مالی سال ۲۰۱۱ میں بچے پر تشدد کا کیس/ دباؤ کے پیچھے عوامی آگاہی کارفرما ہے

اخبار :
بچوں کے مددگار مراکز نے سال 2010 میں پورے ملک میں 55152 کیسوں کو نمٹایا ہے، جو کہ بدھ کو جاری ہونے والی ایک وسط مدتی رپورٹ کے مطابق پچھلے سال سے 10941 زیادہ ہے۔
صحت، محنت اور بہبود کے وزیر کی طرف سے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کیسوں میں تیزی کی وجہ “عوام کی بچوں سے زیادتی سے متعلق کیسوں میں بڑھی ہوئی آگاہی ہے جس نے پڑوسیوں اور دوسرے متعلقہ افراد کو زیادہ ایسے واقعات رپورٹ کرنے پر مجبور کیا”۔ سال 2010 کی تعداد میں میاگی اور فوکوشیما کے علاقوں اور سیندائی کے کیس شامل نہیں ہیں، چونکہ مشرقی جاپان کے عظیم زلزلے کی وجہ سے ڈیٹا اکٹھا نہیں کیا جاسکا تھا۔
پچھلے سال ان دو علاقوں اور شہر میں 1150 کیس رپورٹ کیے گئے تھے۔ اس تعداد کو نکال دیں تو قومی تعداد میں پچھلے سال کی نسبت 28 فیصد کی بہتری آئی ہے۔
پچھلے سال بچوں سے زیادتی کے ایک پریشان کن سلسلے نے عوام کو سہمائے رکھا تھا، جس میں ایک لڑکی اور اس کے چھوٹے بھائی کا کیس بھی شامل تھا جو نِشی پارلر، اوساکا میں ایک اپارٹمنٹ میں بے یار و مددگار چھوڑ دئیے جانے کی وجہ سے بھوک سے موت کے منہ میں چلے گئے۔
وزارت نے کہا ہے کہ سال 2010 میں رپورٹ شدہ کیسوں کی تعداد میں اضافہ بظاہر بڑھی ہوئی عوامی آگاہی کا غماز ہے، جو ایسے کیسوں کی وجہ سے بڑھی ہے تاکہ بچوں کو زیادتی سے بچایا جاسکے۔
سال 2009 میں بچوں سے زیادتی کے 49 کیسوں میں سے 47 بچے جاں بحق ہوگئے تھے۔ یہ اعداد و شمار پچھلے سال 2008 سے بالترتیب 18 اور 17 کی تعداد میں کم تھے۔
تاہم مراکز کا 12 بدترین کیسوں میں کوئی نہ کوئی کردار موجود تھا، یعنی 25.5 فیصد میں، جیسا کہ مشورے کے سلسلے میں موصول ہونے والی درخواستیں۔ یہ فیصد 14.6 پوائنٹس کے حساب سے بڑھی۔
سات کیسوں میں مراکز کو یہ پتا تھا کہ بچے کو تنگ کیا جارہا ہے یا انھوں نے ممکنہ زیادتی یا تشدد کا سراغ لگا لیا تھا۔
ان انکشافات نے اس حقیقت پر پھر روشنی ڈالی ہے کہ بچوں کے مددگار مراکز کو بچوں سے زیادتی کے کیسوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ نمٹنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔
” بہت سے کیسوں میں انفرادی بچوں کے نگران مرکز کے اہلکاروں کو تھوڑے سے عرصے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹرانسفر کردیا گیا،” وزارت کے ایک اہلکار نے کہا۔ “یہ ان اہلکاروں کے لیے ایک مشکل بات ہے کہ وہ کیسوں کے سلسلے میں اپنے تجربے اور صلاحیتوں کو اچھی طرح استعمال کرسکیں۔ ہمیں مزید تجربہ کار اہلکاروں کی ضرورت ہے۔”
اپریل 2008 سے علاقائی حکومتوں کو یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ بچوں پر تشدد کرنے والے مشکوک والدین کو طلب کرسکیں۔ سال 2010 میں یہ اقدام 50 کیسوں میں اٹھایا گیا، جو پچھلے سال سے 2.4 گنا زیادہ ہے۔

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.