زلزلے سے متاثرہ علاقوں سے گاڑیوں کی چوری اور اسمگلنگ اور کائی تائی والوں کا کردار

خاور کھوکھر

مارچ 11 کے عظیم جاپانی زلزلے کے بعد متاثرہ علاقے میں لٹیروں کی عدم موجودگی کو پوری دنیا نے تعجب کی نگاہ سے دیکھا تھا۔

لیکن اب چار ماہ سے زیادہ گزر جانے کے بعد، زلزلے اور سونامی سے تباہ حال شمال مشرقی جاپان میں ان الزامات کے تحت تفتیش شروع کی گئی ہے کہ کچھ بےایمان افراد متاثرہ گاڑیاں برآمد کرتے رہے ہیں، جن میں بلدیہ کے پارکنگ لاٹ سے چرائی جانے والی عارضی طور پر کھڑی کی گئی گاڑیاں بھی شامل ہیں۔
زلزلے سے متاثرہ میاگی کین کے ہیگاشی ماتسوشیما علاقے میں، جہاں اکثر گھر لہروں کی وجہ سے بہہ گئے تھے،
تین آدمی جن میں دو افغان بھی شامل تھے، کو ایک ٹرک کے ساتھ بہت سی گاڑیاں لے جاتے ہوئے اس جون کے آخر میں دیکھا گیا تھا۔
استفسار پر انھوں نے بتایا کہ کسی اور نے یہ کاریں ان کے مالکوں سے باہر بیچنے کے لیے خریدی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ کونسے ملک میں کاریں پہنچائی جائیں گی۔
اسی کین کے علاقے ایشی نوماکی میں آساہی شمبن کے ایک رپورٹر نے دو غیرجاپانیوں کو رہائشی علاقے میں پارک کی گئی دو کاریں ہٹاتے ہوئے پچھلے ماہ دیکھا۔ پڑوس میں رہنے والی ایک خاتون نے کہا کہ وہ اتنی خوفزدہ تھی کہ باہر بھی نہ جاسکی۔
اسی طرح کے واقعات سارے آفت زدہ علاقے سے رپورٹ کیے گئے ہیں۔ میاگی کین کے علاقے کیسینوما میں ایک سری لنکن کو امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا تھا، جب اس نے مبینہ طور پر کاریں چوری کرنے کی کوشش کی تھی۔
میاگی صوبے کی پولیس کے مطابق چوری کی جانے والی 100 کاروں کی چوری کی رپورٹ جنوری سے لکھوائی جاچکی ہے، جو پچھلے سال کی تعداد سے دوگنا زیادہ ہے۔ تاہم، پولیس کے مطابق، مالکان زلزلے کی وجہ سے درپیش دوسرے مسائل میں مبتلا ہیں اور وہ چوروں کو تلاش کروانے کے سلسلے میں کم دلچسپی لے رہے ہیں۔
لیکن پولیس نے کہا کہ پھر بھی یہ جرم ہے، اور ذمہ داروں کو ڈوھوندنے کے ساتھ ساتھ اسمگلنگ کے روٹس کا پتا لگانے کی بھی کوششیں کی گئی ہیں۔
ایک جاپانی استعمال شدہ کاروں کے ڈیلر کے مطابق، چوری شدہ کاروں کو دوسری جگہ لے جانے کا ایک عمومی طریقہ یہ ہے کہ ان کے شناختی نمبروں کو قانونی طور پر خریدی گئی کاروں کے شناختی نمبروں سے بدل دیا جائے۔
اسمگلر کاروں کو پرزوں میں بھی تقسیم کردیتے ہیں، جیسا کہ انجن، اور پھر انھیں بیرون ملک بھجوا دیتے ہیں،
ذرائع نے بتایا۔ کاروں کو برآمد کرنے کے لیے مالکان کو برآمدی کاغذات کسٹم والوں کے ہاں جمع کروانا ہوتے ہیں، تاہم یہ پرزوں کی برآمد کے لیے یہ ضروری نہیں ہے۔
جب پرزے منزل مقصود پر پہنچیں گے تو انھیں یہی پرزے استعمال کرتے ہوئے دوبارہ سے کار کی صورت میں بنا لیا جائے گا، ذرائع نے بتایا۔
گاڑیوں کو پرزوں میں بدلنے کے لیے ایک اجازت نامے کی ضرورت ہوتی ہے
جس کو کائی تائی کا اجازت نامہ کہتے ہیں
نیشنل پولیس ایجنسی نے جاپان میں 1400 ایسی کایی تائی دوکانوں کی شناخت کی ہے، جنہیں وہ جانتے ہیں، اور جہاں کاروں کو پرزوں میں توڑا جاتا ہے۔
پولیس نے ان کی تلاش پچھلے جون میں یہ شک پیدا ہونے پر شروع کی تھی کہ یہ چوری شدہ مال کی اسمگلنگ کے لیے بدل مرکز کے طور پر کام کرسکتے ہیں۔
35 سالہ برازیلی شخص جو کانتو کے علاقے میں، نقل و حمل کے ایک اہم روٹ پر واقع اور 3 میٹر اونچی اسٹیل کی دیواروں سے گھری ہوئی ایسی ہی ایک پرزوں میں بدلنے والی دوکان سے برآمد ہوا تھا، نے اعتراف کیا کہ اس نے کاریں پرزوں میں بدلی تھیں اور ان کے پرزے دوبئی کے ایک استعمال شدہ کاروں کے ڈیلر کو فروخت کیے تھے۔ اس نے کہا کہ اسے علم نہیں کہ کاریں چوری کی تھیں یا نہیں۔
اسی اثنا میں، جاپان کی استعمال شدہ کاروں کی مارکیٹ میں زلزلے سے متاثرہ کاریں بھی بڑی تعداد میں خرید و فروخت کی جارہی ہیں۔ بہت سی کاریں غیرملکی کمپنیوں کو بیچی گئی تھیں۔
آفت زدہ علاقوں میں زندہ بچ جانے والے اپنی کاروں کے ساتھ ایسے پیغامات چپکے دیکھ کر حیران رہ گئے جن میں لکھا تھا، “ہم آپ کو کار ہٹانے کی خدمات بغیر کسی معاوضے کے پیش کریں گے” اور “ہم ایک اوسط درجے کی کار 2000 ین (26 ڈالر) میں خریدتے ہیں”۔
جاپان میں یہ طریقہ کار سائیتاما کے ایک سود خور جاپانی کے پاکستانی کارندوں کا معروف طریقہ ہے
اشینوماکی کے ایک 40 سالہ کار ڈیلر، جس نے قریبًا 200 متاثرہ کاروں کو مفت پارکنگ کی سہولت مہیا کی ہے، نے بتایا کہ مالکوں کی اجازت کے ساتھ اس نے قریبًا 20 کاریں غیرملکی کار تاجروں کو 100000 سے 500000 ین فی کار کے حساب سے فروخت کی ہیں۔
روس، پاکستان اور بنگلہ دیشی کمپنیاں اس کے دفتر کا دورہ کرتی رہی ہیں، اس نے بتایا۔
اسی شہر میں واقعی ایک پاکستانی شخص کی کمپنی نے،کمپنی کے مالک کے مطابق، 20 متاثرہ کاریں دوبئی، افریقہ اور روس کو برآمد کی ہیں۔ آدمی نے کہا کہ چونکہ کاریں سمندری پانی سے بھری ہوئی تھیں، اس لیے اُسے انھیں دھلوانا پڑا۔ تاہم اس کے علاوہ کاریں منزل مقصود ممالک میں، جہاں لیبر سستی ہے، مناسب مرمت کے بعد اچھے داموں پر فروخت ہوجائیں گی۔
ٹیوٹا کی کاریں خصوصًا بہت مقبول ہیں، چونکہ اس کارساز ادارے کے ڈیلر پوری دنیا میں موجود ہیں، اور اس کے پرزے باآسانی تبدیل ہوسکتے ہیں۔
سونامی سے متاثرہ کاریں جو نئی 30 لاکھ ین میں پڑتیں، اب پچاس ہزار سے ایک لاکھ ین میں لی جاسکتی ہیں۔ اگرچہ نقل و حمل اور مرمت کے اخراجات کی صورت میں پانچ لاکھ ین لگ جاتے ہیں، تاہم یہ ایک ملین ین تک فروخت ہوجاتی ہیں جن سے دو سے تین لاکھ ین کا منافع مل جاتا ہے۔ یہ بہت اچھا کاروبار ہے، ایک تاجر نے کہا۔
مقامی استعمال شدہ کاروں کی منڈی میں متاثرہ کاروں کی آنلائن بولی بھی لگتی ہے۔ ایسی ہی ایک مقبول ویب سائٹ پر حال ہی میں 70 کے قریب یونٹ فروخت کے لیے موجود تھے، جن میں ٹیوٹا پرائیس کی قیمت پانچ لاکھ ین کے لگ بھگ تھی۔
جاپان یوزڈ موٹر وہیکل ایسوسی ایشن، جو 200 رکن کمپنیوں پر مشتمل ایک اتحاد ہے، کو ان کے معیار پر تحفظات ہیں، ایسوسی ایشن کے مینجنگ ڈائرکٹر شیوتا یوتاکا نے کہا۔ سونامی سے بھگی ہوئی کاریں زنگ سے باآسانی متاثر ہوسکتی ہیں، جس کی وجہ سے استعمال شدہ جاپانی کاروں پر گاہکوں کا اعتماد متزلزل ہوسکتا ہے۔
تاہم، چونکہ بھیگی ہوئی کاروں کی برآمد روکنے کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں، اس لیے ایسوسی ایشن کے پاس اس عمل کو روکنے کا کوئی راستہ بھی نہیں ہے، ۔

2 comments for “زلزلے سے متاثرہ علاقوں سے گاڑیوں کی چوری اور اسمگلنگ اور کائی تائی والوں کا کردار

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.