وطن سے پہلے وطن کی خوشبو۔۔پاکستانی قومی ایئر لائین پی آئی ای۔۔ناصر ناکاگاوا

nasir-2010

ناصر ناکاگاوا

تحریر۔ناصر ناکاگاوا

میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ان میں ۰۵ فیصد لوگوں کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ انکے سفر کرنے سے ملک کو زرِمبادلہ حاصل ہو یا ان کی وجہ سے ملک میں خوشحالی و ترقی ہوبلکہ وہ صرف اپنے مطلب کے لئے مجبوراََ قومی ایئرلائین میں سفر کرتے ہیں
جب ہم جاپان میں ہوتے ہیں تو کسی بنک، پوسٹ آفس، سرکاری یا غیر سرکاری اداروں میں کسی کام کے لئے جائیں تو بڑی خاموشی اور صبر و تحمل سے اپنی باری آنے کا انتظار کرتے ہیں۔لیکن جونہی ہمارا اپنے ملکی بنک، سفارتخانہ یا قومی ایئرلائین سے واسطہ پڑتا ہے تو ہم پر تھوڑی دیر کے لئے پاکستانیت کا دورہ پڑ جاتا ہے اور یہ نظم و ضبط اور اخلاقیات یوں غائب ہوجاتی ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ
در اصل ہمارے وہ پاکستانی جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ صرف اور صرف پاکستان کو زرِ مبادلہ بھیجنے کی خاطر ہی پی آئی اے سے سفر کرتے ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں ان کا سفر کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ وطن جانے سے پہلے وطن کی خوشبو یہیں سے سونگھنا شروع کردیں
جب موصوف اپنی نشست پر براجمان ہوتے ہیں تو انکی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایسے زاویئے سے بیٹھیں کہ نشست کی ہتھی پر انکی کہنی ہو اور مونچھوں کو تائو دیتے ہوئے ہر آنے جانے والی فضائی میزبان کو اوپر سے نیچے تک آسانی سے دیکھتے رہیں اور جب وہ آرہی ہو تو آنکھیں بند کرلیں اور جارہی ہو تو آنکھیں کھول سکیں اور دور تک دیکھ سکیں
جاپان جیسے ملک کے خوبصورت ماحول کو چھوڑ کر جب ہم اپنے خوف صورت ماحول میں داخل ہوتے ہیں تو طبیعت زیادہ خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے لہٰذا ہمارے ۰۵ فیصد پاکستانی اس ماحول سے آشنا ہونے کے لئے مجبوراََ قومی ایئرلائین کا انتخاب کرتے ہیں
وطن سے پہلے وطن کی خوشبو ۔۔۔ہمارے پاکستانی بھائی اکثر یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ یار ہمیں اپنی قومی ایئرلائین میں ہی سفر کرنا چاہئے تاکہ ہمارے ملک کو زیادہ سے زیادہ زرِ مبادلہ حاصل ہو سکے جسے اپنے ملک کی ترقی و خوشحالی پر خرچ کرکے ہم وطنوں کا معیارِزندگی بلند کیا جاسکی، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پوری دنیا میں مقیم پاکستانی اپنے ملک آنے جانے کے لئے پی آئی اے میں ہی سفر کرتے ہیں مگر اس کے باوجود ہمارے ملک کے زرِ مبادلہ میں اضافہ نہیں ہوتا اور نہ ہی لوگوں کا معیارِ زندگی بلند ہو ا ہی۔اکثر پاکستانی جو دیارِ غیر میں مقیم ہیں وہ یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ ہمیں اپنی ایئرلائین استعمال کرنی چاہئی۔۔۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ان میں ۰۵ فیصد لوگوں کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ انکے سفر کرنے سے ملک کو زرِمبادلہ حاصل ہو یا ان کی وجہ سے ملک میں خوشحالی و ترقی ہوبلکہ وہ صرف اپنے مطلب کے لئے مجبوراََ قومی ایئرلائین میں سفر کرتے ہیں(مجبوریوں کا ذکر بعد میں کریں گی) اور انکی خواہش ہوتی ہے وہ جب بھی پاکستان جائیں تو انکا سفر پی آئی اے کے ذریعے ہی طے ہو، گو کہ ہر پاکستانی پی آئی اے کے زمینی و فضائی عملے ، انکے اخلاق کی گراوٹ اور ٹکٹ کی گرانی سے شاکی و نالاں نظر آتا ہے مگر محبِ وطن پاکستانی ان تمام حالات سے واقف ہوتے ہوئے بھی پی آئی اے سے سفر کرنے کو ترجیع دیتے ہیں۔خصوصاََ وہ پاکستانی جن میں میں خود بھی شامل ہوں جو شاذو نادر ہی پاکستان جاتے ہیں یا سال دو سال میں ایک دفعہ ہی زحمت کرتے ہیں اور وہ بھی قلیل مدت ہفتہ یا دس دن کے لئے ۔جب یہ پاکستانی ایئرپورٹ پر پہنچتے ہیں تو ان کا واسطہ پی آئی اے کے زمینی عملے سے پڑتا ہے جو ان سے مقررہ وزن سے  چند کلو زیادہ ہوجانے پر اضافی رقم مانگتا ہے بلکہ بقول ان کے عملہ ان سے انتہائی بدتمیزی سی
اور غیر اخلاقی رویہ اختیار کرتا ہے حالانکہ دیکھا گیا ہے کہ دوسری ایئر لائین میں سفر کرنے والوں کو مقررہ وزن سے ایک کلو زائد وزن کی بھی اجازت نہیں ہوتی اور جب تک وہ اپنا وزن کم نہیں کرتے انھیں بورڈنگ کار ڈ والی قطار سے باہر کردیا جاتا ہے یا پھر وہ فوری طور پر زائد وزن کی ادایئگی کرکے بورڈنگ کارڈ بنوانے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں اور اس ایئرلائین کے عملے سے کوئی گلہ شکوہ نہیں کرتے ، اس مثال سی
ظاہر ہوتا ہے گلہ شکوہ بھی صرف اپنوں سے ہی کیا جاتا ہی۔بالکل اسی طرح جب ہم جاپان میں ہوتے ہیں تو کسی بنک، پوسٹ آفس، سرکاری یا غیر سرکاری اداروں میں کسی کام کے لئے جائیں تو بڑی خاموشی اور صبر و تحمل سے اپنی باری آنے کا انتظار کرتے ہیں۔لیکن جونہی
ہمارا اپنے ملکی بنک، سفارتخانہ یا قومی ایئرلائین سے واسطہ پڑتا ہے تو ہم پر تھوڑی دیر کے لئے پاکستانیت کا دورہ پڑ جاتا ہے اور یہ نظم و ضبط اور اخلاقیات یوں غائب ہوجاتی ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
در اصل ہمارے وہ پاکستانی جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ صرف اور صرف پاکستان کو زرِ مبادلہ بھیجنے کی خاطر ہی پی آئی اے سے سفر کرتے ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں ان کا سفر کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ وطن جانے سے پہلے وطن کی خوشبو یہیں سے سونگھنا شروع کردیں ،کیونکہ یہ پاکستانی جاپان میں اپنے آپ کو بڑا تیس مار خان سمجھتے ہیں اور انکی خواہش ہوتی ہے وہ جونہی ایئرپورٹ پر پہنچیں تو وہاں موجود عملہ انکی اس
طرح آئو بھگت کرے کہ آئو جی۔۔ملک صاحب،چوہدری صاحب، بٹ صاحب ، عثمانی صاحب، صدیقی صاحب، شاہ صاحب، میاں صاحب وغیرہ وغیرہ اور انکا سامان ترازو پر رکھے بغیر جہاز میں بھیج دیا جائے اور انکا دستی سامان جو انکے دونوں دستوں کی پہنچ سے باہر ہورہا ہوتا ہے کو انکے ہاتھوں سے لیکر جہاز کے دروازے تک چھوڑنے جائیں اور دروازے پر فضائی میزبانوں میں مرد نہیں بلکہ خاتون ہو اور انھیں خوش آمدید کہے اور انھیں انکی نشست تک رہنمائی کرنے کے لئے انکے ساتھ بھی جائی۔اور جب موصوف اپنی نشست پر براجمان ہوتے ہیں تو انکی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایسے زاویئے سے بیٹھیں کہ نشست کی ہتھی پر انکی کہنی ہو اور مونچھوں کو تائو دیتے ہوئے ہر آنے جانے والی فضائی میزبان کو اوپر سے نیچے تک آسانی سے دیکھتے رہیں اور جب وہ آرہی ہو تو آنکھیں بند کرلیں اور جارہی ہو تو آنکھیں کھول سکیں اور دور تک دیکھ سکیں۔لیکن پی آئی ائے ایئرلائین میں مذکورہ صاحبان کو ایسی کوئی سہلوت فراہم نہیںکی جاتی، حالانکہ پی آئی اے اگر چاہے تو ایسی سہولیات باآسانی دے سکتی ہے مگر ایسا کرنے سے انکا وہ سلوگن٭ وطن سے پہلے وطن کی خوشبو٭ کا مقصد فوت ہو جائے گا۔انکی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہم وطنوں کوجو عرصہ ٔ درآز سے دیارِغیر میں مقیم ہوتے ہیں انھیں پاکستانی ماحول کا عادی بنانے کا عمل ایئرپورٹ کے زمینی عملے سے ہی شروع کرسکیں تاکہ انھیں پاکستان پہنچنے پر جاپان کا خوبصورت ماحول، سرکاری و غیر سرکاری اداروں کا نظم و ضبط ، شاپنگ سینٹرز کی خوبصورتیاں اور بشمولِ سیلز گرلز جاپان کی گھریلو یا بین الاقوامی ایئرلائین میں حسین و جمیل اور نازک اندام فضائی خواتین میزبان جہاں مردوں کا نام و نشان نہیں ہوتا یاد نہ آسکے جو انکے لئے اچانک تکلیف کا باعث بنی۔ کیونکہ جاپان جیسے ملک کے خوبصورت ماحول کو چھوڑ کر جب ہم اپنے خوف صورت ماحول میں داخل ہوتے ہیں تو طبیعت زیادہ خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے لہٰذا ہمارے ۰۵ فیصد پاکستانی اس ماحول سے آشنا ہونے کے لئے مجبوراََ قومی ایئرلائین کا انتخاب کرتے ہیں کہ کسی بھی ماحول کی یادیں ذہن سے کم کرنے کے لئے بارہ سے اٹھارہ گھنٹے کافی ہوتے ہیں، اور جن کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے وہ کبھی پی آئی اے سے گلہ شکوہ نہیں کرتے بلکہ مشکور ہوتے ہیں اور جب یہ لوگ پاکستان کے کسی ایئرپورٹ پر اترتے ہیں تو جب تک ان کے اذہان سے جاپان کا ماحول ماند پڑ چکا ہوتا ہے اور وہ آسانی سے اپنے دورے کو خوشگوار بنا کر جاپان لوٹتے ہیں تو زیادہ پریشان نہیں لگتی۔کیونکہ قومی ایئرلائین نے انھیں صرف چند گھنٹوں میں ہی وطن کے ماحول سے آشنا کروادیا ہوتا ہی۔یہی وجہ ہے کہ پی آئی اے کا نعرہ ٭ وطن سے پہلے وطن کی خوشبو٭ کسی حدتک درست نظر آتا ہے

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.