راشد صمد خاں کا کالم

ٹکراؤ کی صحافت نے جاپان میں پاکستانی کمیونٹی کو کمزور کر کے رکھ دیا،دوست ،دوست کے دشمن ہوگئے  مثبت اور  نیک کاموں میں ذاتی مخالفت کی وجہ سے روڑے اٹکانا معمول بن گیا ہی، ڈریں اس وقت سے جب لاد چلے گا بنجارا ، کمیونٹی اچھے برے کو پہچانے ، ہر شخص سمجھ دار ہے ،خدارا کسی کا آلہ کار بننے سے گریز کریں ، آپ کو نہیں پتہ کون آپ کو استعمال کرکے اپنے مفادات حاصل کر رہا ہے۔
جس بات کا ڈر تھا آخر ہو ہی گیا کوشیگایا میں دو پاکستانیوں کی لڑائی۔ کیایہ اُس خطرے کا  آغاز ہے جسے نیٹ پڑھنے والے کافی دنوں سے محسوس کر رہے تھے یا پھر یہ سب کچھ اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہے جو کچھ دنوں سے دو مختلف نیٹوں پر چل رہا تھا  ۔ میرے خیال میں ان ڈراموں کے رائٹرز اور پروڈیوسرز سے جواب طلبی ضروری ہے ۔ اس پر کمیونٹی نے اب بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا تو میرے خیال میں یہ سلسلہ نہ ختم ہونے والی جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے جس کا نقصان صرف اور صرف پاکستانی کمیونٹی کو ہی بھگتنا پڑے گا اور جو ا بھی بھگت رہی ہے دوست ،دوست کا  دشمن ہو گیا ہے اورذاتی مخالفت کی وجہ سے مثبت اور نیک کام میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں اورایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کوئی کثر نہیں چھوڑی جاتی ، بزرگ افراد کی عزتوں اور انکے مرتبوں کی دھجیاں اُڑانے کے مقابلے شروع کر د یئے جاتے  ہیں یہاں تک کہ ماں بہنوں کو سرے عام میدان میں کھڑا کر دیا جاتا ہے تاکہ ان کی رسوائی پر مزے لینے والے تماشائی محظوظ ہوں سکیں اور تالیاں بجا  بجاکراس تماشے پر داد دیں سکیں۔آخر ہم لوگوں کی کون سی ایسی دشمنیاں  ہیں جو ہم ایک دوسرے کو اس طرح رسوا کر رہے ہیں ، ہم لوگوں نے ایک دوسرے کا ایساکیا بگاڑا ہے جو آج ہم لوگوں نے  ایک دوسرے کے گریبان پکڑنا شروع کر دیئے ہیں۔ آخر ہم لوگ کب بردباری اور سمجھ داری کا مظاہر ہ کریں گے کب ہم اچھے کو اچھا اور برے کو برا کہنا سیکھیں گی،کب ہم لوگوں کو عقل آئے گی جب ہم سمجھ پائیں گے کہ پاکستانی کمیونٹی کے لئے کیا اچھا ہے اور کیا برا، صرف دوستی کے چکر میں اچھے کو برا کہنا اور برے کو اچھا کہنے کی روایت کو بدلنا ہو گا ۔آج ہم لوگوں نے اپنے آپ کو گروپوں میں تقسیم کر دیا ہے کیا کبھی آپ لوگوں نے سوچا ہے کہ جاپان میں داخلے کے وقت آپ سے کیا پوچھا جاتا ہے وہ صرف آپ کی پہچان پوچھتے ہیں کہ آپ کس ملک سے تعلق رکھتے ہیں آپ کا جاپان میں داخلہ صرف اور صرف ایک پاکستانی ہونے کے ناطے ہی ہوتا ہے لیکن ہم لوگ یہ سب کچھ بھلا دیتے ہیں اور جس پہچان سے جاپان میں داخل ہوتے ہیں اسی ملک کی ذلت کا باعث بنتے ہیں ۔ہمیں اب ایک پاکستانی ہو کر سوچنے کی ضرورت ہے ہمیں ملکر ایسے کام کرنے ہوں گے جس سے جاپان میں پاکستانی کمیونٹی کو ہونے والے نقصانات کی تلافی ہو سکی، آپ چاہے کسی گروپ سے یا جماعت سے تعلق رکھتے ہوں اب پاکستان کے لئے ایک پلیٹ فارم پر کھڑا ہونا وقت کی ٖضرورت ہے ۔پاکستان کے بگڑتے ہوئے حالات کی طرح ہم لوگوں نے یہاں بھی اپنے حا لات جان بوجھ کر خراب کر لئے ہیں ، اگر ہم لوگ ایک ہو جائے اور درگزرکی راہ اختیار کریں تو ہم لوگ پاکستان اور پاکستانی کمیونتی کے لئے وہ کچھ کر سکتے ہیں جسے تاریخ سدیوں یاد رکھی۔ جس کے لئے ہمیں ذاتیاتی جنگ سے نکل کر نظریاتی شعور پیدا کرنا ہو گا ، ورنہ یہ وقت تو گزر جائے گا لیکن ذلت کی یادیں ساتھ رہ جائیں گی لیکن پھر کیا ہوگا پچھتا کے ،جب لاد چلے گا بنجارا،  آخرت میں آپ اپنے پروردگار کو کیا منہ دکھائیں گی۔

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.