ناموسِ رسالت کی خاطر قانون کوہاتھ میں لے کر قتل کرنے کا حق

تحریر:  حسین خاں  ۔  ٹوکیو
(پہلی قسط)
اخبار جنگ میں شائع شدہ اس تصویرسے یہ پتہ چلتاہے کہ قاتل نے قانون کو اپنے ہاتھ میںلے کر ایک گستاخ ِرسول کو جو قتل کیا ہی، اس کو پاکستانی عوام کی دلی حمایت حاصل ہی۔عام حالات میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر کسی بھی انسان کو قتل کرنا ایک بہت بڑا جرم ہی۔ لیکن کسی گستاخِ رسول کو اس طرح قتل کرنااگر ایک ’جرم‘ ہوتا تو امّتِ مسلمہ کے اتنے سارے ہزاروں لوگ کسی ’جرم‘ کی حمایت میں جمع نہیں ہوتی۔ ہزاروں لوگ اس طرح کے قاتل کے گھر پر جمع ہوکراس کے ساتھ ایک ہیرو جیسا سلوک کررہے ہیں ۔ اس بات پر سارے مکاتبِ فکر کے علماءِ کرام اور دینی و مذہبی جماعتوں کے  مابین کوئی اختلافِ رائے نہیں ہی۔گویا اس بات پر اجماعِ امت ہے کہ گستاخِ رسول کو قانون اپنے ہاتھ میں لے کر قتل کرنے کا حق ہر مسلمان کو حاصل ہے اور یہ عمل نہ صرف جائز ،صحیح اور نیک کام ہے بلکہ ایک عزیمت کا کام بھی ہے کیونکہ اس طرح کے عزیمت کے کام کی ہمت کرنا اور اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر ناموسِ رسالت کی حفاظت اور علمبرداری کرنا ہرکس و ناکس کے بس کا روگ نہیں ہی۔ہزاروں لوگوں کے جمع ہونے کا مقصدہی  یہ ہے کہ قاتل نے وہ کام کردکھایا جو یہ لوگ خود نہیں کرسکے تھی۔احادیث سے بھی اس کے جواز کے حوالے انشاء اللہ اگلی قسط میں پیش کئے جائیں گی
اخبار جنگ میں سلمان تاثیر کے قتل کے بعد پاکستانی عوام کے ردِ عمل کی تصویر ایک کالم نگار نے ا ن الفاظ میں کھینچی ہی:
اخبار جنگ کی  مندرجہ بالا خبر سے بھی پتہ چلتا ہے پاکستانی عوام کے اندر ابھی بھی جذبہ ایمان زندہ و تابندہ ہے ۔ پیپلز پارٹی اپنے سیکولر یعنی لادین منشور کے تحت جس ’مذہبی جنون‘ کا خاتمہ کرنا چاہتی ہی، وہ در حقیقت ’مذہبی جنون‘ نہیں بلکہ مسلمانوں کی اپنے نبی کریمؐ سے عقیدت و محبت کا ’جنون‘ ہی، اور پیپلز پارٹی خواہ لاکھ جتن کرلے ،یہ’ جنون کبھی نہ ختم ہوگا اور ہ مٹے گا۔ ہر مسلمان کے دل میں اپنے محبوب نبی ؐ کے لیے مرتے دم تک یہ جوش و ولولہ قائم و دائم رہے گا۔
سلمان تاثیر کے قتل کے خلاف ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اگر سلمان تاثیر نے توہینِ رسالت کے جرم کا ارتکاب کیا بھی تھا تو ناموسِ رسالت کے دعویداروں کو اس کے خلاف عدالتی کارروائی کرنی چاہیئے تھی نہ یہ کہ کوئی بھی منچلا اٹھے اور اسلام میں  چونکہ ہر انسانی جان کو انتھائی محترم قراردیا گیا ہے ، ایسی محترم جنس کا جب دل چاہے یونہی صفایا کردے تو یہ عمل خود اسلام جیسے امن پسند مذہب کی تعلیمات کے خلاف ہوگا۔  یہ تو قانون کی حکمرانی نہیں ہوئی،بلکہ یہ ایک وحشیانہ فعل ہو۱اور جنگل کے قانون کی پیروی ہوئی۔ اس طرح کے افعال گویاامن وآشتی و جمہوریت کے منافی اور مذہبی انتھاء پسندی اور دہشت گردی کے فروغ کے علامات ہیں جنھیں کچلنا حکومت کے فرائض میں شامل ہی۔
سیکولر مسلمانوں اور غیرمسلموں دونوں ہی کی طرف سے یہی ایک بڑی دلیل دی جاتی ہی۔ اگر یہ اعتراض کرنے والا مسلمان ہے تو ہم یہ کہیں گے اگر تم مسلمان ہو تو اس کا جواب قران و سنت اور رسول ؐ کے عمل سے معلوم کرو اور دیکھو کہ اس کے علمبردا ر علماء کرام قران و سنّت کی روشنی میں اس کا کیا جواب دیتے ہیں؟
یہ صحیح ہے کہ قانون کی حکمرانی مہذب دنیا کا ایک معروف طریقِ کار ہی۔ہم تو یہ کہتے ہیں کہ بے لاگ عدل و انصاف،
مساوات ، رواداری، حُرّیت اور آزادی پر مبنی قانون سے دنیا کو کسی نے آشنا کیا ہے تو وہ اسلام ہی ہی۔ دنیا میں امن وامان اور حقیقی جمہوریت کے قیام کا دعویدار اسلام کیسے اس طرح کے  بظاہرایک وحشیانہ فعل کی اجازت دے سکتا ہی؟اگر اسلام نے بالفرض کسی وجہ یا مصلحت کی بنیاد پر ایسی کوئی اجازت دے دی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلا م کی نظر میں یہ ایک وحشیانہ فعل نہیں رہا بلکہ امن و امان  اور جمہوریت و مساوات  کے قیام کاگویا ایک ذریعہ ہی۔کیا واقعی ایسا ہے یا نہیں؟
مجرّد قتل تو دنیا کے سارے مذاہب اور معاشروں میں ایک جرم ہی سمجھا جاتا ہے ۔لیکن کسی انسان کی جان لینے کا عمل کسی عدالتی فیصلہ کے نتیجہ میں ہو۱ ہو تو اس طرح کسی انسان کو موت کے گھاٹ اتارنے کے عمل کو عدل و انصاف کا تقاضا سمجھا جاتا ہے  ۔جب دو ملکوں میںکوئی جنگ ہوتی ہے تو دونوں ملک کے لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ ہم حق پر ہیں اور حالتِ جنگ میں دوسرے ملکوں کے سپاہیوں کی جان لے کر ہم گویا اپنے ملک کی خدمت کررہے ہیں۔ اس طرح مجرد قتل کے بارے میں کوئی رائے نہیں دی جاسکتی جب تک کہ اس کا پسِ منظر معلوم نہ ہو کہ کسی انسانی جان کو کیوں موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہی؟یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ کن حالات میں انسان کی جان لینا صحیح ہے اور کن حا لات میں غلط؟
کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے اس کا فیصلہ کون کرے ؟ مرنے والے کی ماں ، باپ،بہن، بھائی اور برادری سے پوچھیں گے تو وہ بس یہی جواب دیں گے کہ ہمارا آدمی تو بے گناہ ہی مارا گیا ہے ، اس نے تو کچھ کیا ہی نہیں تھا۔  فریقِ مخالف نے بغیر کسی معقول وجہ کے ہمارے آدمی کو مارا ہے اور ایک وحشیانہ فعل کا مرتکب ہوا ہی۔جتنے منہہ اتنی باتیں ۔حق اور انصاف  اور سچائی کا فیصلہ کرنے کا معیار ایک مسلمان معاشرہ میں قران اور سنّتِ رسول ہی ہوسکتی ہی۔
جمہوریت میں تو یہ ہے کہ منتخبہ نمائندوں کی اکثریت جو فیصلہ دے دے وہی حق ہے اور ملک کے سارے باشندوں پر اس کا احترام کرنا لازمی سمجھا جاتا ہی۔جو اس کا احترام نہ کرے وہ ملکی قانون کی خلاف ورزی کے جرم میں پکڑا جاتا ہے اور اسی قانون کے مطابق سزاء پاتا ہے ۔اگر اس کے جرم کی سزاملکی قانون بنانے والوں نے  اپنے اکثریتی ووٹوں سے موت قرار دی ہے تو ایسے خلاف ورزی کرنے والے کو پھانسی دی جاتی ہے کہ یہی پھانسی حق و انصاف کا تقاضہ سمجھی جاتی ہی۔ لیکن اسلام میں ایسا نہیں ہے ۔ ہمارے قانون کے بنیادی ماخذ اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات ہیں۔ منتخب نمائندوں کی سو فیصد اکثریت کوئی قانون پاس کرے لیکن اللہ کے رسولؐ اس کو منظور نہ کریں تو وہ کسی اسلامی ملک کا قانون نہیں بنے گا، سو صد اکثریت کے مقابلہ میں صرف ایک شخصیت کا مقام ہمارے نظام میں اتنا بلند و برتر ہے کہ ا س کی ایک بات پر ملکی قانون تشکیل پائے گا اور جس معاملہ میں وہ شخصیت یہ کہہ دے کہ میری فلاں بات کی خلاف ورزی کرنے والے کی سزا موت ہے تو اس ایک شخصیت کے  بتائے ہوئے اصول پر خلاف ورزی کرنے والے کو قتل کردیا جائے گا۔
یہی وہ وجہ ہے کہ ہمارے قوانینِ جرائم میں اہانتِ رسول ہی سب سے بڑا جرم ہے جس کی فوری سزا ’قتل‘ ہی۔ ہر ملک میں اس کے قانون کی خلاف ورزی کرنے والا فوراً پکڑا جاتا ہے اور مستوجبِ سزا بن جاتا ہی۔ ہمارے قانون کا ماخذ ہی چونکہ
رسولؐ کی ذاتِ گرامی ہے ، جو بھی اس ماخذِ قانون ہی کی خرمت اورعزّت کو داغدار کرے وہی سب سے بڑا مجرم اور واجب القتل قرار پائے گا۔اگر ہمارا ماخذِ قانون ہی بے وقعت ہوجائے تو ہماری سوسائٹی جنگل کے قانون سے بھی بدتر ہوجائے گی ۔ کیونکہ اس صورت میں ’لاقانونیت‘ ہی ہمارا ’قانون‘ بنے گی۔ اگر ماخذِ قانون ہی اپنی مستحکم جگہ پر نہ ہو تو ہمارے اخلاق و کردار یا کسبی قا نون کے لیے کوئی بنیاد ہی نہیں رہے گی اور ہم گویا جنگلوں میں جانوروں کی طرح لاقانونیت پر گذارہ کررہے ہوں گی۔ دنیا میں نہ ہم خود امن و شانتی سے گذارہ کرسکیں گے اور نہ ہی کسی  کے لیے عدل و انصاف یا مساوات و حریت یا جمہوریت اور حقوقِ انسانی کے کوئی معیارات قائم کرسکیں گی۔
ہر ملک میں پولیس اور عدالتوں کا نظام اسی لیے ہے کہ اس ملک کے قانون کا احترام بزورِ قوت کروایا جائی۔ ہمارے قانون کی بنیاد ہی ایک انتھائی محترم‘ ربِّ کائنات کی طرف سے مقرر کردہ قانون ساز شخصیت ہی۔ ہم قانون کا احترام کروانے کا حق اسی طرح رکھتے ہیں جیسے کوئی بھی دنیا کا ملک رکھتا ہی۔قانون کا احترام اسی وقت ممکن ہے جبکہ ہم پہلے اس واحد قانون ساز شخصیت کے احترام کو قائم رکھیں ، جس کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ ہمارے لیے قانون کو درجہ رکھتا ہی۔
سورہ انفال کی ایک آیت ہے جس کا مفہوم اور لبِّ لباب یہ ہے کہ اس چیز کی طرف آؤ جس کی طرف اللہ اور اس کے رسولؐ تم کو بلارہے ہیں۔ اسی میں تمہاری ’حیات‘ ہی۔ اسی میں تمہاری ’زندگی‘ ہی۔اب اگر اللہ کے رسولؐ ہمیں بتارہے ہیں کہ فلاں بات پر تم کسی انسان کو انفرادی طور پر قتل کرو تو وہی ہمارے لیے قانون ہی۔ اگر اللہ کے رسولؐ ہمیں کہتے ہیں کہ تمھیں فلاں معاملہ میں قانون کو ہاتھ میں لینے کا حق ہے اور ایسے آدمی کو تم مجھے بتائے بغیر قتل کر سکتے ہو تو ہمارا فرض بن جاتا ہے کہ ہم ایسے کسی معاملہ بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر ایسے آدمی کو قتل کریں۔ قانون کو ہاتھ میں لینے کو حق ہمیں ہے یا نہیں اور ہے تو کس معاملہ میں ہے اور کس معاملہ میں نہیں ہی،اس کا فیصلہ کرنے والے بھی ہمارے لیے اللہ کے رسولؐ ہی ہوسکتے ہیں ، نہ کہ انسانوں کے بنائے ہوئے کوئی قانون یا طور طریق۔ہمارے نبیؐ کے دیئے ہوے کسی حق کے بارے میں آدمی یہ بحث تو کرسکتا ہے کہ واقعی ہمارے نبی ؐ نے ایسی کوئی ہدایت کی ہے یا نہیں لیکن کسی بھی  طرح اگر یہ ثابت ہوجائے کہ اس معاملہ ہمارے نبی ؐ نے قانون اپنے ہاتھ میں لے کر قتل کرنے کا حکم دیا ہے تو یہی ہمارے لیے  ایسا ہرحکم واجب التّعمیل قانون بن جاتا ہی۔ اور اسی میں ہماری  ’حیات‘ ہے ۔اسی میں ہماری ’زندگی‘ ہی۔ اسی میں ہمارے معاشرہ کی بقاء ہی۔ اسی سے ہمارے معاشرہ سے فتنہ و فساد مٹے گا۔ اسی سے ہمارے ملک میں امن و امان اور آشتی کی ہوائیں لہرائیں گی۔ یہی کچھ عدل و انصاف کا تقاضہ ہی۔
انہی باتوں کو ہم اگر کسی دوسرے نظام، کسی دوسری تہذیب، کسی دوسرے معیارِ اخلاق و قانون، کسی دوسرے معاشرے کے اقدار، کسی دوسری سوسائٹی کے معیارِ خیر وشر ، یا مغربی تہذیب کے ’خوب‘ و ’ناخوب‘ کے پیمانوں سے ناپیں گے تو اپنے آپ کو ایک مہذب اور اخلاق و کردار کے اونچے انسان سمجھنے کے بجائے دوسروں کے معیارات اور پیمانوں کے حساب سی
’وحشی‘،مذہبی انتھاء پسندی کے حامل  یا ’دہشت گرد ‘ یا قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر من مانی کرنے والے ،جنگل کے قانون کی پیروی کرنے والے اور وہ سب کچھ نظر آئیں گے جو مغربی ممالک کے اخبارات ہمارے خلاف لکھتے رہتے ہیں۔(جاری  ہی)
۔

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.