ جو کیا ہے وہ مالکہ سے مانگے ،یہ کون سا انصاف ہے؟ پاکستان ایسو سی ایشن کا فرض ہے کہ وہ ابھی بھی اس معاملہ میں پڑ کر اس ریسٹورنٹ کو اس کی اصل مالکہ کو واپس دلائے اور ذولفقار کی چالوں کے چکّر میں نہ آئے۔ اس چیریٹی شو کرانے کی سب سے بڑی آفت اس کے کرتا دھرتا پر اب اس طرح آتی نظر آرہی ہے کہ کئی سالوں سے ایک خاتون کی ملکیت پر ناجائز قبضہ کرکے جو حرام کی کمائی ذوالفقار کھا رہا  تھا،اب شاید کمیونٹی اس ناجائز قبضہ پر زیادہ دن خاموش نہیں بیٹھے گی اور اس ریسٹورنٹ کو اس کی اصل مالکہ خاتون کو واپس دلایا جائے گا۔ چیریٹی شو کی لعنت‘ اس کا اہتمام کرنے والے پر اس طرح آتی نظر آرہی ہے کہ اس کا اب تک جو کمائی کا ذریعہ بنا ہوا تھا، وہ ریسٹورنٹ  اب زیادہ دن اس کے ہاتھ میں نہیں رہے گا ۔مزید یہ کہ ساری کمیونٹی کو ذولفقار کی ا ن بد اعمالیوں کا علم نہیں تھا، اب نظر یہ آرہا ہے کہ اس چیریٹی شو کے اہتمام کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اس کے عیوب کا پردہ چاک کرنے لگا ہے۔ یہ ایک عبرتناک مثال ہے ان لوگوں کے لیے جو 5,5 ہزار ین کاٹکٹ خرید کر ناچ ،گانوں کے تماشے دیکھنے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس چیریٹی شو کو دیکھ کر واپس آنے کے بعد وہ دیکھتے رہیں کہ ان کی روز مرہ کی زندگی میں انھیں کن کن نئی نئی پریشانیوں کا شکار ہونا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والے بے حیائی کے کاموں میں شریک رہنے کے بعد کوئی گناہگار کیسے یہ توقع کرسکتا ہے کہ وہ اپنی شامتِ اعمال کا شکار نہیں ہوگا؟ اس طرح کے بے حیائی کے کاموں سے سیلاب زدگان کی کوئی امداد نہیں ہوگی بلکہ ہراس آدمی کی پریشانیوں میں اضافہ ہوگا، جو اس طرح کے خلاف ِ اسلام کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے گا ۔
اس بے حیائی کی سرپرستی میں شریک سفیر صاحب  کے انجام سے بھی آدمی عبرت حاصل کرے۔ یہ جب شروع شروع میں تشریف لائے تھے اور کمیونٹی کے اتحاد کے لیے دعائیں اور سب کو ایک نظر سے دیکھنے جیسے نیک اعمال کیے تھے تو کمیونٹی میں ان کی عزت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا اور ہر شخص ان کی خوبیوں کے گیت گارہا تھا۔ لیکن انھوں نے خود اپنے ہاتھوں سے آپ جو اپنی عزت کھوئی ہے، یہ بھی ایک قابل دید عبرتناک منظر ہے۔ عزّت اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں ہے۔ جو سفیر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں پیش پیش ہو اس کی کمیونٹی کی نظروں میں کیا عزت رہے گی؟ ان کے نام میں تو ماشاء اللہ نورمحمدجیسے الفاظ ہیںلیکن کیا یہ اسم با مسمّیٰ بھی ہیں ؟ کیا ان کے اعمال سے نورِ محمّدؐکا اجالا چمک رہا ہے؟کیا ہمارے پیارے نبیؐ ان اعمال کو پسند کریں گے کہ ان کے نا م لیوا ایک مسلمان قوم کی لڑکیوں اور بہنوںکو نچوانے والے بے حیائی کے کاموں کی سرپرستی کریں؟ افسوس کہ سفیر صاحب اپنے مبارک نام کی بھی لاج نہیں رکھ رہے ہیں۔انھوں نے 23 مارچ والے دنوں میں تحریکِ پاکستان کے نام کو بھی بٹّہ لگایاکہ پاکستان نہ بنتا تو یہ علاقائی ناچ مرچکے ہوتے۔گویا کہ پاکستان کے وجود میں آنے کا مقصد یہ تھا کہ ہر علاقہ میں تعلیماتِ محمّدی کی خلاف ورزی کو علاقائی ناچ گانوں کی شکل میں زندہ رکھا جائے۔ ناچ ،گانے کی محفلیں سجا سجا کر محترم سفیر صاحب نے ان سے ہمارے آقامحمّدؐ کی تعلیمات کی خوب دھڑلے سے کھلم کھلاخلاف ورزی کی اور اب بھی ان کا مبارک نام اس اشتہار کے ساتھ لگا ہوا ہے جس  میں ایک بے حیاء لڑکی کو ایسے پوز میں دکھایا گیا ہے کہ لوگ 5,5 ہزار ین کا ٹکٹ خرید کر اس طرح کی ناچنے والی لڑکیوں کی جنسی اپیل سے لطف اندوز ہونے کے لیے آئیںاور ساتھ ساتھ سفیر صاحب کی سرپرستی  کا منظر بھی دیکھیں کہ وہ ان مناظر سے کتنے خوش ہورہے ہیں؟ کیا اس طرح کی حرکتوںسے اپنے آپ کو ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ کہنے والے کسی مسلمان ملک کے مسلم سفیرکی عزت میں اضافہ ہوگا؟اللہ اور رسول کی نافرمانی والے اعمال سے آج تک دنیا میں کسی کی عزت کوئی اضافہ نہیں ہوا۔
یہ محض سفیر صاحب کی ذاتی عزت کا مسئلہ نہیں ہے۔ پاکستان کمیونٹی ایسے مخربِ اخلاق مناظر کو خاموش تماشائی بنے بیٹھے دیکھ نہیں سکتی۔ یہاں ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور بچے بھی ہمارے ساتھ رہتے ہیں اور زیادہ تر وہ  ہیں جو نومسلمہ جاپانی ہیں۔ ہم انھیں سفارت خانہ کے زیرِ سرپرستی ایک ایسی پاکستانی سوسائٹی کا امیج دینا نہیں چاہتے جو اسلام اور اسلامی شعائر کی کھلم کھلا خلاف ورزی پر مبنی ہو۔ کیا کبھی اسلام کا سافٹ امیج دینے کےلیے نبی کریمؐ اور خلفائے راشدہ کے دور میں ناچ گانے کے پروگرام رکھے گئے تھے؟ ہم تو اپنی بیویوں اور بچوں کو یہی بتاتے ہیں کہ اسلام کا آئیڈیل دور تو وہی تھا۔اگر وہ یہ دیکھیں کہ سفارت خانہ تو اس کی خلاف ورزی کی سرپرستی کررہا ہے تو ہمارے لیے نہ صرف یہ کہ یہ ایک شرمناک بات ہے بلکہ آئندہ  یہ بات ان کی پاکیزہ تعلیم و تربیت کی راہ میں ایک زبردست رکاوٹ بھی ثابت ہوگی۔
جس طرح پچھلے سفیر صاحب کے خلاف سفارت خانہ کی فروخت کے معاملہ پر کمیونٹی نے مظاہرہ کیا تھااسی طرح اگر سفیرِ محترم اپنی ناچ گانے کی سرپرستی کے اشتھار کے معاملہ میں اپنی عدم شرکت کا اعلان نہ کریں تو کمیونٹی کو پاکستانی سفارت خانہ کے خلاف مظاہرہ کرنے پر غور کرنا پڑے گا۔ہم ایسے کسی سفیر کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جو پاکستانیوں میں بے حیائی اور مخرب اخلاق کاموں کو روکنے کے بجائے مسلسل اس کو ہر موقع پر فروغ دے کر پاکستان کے اسلامی دستور کی خلاف ورزی پر تلا ہوا ہو اوراپنی عاقبت خراب کرنے کے ساتھ ساتھ کمیونٹی کو بھی لے ڈوبنے والے اعمال کی ہمت افزائی کررہا ہو۔کیا خلافِ اسلام چیریٹی شو کی سرپرستی کرنا پاکستان کے نام’اسلامی جمہوریہ‘ اور اس کے اسلامی دستور کی اسپرٹ کے منافی نہیں ہے؟
سفیرِمحترم! آپ کے بھی بیوی بچے ہیں۔ کیا آپ ان کو پاکستان کا سافٹ امیج دینے کے لیے نیم عریاں لباس میں لوگوں کے سامنے نچوانے کی تربیت دینا پسند کریں گے؟ اگر نہیں تو آپ ہمارے بچوں کے اعمال اور اخلاق خراب کرنے والوں کاموں کی سرپرستی کیوں قبول کرلیتے ہیں؟ اگر ان کاموں سے پاکستان کا سافٹ امیج اچھا ہوتا ہو تو پہلے اپنے سفارت خانہ کے افسروں اور خود اپنے گھر والوں کو ناچنے گانے کی تربیت دے کر کمیونٹی کے سامنے ایک مثال پیش کرکے دکھایئے۔
چیریٹی شو کا اہتمام کرنے والے چیمبر آف کامرس کے صدر اوراس کی سرپرستی کرنے والے سفیرصاحب کے امکانی انجام کو دیدہ عبرت سے دیکھا جائے تو ہر مسلمان کے جذبہ ایمانی میں اضافہ ہوگا۔ نہیں، نہیں ،  صرف اتنا کافی نہیں ہے۔ ہماری ذمہ داری اس سے بڑھ کر بہت کچھ ہے۔ صرف نافرمانوں کے انجام سے سبق لینا کافی نہیں ہے۔کہتے ہیں کہ گھن کے ساتھ گیہوں بھی پِس جاتا ہے۔ہوسکتا ہے کہ میں یہ مثل جان بوجھ کر الٹا لکھ رہا ہوں۔ سورہ انفال میں ایک آیت ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے اس عذاب سے ڈرو جو محض گناہگاروں پر نہیں آئے گا ، یعنی یہ کہ نیک لوگوں پر بھی آئے گا۔ وہ کیوں؟ اس لیے کہ نیک لوگ اپنے اطراف کی برائیوں کی خاموشی سے دیکھتے رہے اور ان کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔اس لیے کمیونٹی کا فریضہ بن جاتا ہے کہ وہ ہر قیمت پر ایسی بے حیائی کی محفلوں کو روکے۔ایک حدیث کا کم و بیش مفہوم یہ ہے کہ برائی کو طاقت سے روکو۔اگر یہ نہیں کرسکتے تو زبان سے روکو۔ اگر یہ بھی نہیں کرسکتے تو کم ازکم دل میں اسے برا سمجھواور یہ ایمان کا آخری درجہ ہے۔ کمیو نٹی میںجس کا ایمان جس درجہ کا ہے وہ اس برائی کو روکنے کی کوشش کرے۔ورنہ ایک اور حدیث میں ایک اور مثال دی گئی ہے کہ کچھ لوگ کشتی میں سوراخ کررہے ہیں۔ اگر دوسرے لوگ ان کو زبردستی نہ روکیں تو کشتی کے ڈوبنے سے سارے نیک لوگ بھی ساتھ ہی ڈوب جائیں گے۔ یہ بے حیائی کا فروغ پاکستان میں ’پاسبان‘ نامی ایک نوجوانوں کی تنظیم نے روکنے کی کوشش کی تھی۔ اسی اسٹائیل کے کاموں کی اب جاپان میں بھی ضرورت ہے ۔اس کے بغیر ہم جاپان میں اپنی نومسلمہ بیوی بچوں کو  اچھے مسلمان نہیں بناسکیں گے۔

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.