سچائی اور انصاف کا ساتھ نہ دینا بھی ایک بڑا جرم ہی
’’دوسروں کے اخلاق بگاڑنے والے لوگ کس منہہ سے کہتے ہیں کہ
ان سے ’غیر اخلاقی‘ انداز میں بات نہ کی جائے جبکہ یہ خود
شرعی کوڑوں کے مستحق لوگ ہیںٔٔ‘‘
حسین خاں ۔ ٹوکیو
دو نیٹوں کی لڑائی اگر ذاتیات کی ہے تو دونوں کو غلط کہنا بجا ہے لیکن اس وقت جو لڑائی پچھلے دو، تین ہفتوں سے ہورہی ہے ، اس کی نوعیت کچھ مختلف ہی۔
اس لڑائی میں بعض لوگوں نے اپنے آپ کو ’’مخنّث‘‘ رکھنے کی کوشش کی ہی۔ہم نہ عورت ہیں نہ مرد۔ پھر آپ کیا ہیں؟کہیں بھی کوئی لڑائی ہوتی ہے تو مقدمہ عدالت میں جاتا ہے اور ساری تفتیش کے بعد عدالت کسی ایک کے موقف کو صحیح اور کسی دوسرے کے موقف کو غلط قرار دیتی ہی۔عدالت ایسا کوئی فیصلہ نہیں کرتی کہ دونوں ہی غلط ہیں۔ بڑے پیمانہ پر جائیے تو حق و باطل کی جنگ میں دونوں ہی غلط نہیں ہوتی۔ ایک گروہ حق پر ہوتا ہے اور اس حق کی خاطر وہ جان لڑانے کے لیے بھی تیار ہوجاتا ہے اور باطل کو مٹانا اپنا فرضِ اوُلین سمجھتا ہی۔ دوسرا باطل پر ہوتا ہے ۔ باطل صرف چھو منتر سے ختم نہیں ہوتا۔اس کے خلاف لڑنا پڑتا ہی۔اسلام اور کفر کی جنگ میں جہاد کے تصور کی بنیاد ہی یہ ہے کہ باطل کے علمبرداروں کے مفادات ہوتے ہیں۔ وہ اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے لڑنے مرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں ۔اس طرح کی حق و باطل کی جنگ کہیں ہورہی ہو تو آپ Neutral نہیں رہ سکتی۔ فلسطین کے معاملہ میں آپ عربوں کے موقف کو صحیح قرار دیں گے اور اسرائیل کے موقف کو غلط۔ یہ نہیں کہ دونوں ہی غلط ہیں۔ کشمیر کے مسئلہ میں ہم پاکستان کے موقف کو حق پر سمجھتے ہیں اور بھارت کے موقف کو غلط۔ یہ نہیں کہ دونوں ہی موقف غلط ہیں۔ یہ طرزِ فکر ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتی۔ ہر معاملہ میں آپ کے ضمیر کا تقاضہ ہوتا ہے کہ یہ دیکھیں کس کا موقف صحیح ہے اور کس کا غلط۔کسی کا موقف سچائی اور انصاف پر ہو تو اس کا ساتھ دیجئے اور جو غلط موقف پر ہے اس کے خلاف کھڑے ہوجائی۔ ہمارے رسولؐ نے تو یہی سکھایا ہے کہ برائی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوجاؤ۔اس کے خلاف ڈٹ جاؤ اور ہوسکا تو طاقت سے روکو ورنہ کم از کم زبان سے ہی اسے روکو۔ افسوس کہ بعض لوگ بے حیائی اور فحش کی اشاعت کرنے والے نیٹ کو اس نیٹ کے شانہ بشانہ برابری میں کھڑا کررہے ہیں جوایک بے حیائی اور حرام کام کے خلاف قلمی اور صحافیانہ لڑائی لڑ رہا ہے اور قابلِ مبارکباد ہی۔ اس کو ایک بے حیاء نیٹ کے برابر کھڑا کرکے دونوں کو ہی برا کہنا ناانصافی پر مبنی ہی۔معاشرہ میں برائیوں کے فروغ کے خلاف سینہ سپر ہونے والی، حق اور سچائی کی خاطر علمبردارنیٹ کو بھی برا کہنا زیادتی ہی۔معاشرہ میں امن اور شانتی کا طریقہ ہمیں اسلام نے یہ نہیں سکھایا کہ جو برائیوں کے خلاف لڑرہا ہے ہم اُسے بھی بٹھادیں ۔ہمیں ایسا امن نہیں چاہیئے جس میں ہم برائیوں کے فروغ اور اشاعت کو ہم مان لیں۔ اور اس کو فروغ دینے والے کو کھلی چھٹی دے دیں۔ جاؤ تم جتنی چاہو معاشرہ میں برائیاں پھیلاتے رہو اور ہم امن و سلامتی اور پیار و محبت کے نام پر قران و حدیث کی تعلیمات کو بالائے طاق رکھ کرتمھیں کچھ نہیں کہیں گے اور تمھیں اس کی پوری پوری اجازت دیں گے کہ جس کشتی میں ہم سب سوار ہیں تم اس میں سوراخ کرتے رہو۔ہم تم سے کچھ نہیں کہیں گے کیونکہ ہمیں تم سے بہت پیار و محبت ہی۔ تمہارے پیار میں ہم تمہارے ساتھ اس کشتی میں ڈوبنے کے لیے تیارہیں۔ کیا نبی کریم ؐکی حدیثِ مبارکہ ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ کشتی میں سوراخ کرنے والے کو مت روکوبلکہ اس سے اتنا پیار کرو کہ وہ اپنے ساتھ ساتھ سب کو ہی لے ڈوبی؟
اگر دو نیٹوں کی لڑائی ہورہی ہے تو یہ دیکھا جاے کہ کس بات پر ہورہی ہی؟ بعض اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ محض ذاتیات کی لڑائی ہے ۔ اگر ایسا ہے تو کوشش کرنی چاہیئے کہ آپس کی رنجشیں اور دلوں کی کدورتیں دور کی جائیں اور باہمی محبت و تعاون کی فضاء پیدا کی جائی۔لیکن اب معاملہ اس مرحلہ سے بہت آگے نکل چکا ہی۔ پانی سر سے اونچا چلاگیا ہی۔ ذاتیات کی لڑائی بڑھتے بڑھتے اب اس مرحلہ پر آگئی ہے کہ ایک نیٹ نے چیریٹی شو کی مخالفت کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے اور دوسرے نے اس کی حمایت کا۔یہی لڑائی بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ گئی کہ چیریٹی شو کے حامیوں نے اس کے مخالف نیٹ کے سر براہ کو اغواء کرنے کی کوشش کی اور پولیس بھی موقعِ واردات پر پہنچ گئی۔ دونوں نیٹوں پر کچھ بھی لکھا ہو ،یہ دیکھیں کہ پولیس نے کیا موقف اختیار کیا؟پولیس کے سامنے چیریٹی شو کے کرتا دھرتاذوالفقار نے یہ موقف پیش کیا کہ ان کی خوب پِٹائی ہوئی ہے اور اس حد تک ہوئی ہے کہ انھیں امبولنس منگواکر ایمرجنسی علاج کے لیے اسپتال بھی جانا پڑا۔اس کا الزام انھوں نے ناصر ناکاگاوا پرلگایا کہ شراب کی حالت میں ناکاگاوا نے ان کی بہت پِٹائی کی ہے اور سر پر خوب مکّے مارے ہیں۔ اگر ذولفقار کا یہ بیان سچّا ہو تو پولیس کو چاہیئے تھا کہ ناصر ناکاگاوا کو موقعِ واردات پر گرفتار کرکے انھیں تھانہ لے جاتی اور ان کے خلاف ذولفقار کا مقدمہ درج کرلیتی۔ لیکن پولیس نے ایسا نہیں کیا۔ پولیس نے فریقین کے بیانات اور موقعِ واردات کی ساری تحقیق کے بعد ذولفقار کے ملزم ناصر ناکاگاوا کو نہ تو گرفتار کیا اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج کیا اور نہ ہی اپنے ساتھ ان سے کوئی بیان لینے کے لیے انھیں تھانہ لے گئی۔ یہ پاکستان یا پیرو کی پولیس تو نہیں تھی کہ جس نے رشوت لے کر ناصر ناکاگاوا کو یونہی چھوڑدیا ہو۔ پولیس نے اپنے سارے آلات لگا کر چیک کرلیا کہ ناصر ناکا گاوا نے نہ تو شراب پی تھی اور نہ ہی وہ نشہ کی حالت میں تھی۔ذولفقار کا یہ پہلا الزام تو پولیس کی نظر میں جھوٹا ثابت ہوا۔ دوسرا الزام یہ تھا کہ ناصر ناکاگاوا نے ذولفقار کو خوب مارا ہی۔ جن لوگوں نے ان دونوں کو کبھی بھی ایک نظر بھی دیکھا ہو گا،انھیں یہ الزام بادی النّظر میں غلط نظر آئے گا۔ ذولفقار اچھا خاصا ہٹّا کٹّا اور خوب پَلا ہوابندہ نظر آتا ہے اور ناصر ناکاگاوا اس کے مقابلہ میں دبلا پتلا اور چھریرے بدن کا۔کسی کو بھی اس بات پر یقین نہیں آئے گا کہ ایک دبلے تلے شخص نے اپنے مقابل کے ہٹّے کٹّے بندے کو اتنا مارا کہ اسے امبولنس بلانی پڑی۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ذولفقار کے امبولنس بلانے کا مقصد اپنے آپ کو پولیس کی نظر میں مظلوم اور ناصر ناکاگاوا کو مجرم ثابت کرنا تھا۔ لیکن ذولفقار کی یہ چال بھی کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس میں شک نہیں کہ ذولفقار کو ناصر ناکا گاوا کی مار تو پڑی ہے لیکن پولیس نے اس کو زخمی حالت میں دیکھ کر بھی اس کے مار کھانے کے الزام کو درخورِ اعتناء نہیں سمجھا۔کیوں؟
d
پولیس نے ذولفقا ر سے پوچھا کہ سڑک پر کون سی جگہ وہ تھی جہاں ناصر ناکاگاوا نے تمہیں مارا تھا۔ یہ سوال ایسا تھا جس کا کوئی جواب ذولفقار کے پاس نہیں تھا۔ الزام لگانے والے کو امید نہیں تھی کہ پولیس واردات کے اس مقام کو بھی دیکھنا چاہتی ہے جہان ذولفقار کو ناکاگاوا نے مارا تھا۔ اس سوال پر وہ ہکّا بکّا ہوگیا۔ اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی کہ اگر اس سوال کا وہ صحیح جواب دیدے تو خود مجرم قرار پائیگا۔ لیکن پولیس کو کچھ نہ کچھ تو جواب دینا ہی تھا۔ کوئی جھوٹ بولنے کا راستہ بھی نظر نہیں آرہا تھا، بالآخر ذولفقار کو اپنے جرم کا اعتراف کرنا ہی پڑا۔ ذولفقار کو بتانا ہی پڑا کہ ناصر ناکاگاوا نے اس کے سر پر جو مکّے مارے تھے وہ جائے واردات ناکاگاوا کے کار کے اندر تھی۔ پولیس نے دوسرا سوال یہ کیا کہ تم کو اس کے کار کے اندر اپنا سر دینے کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی؟اس دوسرے سوال کے جواب سے پولیس کو پتہ چل گیا کہ اصل مجرم کون تھا؟پولیس کو ذولفقار ہی کے اقبالِ جرم سے پتہ چل گیا کہ وہ کار کے اندر سے ناکاگاوا کی گاڑی کی چابیاں نکالنے کی کوشش کررہا تھا۔اس اقبالِ جرم سے پولیس کو یہ معلوم ہو گیا کہ اصل شرارت تو ذولفقار ہی کی تھی کہ یہ ناکاگاوا کی چابیاں نکال کر ،اسے باہر گھسیٹ کر نکال کر دوسری گاڑی میں بٹھاکر اغواء کرنے کی منصوبہ بندی کرکے اپنے ساتھیوں سمیت ایک حلال فوڈ کے سامنے ناصر ناکاگاوا کا انتظار کررہا تھا کہ جس کے بارے میں ذوالفقارکو اطلاع تھی کہ یہاں ناکا گاوا حلال فوڈخریدنے کے لیے آنے والاہی۔مکر و فریب کے اس کھیل میں ذولفقار کی ساری منصوبہ بندی ناکام ہوگئی (وَاللہ خیر الماکِریِن)اور اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی گزند کے ناصر کو بچالیا ۔ ذولفقار مار بھی کھایا اور اپنے مکر و فریب اور اغواء کرنے کی کوشش میں ناکام و نامراد اور ذلیل و خوار بھی ہوا۔ یہ ہوتا ہے انجام بے حیائی کو فروغ دینے والے کا ۔مالی نقصانات کے ساتھ ساتھ ذلت و خواری کی سزاء بھی۔ فَاعتَبِرُو یَااُولِی الاَبصَار( عبرت پکڑو یا دیدہءِ عبرت رکھنے والو)
اس واقعہ میں ہمارے لیے سبق لینے کا ایک پہلو یہ ہے کہ جو شخص حق کی حمایت کررہا ہو، اس کے ساتھ اللہ کی مدد و نصرت شاملِ حال ہوتی ہی۔ اور جو شخص باطل اور حرام کی ترویج و اشاعت کا کام کررہا ہو ، وہ اللہ کی پکڑ میں کسی نہ کسی وقت آہی جاتا ہی۔ ذولفقار کے حشر ہی سے بے حیائی اورفٖحش کی حمایت کرنے والے سب لوگ سبق لے لیں کہ کسی وقت بھی ان کا نمبر بھی آسکتا ہے ۔معاشرہ میں برائیوں کا جھنڈا بلند کرنے اور انھیں لے کر چلنے والوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ اللہ کی بے آواز لاٹھی کسی وقت بھی ان کے سر پر پڑسکتی ہی۔برائیوں کی معاشرہ میں ترویج اور اشاعت کرنے والے یہ سجھتے ہیں کہ مرنے سے پہلے ہم توبہ ،استغفار کریں گے تو اللہ ہمارے سب گناہوں کو معاف کردے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں اللہ تعالیٰ بہت رحیم و کریم ہے ۔اب تک جن لوگوں نے چیریٹی شو کی حمایت کے ذریعہ ایک حرام کام اور برائی کو طاقت سے روکنے کے بجائے اپنی پوری صحافیانہ اور پیسے اور اثر و رسوخ کی طاقت کو اس حرام کام اور برائی کومعاشرہ میں پھیلانے کے لیے استعمال کیا ہے ، وہ توبہ کرلیں تو ہوسکتا اللہ تعالیٰ ان کی پکڑ نہ کریں ۔ اس توبہ کے لیے ذولفقار کے انجام ہی سے سبق لے لیں تو بہتر ہی۔ اس بے چارہ کے کئی ملین ین تو کنجڑیوں اور بھانڈوں کو پاکستان سے بلانے اور انھیں پھر واپس بھیجنے ، انھیں 2,3 ہفتہ تک ہوٹلوں میںٹھیرانے ، ناگویا،یوکوہاما،تویامااور یاشیو تک ان کے حمایتیوں سمیت اس پورے دس ،پندرہ آدمیوں کے گروپ کو اندرون ِجاپان سفر
کرانے ، مختلف ہالوں کی بکنگ اور ان کے کرایہ ادا کرنے پر خرچ ہوچکے ہیں۔کئی ملین ین کا خرچ کرنے کی وجہ سے جو اتنا بڑا نقصان ہوا ہی، وہ سب عبرت پکڑنے والوں کے لیے کافی ہی۔
سیلاب زدگان کے بجائے چیریٹی شو کے حمایتی اب اسکے کرتا دھرتا کی امداد کریں ۔ یہ امداد کا نہیں بلکہ مزید شرعی سزا کا مستحق ہی۔ اسلامی شریعت کا نفاذہوتا تو یہ سب لوگ کوڑے کھانے کے مستحق ہوتی۔ ابھی تو انھیں صرف قلمی جہاد کا شکار ہونا پڑرہا ہی۔ابھی تو ان کے اندر الفاظ کی مار کی برداشت بھی نہیں ، الفاظ کی مار ہی سے تڑپ تڑپ کر اس کو یہ ’غیر اخلاقی‘ قرار دے رہے ہیں۔ تو کیا اب یہ لوگ شریعت کے ’اخلاقی‘ کوڑوں کے منتظر ہیں؟چمار کابت تو چپل کی پوجا ہی کا مستحق ہوتا ہی۔ جس بے حیائی اور فحش برائی کی تبلیغ و اشاعت یہ لوگ کررہے ہیں ،کیا وہ کوئی اتنا بڑا ’اخلاقی ‘ کام ہے کہ اس کے لیے باادب تنقید کرنے کی ضرورت ہی؟ دوسروں کے اخلاق بگاڑنے والے لوگ کس منہہ سے کہتے ہیںکہ ان سے ’غیر اخلاقی‘ انداز میں بات نہ کی جائے جبکہ یہ خود شرعی کوڑوں کے مستحق لوگ ہیں۔
جاپان میں ہزاروں پاکستانی رہتے ہیں۔چاروں جگہوں پر جس بری طرح یہ چیریٹی شو فلاپ ہوئے ہیں، وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ میں نی،عبدالرحمٰن صدیقی صاحب،حافظ فیض اللہ سعیدی صاحب ، حافظ محمّد احمدقمر صاحب اور دوسرے ساتھیوں نے اس کے خلاف شعور پیدا کرنے کے لیے جو کوششیں کی ہیں اللہ تعالی ان کو قبول فرمائی۔ پاکستان کمیونٹی نے جاپان کے طول و عرض میں ہر جگہ اس کو ناکام کرنے میں جس یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے اللہ تعالیٰ ان سب کی کوششوں اور کاوشوں کو بھی قبول فرمائی۔ الحمد لللہ برطانیہ،امریکہ ، یورپ اور خود پاکستان کے مقابلہ میں جاپان میں پاکستان کمیونٹی کی اسلامیت کا جس تیزی سے فروغ ہوا ہی، اس پر جتنا بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائی، کم ہی۔ بعض لادین یا سیکولر مسلمانوں کو اس پر بڑا تعجب ہورہا ہے کہ جاپان میں اسلامی فکر کے دانشوروں کا غلبہ ہی۔ پوری کمیونٹی ان کی ایک آواز پر اٹھ کھڑی ہوجاتی ہی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جاپان میںپاکستان کمیونٹی نے اپنی خون پسینہ کی کمائی سے لاکھوں ڈالروں کی مالیت کی 50, 60 مسجدیں بھی بنائی ہیں۔ رمضان میں تقریباً ہر روز ہر مسجد میںافطار کا اہتمام بھی ہوتا ہے اور مسجدوں کے علاوہ کئی مصلوں اور عارضی کرایہ کے ہالوں میںختم تراویح بھی ہوتی ہی۔ ایسے ماحول میں اگرشرعی کوڑوں کا مستحق کوئی نیٹ اور کوئی مخصوص گروہ ایک حرام اور بری، بے حیائی اور فحش کام کی تبلیغ و اشاعت پر اتر آئے تو اس کی نامرادی اور ناکامی اظہر من الشّمس ہو کر چاروں چیریٹی شو کے فلاپ ہونے کی شکل میں سامنے آگئی ہی۔ امن اور شانتی کے نام پر برائی کے خلاف سینہ سپر ہونے والوں کو کوئی خاموش رہنے کا درس دے تو گویا یہ سچائی اور انصاف کے خلاف خاموش رہنے کا سبق ہے ۔ یہ ایک ایسا جرم ہے جس کی دین میںکوئی گنجائش نہیں ہے اور نبی کریمؐ کی تعلیمات کے بالکل برخلاف ہے جو دنیا سے منکرات کو مٹانے کے لیے آئے تھی، نہ کہ نعوذُ با للہ امن وشانتی
کے نام پر ان کو فروغ دینے کے لیئی۔ مسلمان کا تو زندگی کا مقصد یہ ہے کہ:
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں ، میں اسی لیے نمازی