ڈی این اے کے ابہام کی وجہ سے خاتون کے قتل میں قید نیپالی شخص بری ہوسکتا ہے

اخبار : 1997میں ٹوکیو میں ایک خاتون کو لوٹنے اور قتل کرنے کے جرم میں قید ایک نیپالی آدمی کو مقتولہ کے جسم پر موجود مادے کے ڈی این اے ٹیسٹ کے مجرم کے ڈی این اے سے میچ نہ ہونے کی وجہ سے رہا کیا جاسکتا ہے۔
ٹوکیو کے اعلی استغاثہ جاتی دفتر کی درخواست پر کیے گئے ٹیسٹ نے ثابت کیا ہے کہ ٹوکیو الیکٹرک پاور کو (ٹیپکو) کی 39 سالہ ملازمہ یعنی مقتولہ کے جسم پر موجود جسمی مائع کا ڈی این اے  جائے وقوعہ پر موجود ایک اور شخص کے جسمانی بالوں کے ڈی این اے سے میچ کرگیا ہے۔
جرم کی وجہ سے قید شخص، گووندا پرشاد منہالی، عمر 44، سابقہ ریستوران ملازم، مقدمہ دوبارہ کھولنے کا کہہ رہا ہے۔
تاہم اگر مقدمہ دوبارہ کھل بھی جائے تو استغاثہ اس بات پر زور دے گا کہ منہالی پھر بھی قصوروار پایا جاتا ہے چونکہ ڈی این اے ٹیسٹ یہ ثابت نہیں کرتا کہ دوسرے آدمی، جس کا ڈی این اے مقتولہ کے جسم پر پایا گیا، نے اس کا قتل کیا ہے۔
تفتیش کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مقتولہ کے جسم پر موجود جسمی مائع پر کسی قسم کا ڈی این اے ٹیسٹ نہیں کروایا تھا۔
منہالی نے اپنی گرفتاری سے لے کر اپنے خلاف تمام الزامات کی صحت سے انکار کیا ہے، اور اس قتل سے اس کا تعلق ثابت کرنے والا کوئی ٹھوس ثبوت بھی موجود نہیں ہے۔
ٹوکیو کی ضلعی عدالت نے اسے بری کردیا تھا تاہم ٹوکیو ہائی کورٹ نے اس فیصلے کو الٹ دیا اور اسے تاعمر قید کی سزا سنائی۔
اکتوبر 2003 میں سپریم کورٹ نے بھی ہائی کورٹ کی سزا کو اس بناء پر برقرار رکھا کہ مقتولہ کی قتل گاہ بننے والے اپارٹمنٹ میں کسی دوسرے شخص کی آمد کا امکان انتہائی کمزور تھا، اور یہ کہ مِنالی کے پاس اپارٹمنٹ کی چابی تھی، اور یہ کہ اپارٹمنٹ کے بیت الخلاء میں موجود جسمی مائع اور کمرے میں موجود بال کے ایک ٹکڑے کا ڈی این اے اس کے ڈی این اے سے میچ کرگیا تھا۔
2005 میں منالی کے وکلاء صفائی نے ہائی کورٹ میں اپنے موکل کے مقدمے کی دوبارہ سماعت کے لیے درخواست دائر کی۔ اس وقت انھوں نے ایک ماہر کے خیال کو بنیاد بنایا تھا کہ منالی کا جسمی مائع اپارٹمنٹ میں وقوعہ سے 10 دن قبل چھوڑا گیا تھا، جسے اعلی عدالت نے نئے ثبوت کے طور پر ماننے سے انکار کردیا تھا۔
اس کے جواب میں ہائی کورٹ نے امسال جنوری میں حکم جاری کیا تھا کہ مقتولہ کے جسمی مائع پر ڈی این اے ٹیسٹ کیا جائے، اور اعلی استغاثہ کے دفتر کی درخواست پر ایک ماہر نے ڈی این اے کا تجزیہ کیا تھا۔
عدالتیں مقدمہ کی دوبارہ سماعت اس وقت کرتی ہیں جب یہ ثبوت مل جائے کہ مجرم قرار دیا جانے والا بے گناہ ہے۔
1975 میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ قصور وار شخص کا مقدمہ دوبارہ اس وقت کھولا جائے جب نئے ثبوتوں کی جامع جانچ پڑتال کرلی گئی ہو اور ثبوت الزام اور جرم کی حیثیت پر معقول سوالات اٹھا رہے ہوں۔
ایک الگ کیس میں، سئگایا توشی کازو، عمر 64، جو اشیکاگا کے توشیگی پریفکچر نامی شہر میں ایک 4 سالہ لڑکی کے قتل کے الزام میں تاعمر قید کی سزا کاٹ رہا تھا، کو 2009 میں رہا کردیا گیا تھا چونکہ جائے وقوعہ پر پایا جانے والا ڈی این اے اس کے ڈی این اے سے مطابقت پذیر نہیں تھا۔ اسے پچھلے سال مارچ میں مقدمے کی دوبارہ سماعت میں بری کیا گیا تھا۔

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.