اخبار : اتوار کو ختم ہونے والے ایشیا سیکیورٹی فورم کے اجلاس میں بھڑکتے معاملات جیسے جنوبی چین کے سمندر اور شمال کوریا پر کچھ پیش رفت ہوئی ہے، تاہم اس میں کوئی بریک تھرو نہیں ہوا جو پانسا ہی پلٹ دے، تجزیہ نگاروں نے کہا۔
ہفتے کا دن آسیان ریجنل فورم، جو آسیان کے 10 ممالک کے علاوہ مشرق بعید کے درجن بھر دوسرے ممالک پر مشتمل تھا، کے ہفتے بھر طویل اور تھکادینے والے سفارت کاری کے اجلاس کا بالی میں نکتہ عروج تھا۔
اس کی وجہ سے چین اور آسیان ممالک میں رہنما اصولوں کا ایک سمجھوتہ ہوا، جسے بنانے میں نو سال لگے ہیں، جس میں جنوبی چین کے متنازعہ سمندر کے بارے میں ایک ضابطہ اخلاق کے لیے پیش کی گئی تجاویز شامل کی گئی ہیں۔
پچھلے دوسالوں میں پہلی بار ان مذکرات نے شمالی اور جنوبی کوریا کے جوہری محکموں کے سربراہوں کو بھی مل بیٹھنے کا موقع فراہم کیا، جس میں شمالی کوریا کو اسلحے سے پاک کرنے کے چھ ملکی مذاکرات کی بحالی کی امید پیدا ہوئی۔
امریکی سیکرٹری برائے مملکت ہیلری کلنٹن نے اپنے چینی ہم منصب، یانگ جیچی، اور جاپان، جنوبی کوریا اور روس کے وزرائے خارجہ کے ساتھ اس میں شرکت کی۔
آسیان کے سیکرٹری جنرل سورِن پٹسوان نے کہا کہ نتائج اپنی زبان آپ ہیں، انھوں نے اس تاثر کو رد کردیا کہ علاقائی اتحاد صرف نشستند، گفتند، برخاستند کی تصویر ہے۔
جنوبی چینی سمندر کے رہنما اصول “عظیم اور تاریخی” سنگ میل تھے جنہوں نے یہ ثابت کردیا کہ “آسیان ریجنل فورم واقعی کام کرتا ہے”، انھوں نے کہا۔
یانگ نے بدھ کو ہونے والے معاہدے کو “بہت اہم” قرار دیا، انھوں نے مزید کہا کہ “پہلا قدم ہی ہزار میل لمبے سفر کی شروعات ہوتا ہے۔”
تاہم دوسرے لوگ اتنے متاثر نہیں تھے۔
کلنٹن نے چین کی رسمی انداز میں “تعریف” کی اور اپنے خدشات کا اظہار کیا کہ اس سمندر کے اطراف جنم لینے والا تناؤ علاقے کے امن کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
فلپائن کے سیکرٹری خارجہ البرٹ ڈی روساریو نے اشارہ کیا کہ چین کے تسلی بخش الفاظ کا مطلب کچھ بھی نہیں جبکہ وہ اپنے پرانے موقف، یعنی اس علاقے پر کسی اور ملک کا حق نہیں، سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔
“آپ دوطرفہ طور پر گفتگو کیسے جاری رکھ سکتے ہیں جب آپ کا فریق سامنے بیٹھتے ہی یہ کہہ دے کہ سب کچھ اس کی ملکیت ہے؟” انھوں نے کہا۔
آسیان کے ارکان برونائی، ملائیشیا، فلپائن اور ویتنام کے ساتھ ساتھ تائیوان بھی ممکنہ طور پر تیل و گیس سے مالا مال اس سمندر کے حصوں پر اپنا دعوائے ملکیت کرتے ہیں۔
بیجنگ کی رینمن یونیورسٹی کے شی ین ہونگ نے اے ایف پی کو بتایا کہ سٹریٹیجک نقطہ نظر سے بالی مذاکرات میں بہت کم حاصل ہوا ہے۔
“تاہم کلنٹن کی یانگ سے ملاقات، اور یانگ کی اپنے ویتنامی اور دوسرے ایشیائی ہم منصب وزیروں سے ملاقاتیں پچھلے کچھ ہفتوں میں بڑھنے والوں تناؤ کو کم کرنے میں مدد دیں گی،” انھوں نے اے ایف پی کو بتایا۔
“لیکن ہر پارٹی کے موقف میں اختلاف قائم رہے گا۔”
سابقہ آسیان چیف روڈولفو سیویرانو، جو سنگاپور میں آسیان سٹڈی سینٹر کے سربراہ ہیں، کے مطابق چین جنوبی چینی سمندر پر اپنا دعوی کرنے میں مزید جارح ہوتا جارہا تھا چونکہ اس کے پاس زیادہ بہتر ذرائع موجود تھے۔
“ان کے مفادات ہیں جن کا وہ تحفظ چاہتے ہیں۔ جب تک انھیں یہ یقین نہ دلادیا جائے کہ ان پر جنوب مشرق سے حملہ یا قبضہ نہیں کیا جائے گا، کسی بھی قسم کی رعایت دینا بہت مشکل ہوگا،” انھوں نے کہا۔
شمالی کوریا کے مسئلے پر امریکہ، جاپان، اور جنوبی کوریا نے سہ فریقی ملاقات کے بعد ایک مشترکہ بیان میں، یہاں بالی میں ہفتے کو، کہا کہ بین الکوریائی مذاکرات جاری رہنے چاہئیں۔
تاہم چھ فریقی مذاکرات اس وقت تک شروع نہیں ہونگے جب تک شمال اپنے اخلاص کو اقوام متحدہ کی قراردوں کے تحت عائد عالمی ذمہ داریاں پوری کرکے ثابت نہیں کرتا، بشمول اپنے یورینیم افزودگی کے پروگرام کی طرف “توجہ” کرنے کے۔
جنوبی کوریا کی ڈونگ گک یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر کیم یانگ ہیُون نے اے ایف پی کو بتایا کہ بالی میں شمال اور جنوب کی ملاقات “چھ فریقی مذاکرات کی جانب پہلا قدم” ہیں تاہم یورینیم کے معاملے پر قابو پانا مشکل ہوگا۔
“چھ فریقی مذاکرات کی راہ میں یہ معاملہ بہت سنجیدہ رکاوٹ ہے،” انھوں نے کہا۔
پچھلے چھ فریقی مذاکرات بھی دسمبر 2008 میں اسی بیان پر ختم ہوئے تھے۔ شمالی کوریا نے رسمی طور پر مذاکرات اپریل 2009 میں ترک کردئیے تھے۔، جس کا کارن امریکہ کے مخاصمانہ رویے کو قرار دیا گیا تھا، شمالی کوریا نے اس کے ایک ماہ بعد اپنا دوسرا جوہری تجربہ کیا تھا۔