ناچنے گانے والی کنجڑی شازیہ خشک کے بچے
’’اسلام کی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ میں کبھی بھی ایک لمحہ کے لیے بھی غیر محرم مردوں کے سامنے بے حجابی اور بے حیائی کے ساتھ آکر کسی بھی مسلمان عورت کے ناچ گانے کے عمل کو ایک ’اچھا ئی ‘ نہیں کہا گیا۔اس برائی کو اچھائی کہنے کا تصّور ہمیں مغربی تہذیب نے دیا ہی۔اسی لیے اس برائی میں ملوّث ایک عورت کے لیے ہم ایک مسلمان ملک کی ’مایہ ناز گلوکارہ‘ جیسے مہذب الفاظ استعمال کرتے ہیں اور اس کے یا اسی قبیل کے ہر ناچ گانے کے تماشے کو ’ زلزلہ زدگان کی امداد‘ یا’ پاکستان کا سافٹ امیج‘ یا ’ سیلاب زدگان کی امداد‘ جیسے لیبل لگاکر انھیں ’نیک‘ کام قرار دیتے رہے ہیں۔ لیکن کسی سڑے ہوئے بدبودار پھل پر اس کے خوش ذائقہ ہونے کے کتنے ہی خوشنما لیبل کیوں نہ لگا لیں اس پھل کی سڑاند اور بدبو تو کبھی نہیں ختم ہوگی۔یہ اسی سڑاند اور بدبو کا ایک حصہ ہے جو 2 سال بعد ہمارے سامنے آیا ہی۔ یہ جس شکل میں ہمارے سامنے آیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کنجڑی شازیہ خشک جاپان آکراپنے پیشہ کے شایانِ شان کردارکا مظاہرہ کرکے اپنے واقعی کنجڑی ہونے کے ثبوت فراہم کرگئی ہی۔ ‘‘
’’ہم مغربی تہذیب کی مختلف ’برائیوں‘ کو ’برائیاں‘ قرار دینے کے بجائے مغرب کی ’ذہنی غلامی‘ کے نتیجہ میں انھیں ’اچھائیاں‘ کہہ کر ’کفر‘ کے قریب پہنچ گئے ہیں۔جو لوگ ’کفر‘ کے دروازے کھٹکھٹارہے ہوں ، ان پر اللہ تعالیٰ اپنی ’رحمت‘ کے دروازے کیسے کھولے گاْ؟ ہم تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بجائے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں۔‘‘
’’اسلامی اقدار کو الٹنی،برائیوں کو اچھائیاں، ’ناخوب‘ کو ’خوب‘ قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ببانگِ دہل،ڈنکے کی چوٹ پر اللہ اور اس کے رسولؐکو اپنی نافرمانی کا چیلنج دے رہے ہیں۔اس کے بعد ہمارا ملک اگر زلزلوں، سیلاب، مہنگائی، بیروزگاری جیسی طرح طرح کی مصیبتوں کا شکار ہوتا ہو تو اس میں تعجب کی کیا بات ہی؟ ‘‘
’’اسی ’برائی‘ بلکہ اپنی بہن بیٹیوں کو نچوانے کی’بے غیرتی‘ کے عمل کو پاکستانی سفارت خانہ نے بڑے فخر کے ساتھ یومِ پاکستان کے موقع پر پیش کیا۔ان کنجڑیوں کو ایک مہذب نام ’ فن کار‘ سے نوازا گیا۔گویا کہ یہ پاکستان جیسی ایک اسلامی مملکت کی پہچان ہے ۔ ‘‘
’’جب آپ ایک ‘برائی‘ کو ’اچھائی‘، ایک ’ناخوب‘ کو ’خوب‘ کر کے پیش کروگے تو اس کا انجام ایسا ہی ہونا تھا
جس کی شکایت خود اس کے منتظمین ،جاپان مین موجود ساری پاکستان کمیونٹی اور پاکستان کا جاپانی سفارت خانہ کررہا ہی۔منتظمین نے خود وہ بیج بوئے تھے جس کے پھل اب ان کو کڑوے کسیلے لگ رہے ہیں اور جس کی کڑواہٹ سے بے تاب ہوکر وہ اب نیٹ پر بیانات شائع کررہے ہیں کہ ہم برے نہیں تھے وہ تو خود شازیہ خشک ہی بری نکلی۔‘‘
’’علی بابا سردارکے ساتھ اس کے 40چور ہی ساتھ لگے رہے ،اور اس کے دباؤ کے تحت چیریٹی شو کامیاب کروانے کی کوششیں کرتے رہی۔چاروں شوز میں اپنے 1200 کے ووٹ بنک میں سے بمشکل 50,60 بندے جمع کرسکے ‘‘
’’کسی کنجڑی کو آپ عزت دے کر بلاؤگے تو اس کے نتایج ایسے ہی برے نکلیں گے جو آپ کو بھی اب نظر آنے لگے ہیں۔اب یہ آپ ہی کی ذمہ داری ہے کہ آپ کے بلائے ہوئے مہمان کو کہیں سے ڈھونڈھ کر نکالیں کیونکہ جب سے یہ خبر جیو ٹیلیویژن سے نشر کی گئی ہے سنا ہے کہ شازیہ خشک اور اس کا شوہر دونوں کہیں بھاگے ہوئے ہیں، اور ان پر دباؤ ڈالیں کے ماں اپنے بچوں کو جاپان سے واپس بلالے کیونکہ ماں تو ضرور اپنے بچوں سے رابطہ میں ہوگی۔‘‘
تحریر حسین خاں ۔ ٹوکیو
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتاہے قوموں کا ضمیر
(اقبال)
ہماری اخلاقی پستی اور اور گراوٹ اس مقام پرپہنچ گئی ہے کہ اب سمجھ میں آنے لگا ہے کہ ہمارا ملک آئے دن زلزلوں، سیلاب، مہنگائی، بیروزگاری اور طرح طرح کی مصیبتوں کا کیوں شکار ہوتا رہتا ہی؟
` ہم نے ایک ناچنے گانے والی عورت کو بڑی عزّت دی ہوئی ہی۔ اردو زبان میںپہلے اسطرح کی پیشہ کر نے والی عورت کو کنجڑی کہا جاتا تھا۔ اس لفظ کے اندر ’برائی‘ کا تصوّر موجود ہی۔ مغلیہ سلطنت کی سرکاری زبان تو فارسی تھی۔ ایک روایت کی مطابق جب مغل بادشاہ شاہجہاں کے دور میں اس کی فوج میں مختلف زبانوں کے بولنے والے شامل ہوئے تو ان سب کی ایک مشترکہ زبان کے طور پر اردو کا آہستہ آہستہ ارتقاء ہوا۔لیکن بعض ماہرینِ لسانیات کا اس روایت سے اختلاف ہی۔ لفظ’ کنجڑی‘ اور’ بھانڈ‘بھی اردو کے قدیم الفاظ معلوم ہوتے ہیں۔آج کل ان الفاظ کا استعمال کم ہوگیا ہی۔ اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہی؟
جس زمانہ میں اردو زبان کا ارتقاء شروع ہو ا ، اس وقت تک ابھی انگریز ہندوستان پر مسلّط نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی ہم مغربی تہذیب سے آشنا ہوئے تھی۔ اس وقت تک اسلامی اقدار صحیح سلامت تھی۔ آج کل کی طرح مغربی اقدار نے اسلامی اقدار کو ابھی پامال نہیںکیا تھا۔جب انگریز ہم پر سیاسی طور پر مسلط ہوگئے اور تقریباً 100 سال تک ہم ان کی غلامی کا شکار رہے تو آہستہ آہستہ ہمارا ’ضمیر‘ ، ’اسلامی ضمیر‘ سے ہٹتے ہٹتے ’ غلامی کاضمیر‘ بننے لگا۔تھا جو ’ناخوب‘ وہی ’خوب‘ ہونے لگ گیا۔
جاپان میں اور ہمارے ملک میں اس طرح کی ’برائیوں‘ کو ’اچھائیاں قرار دینی، بقول علامہ اقبال ’ناخوب‘ کو ’خوب‘ قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا ’’ضمیر‘‘ ہی بدل گیا ہی۔ اب ہمارا ضمیر’’اسلامی ضمیر ‘‘نہیں رہا۔ انگریزوں کی سیاسی غلامی سے آزاد ہوئے نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گذر گیا۔لیکن ہمارا ’’ضمیر‘‘ بقول علّامہ اقبال ابھی بھی ’’غلامی کا ضمیر‘‘ ہی ہی۔ اب ہم مغربی طاقتوں کے سیاسی غلام تو نہیں رہی۔ پاکستان ہی نہیں آج دنیا کے 56 سے زیادہ مسلمان ملک گذشتہ جنگِ عظیم دوّم کے بعد سیاسی طور پر آزاد ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مغربی ملکوںکی شامتِ اعمال کی سزاء کے طور پر انھیں ایک دوسرے کے خلاف لڑواکر ان سب کو اتنا کمزور کردیا کہ اب کوئی بھی مغربی طاقت اس قابل نہیں رہی کہ وہ دوسرے کسی بھی ملک کو فوجی طاقت کے زور پراپنے زیرِ نگیں رکھ سکی۔ اس جنگِ عظیم کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ایشیاء ، آفریقہ اور دنیا کے سارے مظلوم ، کمزوروں اور خصوصاً مسلمانوں پر رحم کھاکر ان سب کو مغربی ظالموں سے ایسے ہی نجات بخشی جیسے کہ کمزور اور مظلوم بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دی تھی۔ اس سیاسی آزادی کے باوجود ابھی بھی بشمول پاکستان تقریباًسارے ہی مسلم ممالک مغرب کی’’ تہذیبی غلامی‘‘ کا شکا ر ہیں۔ہم مغربی تہذیب کے اخلاقی اقدار کو ’’خوب‘‘ اور اسلامی اقدار کو ’’ناخوب‘‘ سمجھنے لگے ہیں۔ ہم مغربی تہذیب کی مختلف ’برائیوں‘ کو ’برائیاں‘ قرار دینے کے بجائے مغرب کی ’ذہنی غلامی‘ کے نتیجہ میں انھیں ’اچھائیاں‘ کہہ کر ’کفر‘ کے قریب پہنچ گئے ہیں۔جو لوگ ’کفر‘ کے دروازے کھٹکھٹارہے ہوں ، ان پر اللہ تعالیٰ اپنی ’رحمت‘ کے دروازے کیسے کھولے گاْ؟ ہم تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بجائے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں۔
ایک حدیث کے مطابق ایمان کا آخری درجہ یہ ہے کہ آدمی کسی برائی کو کم از کم اپنے دل میں تو برا سمجھی۔ہمارا ایمان اب یہ ہوگیا ہے ہم ایک ’برائی‘ کو ’اچّھائی‘سمجھنے لگے ہیں۔ ’ناخوب‘ کو ’خوب‘ کہنے لگے ہیں۔ اب اگر ہماری اخلاقی اقدارسو فی صدی’الٹی ‘ہوگئی ہوں تو گویا اس حدیث کے مطابق ہم ایمان کے آخری درجہ پر بھی نہیں رہے بلکہ الٹا نادانستہ طور پر ’کفر‘ کا دروازہ کھٹکھٹانے لگے ہیں ،کیوں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے رسولؐ نے جس چیز کو ’برا‘ کہا ہے ہم ان کی تعلیمات کے خلاف اس کو ’اچھا‘ کہنے لگے ہیں۔ یہ بہت بڑی جسارت ہے جو ہم اپنے پروردگار کے خلاف کرنے لگے ہیں۔ ہم اسلام کی بتائی ہوئی ساری برائیوں سے بچ نہ سکیں تو کم از کم برائی کو اپنے دل کی حد تک ہی سہی’برائی‘ تو سمجھیں، نہ یہ کہ اس کو ’اچھائی‘ کہہ کر مسلمانوں کے معاشرے میںاس کی ترویج کرنے لگ جائیں۔
اسلام کی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ میں کبھی بھی ایک لمحہ کے لیے بھی غیر محرم مردوں کے سامنے بے حجابی اور بے حیائی کے ساتھ آکر کسی بھی مسلمان عورت کے ناچ گانے کے عمل کو ایک ’اچھا ئی ‘ نہیں کہا گیا۔اس برائی کو اچھائی کہنے کا تصّور ہمیں مغربی تہذیب نے دیا ہی۔اسی لیے اس برائی میں ملوّث ایک عورت کے لیے ہم ایک مسلمان ملک کی ’مایہ ناز گلوکارہ‘ جیسے مہذب الفاظ استعمال کرتے ہیں اور اس کے یا اسی قبیل کے ہر ناچ گانے کے تماشے کو ’ زلزلہ زدگان کی امداد‘ یا’ پاکستان کا سافٹ امیج‘ یا ’ سیلاب زدگان کی امداد‘ جیسے لیبل لگاکر انھیں ’نیک‘ کام قرار دیتے رہے ہیں۔ لیکن کسی سڑے ہوئے بدبودار پھل پر اس کے خوش ذائقہ ہونے کے کتنے ہی خوشنما لیبل کیوں نہ لگا لیں اس پھل کی سڑاند اور بدبو تو کبھی نہیں ختم ہوگی۔یہ اسی سڑاند اور بدبو کا ایک حصہ ہے جو 2 سال بعد ہمارے سامنے آیا ہی۔ یہ جس شکل میں ہمارے سامنے آیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کنجڑی شازیہ خشک جاپان آکراپنے پیشہ کے شایانِ شان کردارکا مظاہرہ کرکے اپنے واقعی کنجڑی ہونے کے ثبوت فراہم کرگئی ہی۔
ہمارے اسلامی اقدار کی پامالی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا چاہئیے کہ ہم ایک کنجڑی کا پاکستان کی ’’مایہ ناز گلوکارہ‘‘کہہ کر بڑے مہذّب الفاظ میںاس کا ذکر کرتے ہیں۔ہم اپنی ایک بہن بیٹی کی بے حجابی،بے حیائی، نامحرم مردوں کے سامنے آکر ناچنے گانے کے تماشہ کو’’زلزلہ زدگان کی امداد‘ یا ’ پاکستان کا سافٹ امیج‘ یا’سیلاب زدگان کی امداد‘‘ جیسا ایک ’’نیک‘‘ کام بتاتے رہے ہیں۔
اسی ’برائی‘ بلکہ اپنی بہن بیٹیوں کو نچوانے کی’بے غیرتی‘ کے عمل کو پاکستانی سفارت خانہ نے بڑے فخر کے ساتھ یومِ پاکستان کے موقع پر پیش کیا۔ان کنجڑیوں کو ایک مہذب نام ’ فن کار‘ سے نوازا گیا۔گویا کہ یہ پاکستان جیسی ایک اسلامی مملکت کی پہچان ہے ۔ گویا کہ پاکستان سے ’دہشت گردی‘کو اسی طرح کے کلچر کے فروغ سے ختم کیا جارہا ہی۔ سب دہشت گرد اب اپنے ہتھیار پھینک کر اسی طرح کی رنگ رلیوں میں مست ہوتے جارہے ہیں۔ یہ گویا اس مسلمان ملک کا کلچر ہے جو اسلام کے نام پر لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کے نتیجہ میں ہندوستان سے علٰحدہ ہوا تھا۔جس کا نام ’اسلامی جمہوریہ‘ اور جس کے دستور کو ’اسلامی‘ دستور کہا جاتا ہی۔ یہ کون سے ’اسلامی اقدار‘ تھے جن کی سفارت خانہ تبلیغ و اشاعت کررہا تھا؟
قرانِ پاک میں سورہ انفال میں اس کا ذکر ہے کہ کافر ہمارے رسولؐ کو چیلنج کرتے ہیں کہ اگر تم سچّے ہو تو آسمان سے ہم پر پتھروں کی بارش یا کوئی اور دردناک ہم پر لاکر دکھاؤ۔اسلامی اقدار کو الٹنی، ’ناخوب‘ کو ’خوب‘ کرنے کا مطلب بھی یہی ہے کہ ہمیں نعوذُ باللہ تمہارے عذاب کی دھمکی کا کوئی ڈر نہیں ہی۔ جاؤ تمہیں جو کرنا ہے کرلو، جو عذاب لانا ہے لے آؤ ہم تو یہ رنگ ریلیاں یونہی مناتے رہیں گی۔ ہم تو یونہی اپنی بہن بیٹیوں کو نچانے کے تماشے سجاتے رہیں گی۔ہم تو یونہی ان کے ناچ رنگ پر ڈالر لٹاتے رہیں گی۔
@ صرف جاپان ہی نہیں پورے پاکستان میں ہم ’اسلامی اقدار‘ کو الٹنے والے کام دھڑلے سے کررہے ہیں اور ہماری حکومت اور اس کے ادارے اور سفارت خانے سب اس میں شامل ہیں۔اسلام کے نام پر ملکی اور قومی سطح تک ہمارا یہ ڈوغلا پن کیا اللہ کی رحمت کو دعوت دے گا یا اس کے عذاب کو؟اسلامی اقدار کو الٹنی،برائیوں کو اچھائیاں قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ببانگِ دہل،ڈنکے کی چوٹ پر اللہ اور اس کے رسولؐکو اپنی نافرمانی کا چیلنج دے رہے ہیں۔اس کے بعد ہمارا ملک اگر زلزلوں، سیلاب، مہنگائی، بیروزگاری جیسی طرح طرح کی مصیبتوں کا شکار ہوتا ہو تو اس میں تعجب کی کیا بات ہی؟
سفارت خانہ کی طرف سے جب اس برائی کی اشاعت و ترویج کی شہہ ملی تو ایک گروپ نے سفارت خانہ کی سرپرستی میں ایک چیریٹی شو کے انعقاد کا اعلان کیا۔ قیمتی آرٹ پیپر پر چھاپے ہوئے پوسٹر بانٹے تاکہ کسی کو یہ شبہ نہ رہے کہ سفارت خانہ کی سر پرستی ان کے ساتھ شامل نہیں ہی۔سفارت خانہ نے کبھی اس اعلان اور اس پوسٹر میں ان کی سرپرستی کے خلاف کوئی تردید شائع نہیں کی۔ اس گروپ نے بھی اس برائی پر ’سیلاب زدگان کی امداد ‘ لیبل لگاکر اس ’برائی‘ کو ایک ’اچھائی‘ کے طور پر پیش کیا۔اس گروپ کو اللہ تعالیٰ نے ناکامی، نامرادی ، بے عزتی اور مالی نقصانات سے دوچار کیا۔سیلاب زدگان کی تو یہ امداد کیا کرتے ،یہ گروپ خود ’چیریٹی شو زدگان ‘ کی صف میں آکر امداد کا مستحق بن گیا۔اس گروپ کو کوئی امداد تو کیا دے گا،اس کے حق میں دو آنسو بہانے والے بھی نصیب نہیں ہوئی۔ البتّہ ایک بیکس عورت کو دھوکہ دے کر اسکے ریستوران پر زبردستی قبضہ کرکے جو حرام کی کمائی کی تھی، اس حرام کی کمائی کا ایک بڑا حصّہ حرام ہی میں نکل گیا۔
اس’برائی ‘ کی تبلیغ و اشاعت کرنے والے سرغنہ کے سارے پچھلے نیک اعمال پر پانی پھر گیا۔معاشرہ میں اس کی دو کوڑی کی کوئی عزت نہیں رہی۔ اس کا ووٹ بنک ہزار،بارہ سو سے گھٹ کر صرف ان 50,60 بندوں تک محدود ہوگیا جن کے ساتھ اس کے کاروباری یا مالی مفادات وابستہ تھی۔ برائیوں کی تبلیغ و اشاعت کے کام میں دوڑبھاگ کرنے والوں کی نہ تو لیڈری چمکتی ہے اور نہ ہی وہ عزت باقی رہتی ہے جو پہلے حاصل تھی۔کبھی بھی حقیقت کو جھٹلانے اور برائیوں کی اشاعت کرنے والے اپنے جھوٹے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔انتخابات میں اپنے ہارنے کی حقیقت کو جھٹلانے والی، ایک ’غیر منتخبہ‘ ایسوسی ایشن کو چلانے کے جھوٹے مقاصدکی کامیابی کی خاطرپاکستان کمیونٹی اور ان کے بچوں کو برائیوں کے راستہ پر چلانے والے ‘ اور اپنی بہن بیٹیوں کو نچوانے والے سردار کے پیچھے چلنے والے صرف وہی لوگ رہ گئے جن کو اپنے سردار سے کسی مالی منفعت کی آس تھی۔’’علی بابا سردارکے ساتھ اس کے 40چور ہی ساتھ لگے رہے ،اور اس کے دباؤ کے تحت چیریٹی شو کامیاب کروانے کی کوششیں کرتے رہی۔چاروں شوز میں اپنے 1200 کے ووٹ بنک میں سے بمشکل 50,60 بندے جمع کرسکے ‘‘
جاپان میں جنرل (ریٹائرڈ)حمید گل، نثار کھوڑو، نعمت اللہ خان جیسی محترم اور قابلِ عزّت شخصیتوں کے علاوہ اسلامک سرکل اور منہاج القران وغیرہ کی طرف سے علماءِ دین کو بھی دعوت دے کر بلایا جاتا رہا ہی۔لیکن کنجڑیوں اورناچنے گانے والیوں کو بھی اسی عزّت و احترام کے ساتھ جاپان آنے کی دعوت دینے کو عمل کو بھی ’ زلزلہ زدگان کی امداد‘ یا ’ سیلاب زدگان کی امداد‘ جیسا ایک’ نیک ‘ کام بناکر پیش کیا جاتا رہا ہی۔اور ایک کنجڑی کو پاکستان کی ’مایہ ناز گلوکارہ‘ کے مہذب الفاظ سے متعارف کرایا جاتا رہا ہی۔
لیکن وہ کنجری کتنی مہذّب نکلی؟اس نے اپنے منتظمین اور اس کو دعوت دینے والے میزبانوں کے آنکھوں میں کس چابک دستی سے دھول جھونکی؟ اپنے بچّے جاپان میں کس دھوکہ دہی سے چھوڑکر گئی؟وہ کس طرح ہوٹل میں منتطمین
کی طرف سے جمع کیے گئے سب پیسے بھی بٹور لے گئی؟ ’زلزلہ زدگان کی امداد ‘ کے نام پر اپنے لیے کس طرحلاکھ روپے کماکر لے گئی؟ ان سب باتوں کے جوابات خود اس کو دعوت دے کر بلانے والے منتظمین کی طرف سے نیٹ اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں۔
’’جب آپ ایک ‘برائی‘ کو ’اچھائی‘، ایک ’ناخوب‘ کو ’خوب‘ کر کے پیش کروگے تو اس کا انجام ایسا ہی ہونا تھا جس کی شکایت خود اس کے منتظمین ،جاپان مین موجود ساری پاکستان کمیونٹی اور پاکستان کا جاپانی سفارت خانہ کررہا ہی۔منتظمین نے خود وہ بیج بوئے تھے جس کے پھل اب ان کو کڑوے کسیلے لگ رہے ہیں اور جس کی کڑواہٹ سے بے تاب ہوکر وہ اب نیٹ پر بیانات شائع کررہے ہیں کہ ہم برے نہیں تھے وہ تو خود شازیہ خشک ہی بری نکلی۔‘‘
کسی کنجڑی کو آپ عزت دے کر بلاؤگے تو اس کے نتایج ایسے ہی برے نکلیں گے جو آپ کو بھی اب نظر آنے لگے ہیں۔اب یہ آپ ہی کی ذمہ داری ہے کہ آپ کے بلائے ہوئے مہمان کو کہیں سے ڈھونڈھ کر نکالیں کیونکہ جب سے خبر جیو ٹیلیویژن سے نشر کی گئی ہے سنا ہے کہ شازیہ خشک اور اس کا شوہر دونوں کہیں بھاگے ہوئے ہیں، اور ان پر دباؤ ڈالیں کے ماں اپنے بچوں کو جاپان سے واپس بلالے کیونکہ ماں تو ضرور اپنے بچوں سے رابطہ میں ہوگی۔
ّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ:۔ شازیہ خشک کے جاپان آنے کے وقت سے لے کر اب تک کے 2 سال میں میں نے ناچ گانے کے خلاف اتنے مضامین لکھے ہیں کہ ان کی ایک چھوٹی سی کتاب بن سکتی ہی۔ ایک دو روز میں آپ درجِ ذیل ویب سائٹ سے یہ کتاب Download کر سکیں گی۔
جولوگ ابھی ان مضامین کو پڑھنا چاہیں، وہ درج ذیل ویب سائٹ پر جائیں۔
http://www.ourquran.com/nachgana.htm
ہوسکتا ہے ان میں سے بعض مضامین کو میں دوبارہ اشاعت کے لیے بھیجوں۔
3 comments for “حسین خان صاحب کا کالم”