ناصر ناکاگاوا کا کالم

ناصرناکاگاوا

تحریر و تبصرہ۔ناصر ناکاگاوا
اردونیٹ جاپان ۳۱ جنوری ۱۱۰۲ئ؁
جاپان کی میٹرو پولیٹین پولیس ڈپارٹمنٹ کی خارج زدہ خفیہ فائلوں میں کیا ہی؟؟۔۔ ناصر ناکاگاوا
جاپان کی پولیس کی طرف سے خارج زدہ فائلوں میںجاپان میں مقیم سینکڑوں غیر ملکی اور پاکستانی بھی شامل ہیں جن کے بارے میں ایک ایک تفصیل بمعہ تصویر شائع کی گئی ہی
جاپانی پولیس کے محکمۂ انسدادِ دہشتگردی کے نظر میں مذہب اسلام دہشتگردی کے مترادف ہے یا اسے دشمن کی نظر سے دیکھا جاتا ہی
جاپان بھر میں قائم تمام مساجد، اسلامی اداری، تنظیمیں اور سیاسی پارٹیوں کے عہدیداران ، حلال فوڈز کی دکانیں اور مسلم ممالک کے باشندوں کے زیرِ نگرانی چلنے والے ریستوران کے بارے میں بھی مکمل معلومات فراہم کی گئیں ہیں
دنیا کے کسی بھی ملک کی پولیس کا کام ہی کسی کو خصوصاََ غیر ملکیوں کو شک کی نظر سے دیکھنا ہوتا ہی، لہٰذا جاپانی پولیس پر ان معلومات کی بناء پر برا بھلاکہنا یا ان سے دشمنی پالنا مناسب نہیں ہے
جاپان میں مقیم ہمارے نام نہاد رہنما، صحافی اور کندھے پر کیمرہ لٹکانے والے رپورٹر جو اپنے آپ کو محبِ وطن اور پکا مسلم ظاہر کرتے ہیں انہی لوگوں نے یہاں کی مقامی پولیس سے اپنے ضمیر گروی رکھ کر ایک ایک ہم وطن کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں
اگر جاپانی پولیس اسلام کو دشمن قرار دیتی ہے تو دوسری طرف جاپانی عوام نے کبھی بھی کوئی ایسا تاثر نہیں دیاکہ وہ مذہب اسلام یا اسکے ماننے والے مسلمانوں کو اپنا دشمن تصور کرتے ہیں
وکی لیکس کے واقعہ سے چند روز قبل ہی جاپان کی میٹرو پولیٹین پولیس ڈپارٹمنٹ کی خفیہ فائلیں جو گزشتہ کئی سالوں سے انسدادِ دہشتگردی کے سلسلے میں جمع کی گئی خفیہ معلومات پر مبنی تھیں، محکمے کے کسی آفیسر کی غلطی یا دانستہ طور پر وکی لیکس کی طرح خارج ہو کر منظرِ عام پر آئی تھیں۔کئی دنوں تک متعلقہ محکمے کی طرف سے اس فاش غلطی کی کوئی پروا نہ کی گئی ، نہ ہی اس خارج زدہ فائیلوں کے تصدیق ہی گئی اور نہ ہی ان کی تردیدکی گئی کہ آیا وہ فائلیں پولیس کے محکمے سے تعلق رکھتی ہیں یا نہیں۔ ان فائلوں کے منظرِ عام پر آجانے کے بعد جاپان کے ایک معروف پبلشر نے تمام فائلوں کی ایک کتاب مرتب کی اور مارکیٹ میں فروخت ہونے لگی ، دیکھتے ہی دیکھتے پہلے ایڈیشن کی ہزاروں کتابیں فروخت ہو ئیں تو جاپان میں مقیم حساس اداری، پولیس اور متعلقہ لوگوں میں سراسیمگی پھیل گئی، فوری طور پر حکومتِ جاپان کی جانب سے اس کتاب پر پابندی عائد کردی گئی اور بقیہ کتابیں دکانوں سے اٹھالی گئیں۔لیکن یہ کتابیں جن کے ہاتھ لگیں اور اس میں جو کچھ ظاہر کیا گیا ہے وہ نہایت ہی قابلِ افسوس اور تکلیف دہ ہی۔ اس میں ان تمام مسلم ممالک کے لوگوں کے مکمل کوائف اور انکی سرگرمیوں کی تفصیلات درج ہیں جسکی وجہ سے یہاں مقیم ان غیر ملکی خصوصاََ مسلمان اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں اور حیران ہیں کہ انکی اتنی تفصیلی معلومات پولیس کے پاس کیسے پہنچ گئیں۔؟جن دنوں یہ افواہ پھیلی کہ جاپان کی میٹرو پولیٹین پولیس ڈپارٹمنٹ کی خفیہ فائلیں خارج ہو چکی ہیں انہی دنوں امریکہ میںبھی وکی لیکس کا شوشہ چھوڑا گیااور اس طرح جاپانی پولیس کا واقعہ پسِ منظر میں چلا گیا۔جاپان کی پولیس کی طرف سے خارج زدہ فائلوں میںجاپان میں مقیم سینکڑوں غیر ملکی اور پاکستانی بھی شامل ہیں جن کے بارے میں ایک ایک تفصیل بمعہ تصویر شائع کی گئی ہے ۔ جن غیر ملکیوں کے بارے میں تفصیلات شائع کی گئی ہیں ان میں وہ غیر ملکی اور پاکستانی بھی شامل ہیں جنھوں نے کسی بھی صورت میں جاپانی پولیس سے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر تعاون کیا یا وہ لوگ جو پولیس کی نظر میں مشکوک ہیں یا انکی سرگرمیاں مشکوک سمجھی جاتی ہیں۔
گزشتہ دنوں جاپان کے معروف آن لائین نیوز نیٹ پاک جاپان نیوز پر خفیہ معلومات کی فائل کا عکس بھی شائع کیا گیا تھا جسکی جاپانی
سرخیوں کا اگر اردو میں ترجمہ کیا جائے تو واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جاپانی پولیس کے محکمۂ انسدادِ دہشتگردی کے نظر میں مذہب اسلام دہشتگردی کے مترادف ہے یا اسے دشمن کی نظر سے دیکھا جاتا ہی۔ایک جگہ لکھا گیا ہے کہ جاپان میں قائم کئی مساجد میں آنے والے نمازیوں کا تعاقب کیا جاتا ہے کہ وہ کون ہے ، کہاں سے آتا ہے اور جاپان میں کب سے ہے اور اسکی مصروفیات کیا ہیں ، شادی شدہ ہے یا غیر شادی شدہ وغیرہ وغیرہ، اس کے علاوہ کئی مسلم ممالک کے سفارت خانے اور انکے عملے کی بارے میں تفصیلات کا بھی ذکر ہی۔اس کی
علاوہ جاپان بھر میں قائم تمام مساجد، اسلامی اداری، تنظیمیں اور سیاسی پارٹیوں کے عہدیداران ، حلال فوڈز کی دکانیں اور مسلم ممالک کے باشندوں کے زیرِ نگرانی چلنے والے ریستوران کے بارے میں بھی مکمل معلومات فراہم کی گئیں ہیں۔ دنیا کے کسی بھی ملک کی پولیس کا کام ہی کسی کو خصوصاََ غیر ملکیوں کو شک کی نظر سے دیکھنا ہوتا ہی، لہٰذا جاپانی پولیس پر ان معلومات کی بناء پر برا بھلاکہنا یا ان سے دشمنی پالنا مناسب نہیں ہی۔بلکہ جاپان میں مقیم ہمارے نام نہاد رہنما، صحافی اور کندھے پر کیمرہ لٹکانے والے رپورٹر جو اپنے آپ کو محبِ وطن اور پکا مسلم ظاہر کرتے ہیں انہی لوگوں نے یہاں کی مقامی پولیس سے اپنے ضمیر گروی رکھ کر ایک ایک ہم وطن کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں۔
ہمیں جاپانی پولیس کو الزام دینے کی بجائے مذکورہ ضمیر فروشوں کی مذمت کرنی چاہئے ۔اگر جاپانی پولیس اسلام کو دشمن قرار دیتی ہے تو دوسری
طرف جاپانی عوام نے کبھی بھی کوئی ایسا تاثر نہیں دیاکہ وہ مذہب اسلام یا اسکے ماننے والے مسلمانوں کو اپنا دشمن تصور کرتے ہیں، جاپان بھر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ زیادہ ترمساجد جاپانی بازاروں یا گلی محلے میں ہی قائم ہیں مگرشاذو نادر ہی کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا ہو۔بلکہ ہمیں تو ان ضمیر فروشوں کا بھی شکر گزار ہونا چاہئے کہ انھوں نے جاپان کی پولیس کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اپنے ہی بھائیوں کے بارے میںمعلومات فراہم کیں ، کیونکہ انکی اس مہربانی سے کسی کے بارے میں بھی مکمل معلومات ہونے کے باوجود آج تک جاپان سے کوئی بھی مسلمان دہشتگردی کے الزام میں گرفتار نہیں ہوسکا ہی، کیونکہ جس طرح جاپانی عوام ہم مسلمانوں سے محبت کرتی ہے اسی طرح تمام مسلمان بھی جاپانی عوام اور جاپان سے حدِ درجہ محبت کرتے ہیں اور جہاں ایسی محبتوں کی مثالیں ہوں تو وہاں دہشتگرد بھی امن پسند ہو جاتے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ زیادہ تر غیر ملکی اور ہم وطن جاپان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں اور اپنے ملک میں قوانین کی پابندی کریں یا نہ کریں مگر جاپان میں ضرور کرتے ہیں

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.