میری پیاری امی جان ۔کچھ یادیں کچھ باتیں ۔والدہ کی ساتویں برسی کے موقعہ پر خصوصی تحریر۔۔۔۔زہرہ عمران
امی جان بتایا کرتی تھیں کہ ماں بننے کے بعد سے انہیں یاد نہیں کہ کبھی وہ گہری نیند سوئی ہوں ۔ہر لمحہ ہر آن اولاد کی کوئی نہ کوئی فکر رہتی تھی
مجھے یاد ہے جس دن ناصر بھائی جاپان گئے ہیں انکے جانے کے بعد کئی راتوں تک تو بے چین رہیں اوررات کو لاشعوری طور پر انکے کمرے میں آ ٓآ کر انہیں آوازیں دیتی تھیں اور پوچھا کرتی تھیں ِناصر! بیٹا دودھ پی لیا ہے ؟،،
بچپن میں رات کے کسی پہرمیری آنکھ کھل جاتی اور ڈر لگتا تومیں امی جان کے بستر کے نزدیک جا کر انہیں ہلکی سی آواز لگاتی ،امی ! آپ جاگ رہی ہیں نا؟تو امی فوراََ جواب دیتیں، ہاں بیٹا! میں جاگ رہی ہوں۔۔ ڈرو نہیں۔۔۔۔ تم سوجائو۔۔۔۔ میں جاگ رہی ہوں ۔ ،،میں امی جان سے پوچھا کرتی تھی آپ سوتی کب ہیں ؟میں رات کو جب بھی آپ کو آواز دیتی ہوں آپ جاگ رہی ہوتی ہیں ،،
میں امی جان سے پوچھا کرتی تھی ، یہ آپ کا بستر اتنا نرم کیوں ہی؟آپ کا بستر سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈا کیوں لگتا ہی؟،، اس پر وہ ہنس کر جواب دیتیں ،ہر ماں کا بستر اسکی اولاد کو نرم ہی لگتا ہے ،،
ہماری بھی یہی عادت بن چکی تھی کہ تھوڑی دیر کے لیے بھی گھر سے باہر جاتے توامی جان کو بتا کر جاتے جس کے جواب میں وہ اپنی مخصوص دعا ضرور دیتیں اچھا اللہ کے سپرد اللہ کی
امان ،،ہم جب تک انکا یہ مخصوص جملہ اپنے کانوں سے نہ سن لیتے ہم گھر سے باہر نہیں جاتے تھی
انکے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد جب میں خود اس (ماں) کے مرتبہ پر فائز ہوئی تو امی جان کی کہی ہوئی ایک ایک بات اور ایک ایک جذبہ سمجھ آگیا ۔کبھی کبھی تو دل میں یہ خواہش اتنی شدت سے جاگتی ہے کہ امی جان ایک دفعہ دوبارہ مجھے مل جائیں تو میں انہیں بتائوں کہ ہاں ماں کے جذبات واقعی ہی ایسے ہوتے ہیں جیسے آپ کے ہوتے تھے
تحریر۔زہرہ عمران
!آج ہماری پیاری امی جان کو ہم سے بچھڑے پورے سات برس ہوگئے انا للہ و ان الیہ راجعون۔لیکن انکی جدائی کا صدمہ آج بھی تازہ ہے ۔اس سات سال کے عرصہ میں کوئی لمحہ بھی تو ایسا نہیں ہے کہ جب انکا خیال دل سے نکلتا ہو ۔میں کہیں بھی مصروف ہوں لیکن ذہن ا ور لا شعور میں انکی باتیں انکی یادیں ہر وقت ساتھ ساتھ رہتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ انکی بخشش فرمائے ۔ابھی ابھی تمام بہن بھائیوں نے ایک دوسرے کو فون کر کے انکے لیے دعائے مغفرت کی ہے ۔حالانکہ ناصر بھائی کے بقول ماں ہماری دعائوں کی محتاج ہر گز نہیں ہے کہ ماں کی ہستی تو پہلے سے ہی جنتی ہوتی ہے ۔
انکی کون کون سی باتیں یاد کروں ۔یوں تو دنیا میں ماں کی ہستی ایسی واحد ہستی ہے جسکا کوئی ثانی نہیں ۔ماں کے لیے بڑے بڑے دانشوروں،فلسفیوں، مفکروں،ادیبوں اور شاعروں نے کیا کچھ نہیں لکھا ۔ماں کے لیے لکھے گئے اور کہے گئے تمام الفاظ و خیالات کو یکجا بھی کر لیا جائے تو بھی میں یہی کہوں گی کہ میری ماں اس سے بھی سوا کچھ تھی ۔کتنی عظیم ہوتی ہیں مائیں ۔کبھی سوچتی ہوں ہماری ماں کی مثال ایک ایسے باغبان کی سی تھی کہ جس نے اپنے خون سے ہم دس پودوں ( اپنی اولاد ) کی پرورش کی ۔ہاں اپنے خون سے ہی تو پرورش کی تھی تبھی تو جب تک یہ تمام ننھے پودے درخت بنے تو تب تک یہ ہستی اتنی نا تواں اور کمزو ہو گئی کہ اپنی زندگی کا بوجھ نہ سہار سکی۔
امی جان بتایا کرتی تھیں کہ ماں بننے کے بعد سے انہیں یاد نہیں کہ کبھی وہ گہری نیند سوئی ہوں ۔ہر لمحہ ہر آن اولاد کی کوئی نہ کوئی فکر رہتی تھی ۔کبھی کسی کے آرام کا خیال تو کبھی کسی کے کھانے پینے کی فکر ،کسی بچے کو سکول داخل کرانا ہے تو کسی کے اگلی کلاس میں جانے کا انتظارہی۔گھر اور بچوں کے تمام کام خود انجام دیتیں،ہر بچہ کی ضروریات کا پورا خیال رکھتیں،بچوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل پر فکر مند ہو جاتیں ۔یہاں تک کہ انکی تمام اولاد جوان بھی ہوگئی تو بھی انہیں اپنی اولاد کے کسی نہ کسی مسئلہ کی فکر رہتی تھی۔بچوں کو زیادہ خطرناک کھیل نہ کھیلنے دیتیں ،انہیں دیر تک گھر سے باہر نہ رہنے دیتیں،گھر سے جانے سے پہلے پوری تحقیق کرتیں کہ کہاں جا رہے ہو اور کب آنا ہے ۔ہماری بھی یہی عادت بن چکی تھی کہ تھوڑی دیر کے لیے بھی گھر سے باہر جاتے توامی جان کو بتا کر جاتے جس کے جواب میں وہ اپنی مخصوص دعا ضرور دیتیں اچھا اللہ کے سپرد اللہ کی امان ،،ہم جب تک انکا یہ مخصوص جملہ اپنے کانوں سے نہ سن لیتے ہم گھر سے باہر نہیں جاتے تھے ۔انکے وجود سے گھر میں اتنی رونق تھی وہ سوبھی رہی ہوتیں تو تو گھر میں انکے ہونے کا احساس ہوتا۔لیکن جب گھر نہ ہوتیں تو گھر ایسا سونا سونا اور ویران لگتا کہ گھر سے وحشت ہونے لگتی ۔
بچپن میں رات کے کسی پہرمیری آنکھ کھل جاتی اور ڈر لگتا تومیں امی جان کے بستر کے نزدیک جا کر انہیں ہلکی سی آواز لگاتی ،امی ! آپ جاگ رہی ہیں نا؟تو امی فوراََ جواب دیتیں، ہاں بیٹا! میں جاگ رہی ہوں۔۔ ڈرو نہیں۔۔۔۔ تم سوجائو۔۔۔۔ میں جاگ رہی ہوں ۔ ،،میں امی جان سے پوچھا کرتی تھی آپ سوتی کب ہیں ؟میں رات کو جب بھی آپ کو آواز دیتی ہوں آپ جاگ رہی ہوتی ہیں ،،
ناصر بھائی جب پاکستان ہوتے تھے ،رات کو جب تک ڈیوٹی سے گھر نہ آجاتے تھے سوتی نہ تھیں ۔مجھے یاد ہے جس دن ناصر بھائی جاپان گئے ہیں انکے جانے کے بعد کئی راتوں تک تو بے چین رہیں اوررات کو لاشعوری طور پر انکے کمرے میں آ ٓآ کر انہیں آوازیں دیتی تھیں اور پوچھا کرتی تھیں ِناصر! بیٹا دودھ پی لیا ہے ؟،،بچے جب تک چھوٹے تھے تو انہیں انکے آرام اور کھانے پینے کا خیال رہتا ،کچھ بڑے ہوتے تو انکی تعلیم کی فکر لاحق ہو جاتی ۔تعلیم کے بعد ان کے اچھے روزگار اوراچھے رشتوں کی فکر کرنا شروع کر دیتیں ۔
ہائے ! کون کونسی باتیں یاد کریں ۔انکی باتیں یاد کرنے پر آئوں تو پوری کتاب بھی کم ہو ۔
لباس اور خوارک کے معاملہ میں انکی اپنی ہی ایک مخصوص پسند و نا پسند تھی ۔اس معاملہ میں انہیں کوئی بھی مجبور نہیں کر سکتا تھا ۔جب سے میں نے ہوش سنبھالا ،انہیں کبھی نماز قضا کرتے نہیں دیکھا ۔وہ نمازیں بر وقت پڑھا کرتی تھیں ۔
جب ہم سب بہن بھائی مل کر امی جان کے پاس بیٹھتے ہر ایک کی کوشش ہوتی کہ وہ امی کے نزدیک ترین والی جگہ پر بیٹھی۔یہاں تک کہ اس بات پر ہماری آپس میں تکرار بھی ہو جاتی تھی۔میں امی جان سے پوچھا کرتی تھی ، یہ آپ کا بستر اتنا نرم کیوں ہی؟آپ کا بستر سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈا کیوں لگتا ہی؟،، اس پر وہ ہنس کر جواب دیتیں ،ہر ماں کا بستر اسکی اولاد کو نرم ہی لگتا ہے ،،
امی جان کی بہت سی باتیں ایسی تھیں کہ جنہیں میں انکی زبانی سن لیا کرتی تھی لیکن ان باتوں پر کبھی گہرائی سے سوچنے کی توفیق نہ ہوتی تھی ۔مثال کے طور پر جب وہ اولاد اور ماں کے رشتہ کی اہمیت بتایا کرتی تھیں تو ماں کے جذبات کے بار ے میں علم ہونے کے باوجود بھی اس جذبہ کو کبھی سنجیدگی سے نہ لیتی تھی ۔البتہ اولاد کی حیثیت سے اپنے جذبات سے خوب واقف تھی ۔لیکن انکے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد جب میں خود اس (ماں) کے مرتبہ پر فائز ہوئی تو امی جان کی کہی ہوئی ایک ایک بات اور ایک ایک جذبہ سمجھ آگیا ۔کبھی کبھی تو دل میں یہ خواہش اتنی شدت سے جاگتی ہے کہ امی جان ایک دفعہ دوبارہ مجھے مل جائیں تو میں انہیں بتائوں کہ ہاں ماں کے جذبات واقعی ہی ایسے ہوتے ہیں جیسے آپ کے ہوتے تھے ۔
بہت بہادر خاتون تھیں ۔ہمارے بچپن میں جتنا دل انکا مضبوط تھا آخر ی عمر میں انکا دل اتنا ہی کمزور ہو چکا تھا ۔وہ خود کہا کرتیں تھیں کہ اب وہ ہمت اور طاقت نہیں رہی۔آخر عمر میں اتنے کمزور دل کی مالک ہو گئیں تھیں کہ تنہائی سے گھبراتی تھیں اور بالکل اکیلے رہنے سے بہت ڈرتی تھیں ۔تنہائی،خاموشی اور اندھیرے سے بہت خوفزدہ ہوتی تھیں ۔آخری عمر میں انکی تمام عادتیں اور مزاج بچوں جیسا ہو گیا تھا ۔
تمام اولاد کی شادی بیاہ کے فرائض سے فارغ ہونے کے بعد بھی کبھی بے فکری کی نیند نہیں سوتی تھیں ۔ہلکی سی آہٹ پر جاگ جایا کرتی تھیں ۔میں ان سے کہا کرتی تھی اب تو آپ کو کوئی فکر نہیں ہے نہ کسی کے کھانے کی ،نہ کسی کے آرام کی ،نہ کسی کی تعلیم ،نوکری اور شادی کی اب آپ کیوں نہیں سوتیں گہری نیند؟،،جواب دیتی تھیں بس جب نیند گہری آتی تھی تو فکریں سونے نہیں دیتیں اب فکریں تو نہیں ہیں لیکن نیند نہیں آتی اب تو قبر میں ہی گہری نیند آئے گی ۔
سات سال قبل آج ہی کے د ن جب وہ ہاسپٹل کے آئی سی یو وارڈ میںگہری بے ہوشی میں تھیںاور ڈاکٹرز نے انکی حالت سیریس قرار دے دی تھی تو میں انکے بسترکے نزدیک بیٹھی انکا چہرہ غور سے تک رہی تھی ۔میں ایک لمحہ کے لیے بھی انکے چہرے سے نظریں ہٹا نہیں پا رہی تھی ۔جب اذان ہوتی تو میں سوچتی کہ میری امی نے تو کبھی نماز قضا نہیں کی تھی یہ انہیں کیا ہو گیا کہ اذان کے وقت بھی جاگ نہیں رہی ہیں ۔آخر کار بائیس گھنٹے بے ہوشی میں گزارنے کے بعد رات کے پچھلے پہر یعنی تہجد کے وقت میںنے دیکھا کہ انکی سانسیں اکھڑنے لگی ہیں۔میں سمجھی کہ میری امی اب جاگنے لگی ہیں کیونکہ وہ تو ہرروز اسی وقت جاگ جایا کرتی ہیں۔لیکن وہ جاگنے نہیںلگیں تھیں بلکہ چند بے ربط سانسیں لے کر وہ تو گہری نیند سو چکی تھیں۔انا للہ وان علیہ راجعون
جب بھی میں انکی قبر پر جاتی ہوں تو یہی سوچتی ہوں آہ! کتنی گہری نیند سو رہی ہیںمیری امی
1 comment for “ناصر ناکاگاوا کی والدہ محترمہ کی ساتویں برسی کے موقع پر انکی ہمشیرہ زہرہ عمران کی رلا دینے والی تحریر”