جاپان کی طرف سے شمالی کوریا کو نئے ممکنہ میزائل، چینی بحریہ کی بڑھتی سرگرمیوں پر وارننگ

شمالی کوریا نئے درمیانی مار کے ایک میزائل پر کام کررہا ہے جو امریکہ علاقے گوام تک مار کرسکتا ہے، جاپان کی وزارت دفاع نے اپنی سالانہ رپورٹ میں یہاں منگل کو بتایا۔  جاپان چینی بحریہ کی طرف سے اس کے ساحلوں کے گرد بڑھتی ہوئی بحری سرگرمیوں پر بھی تشویش کا شکار ہے، اور اپنے ساحلی دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے اقدامات کررہا ہے، رپورٹ نے بتایا۔  شمالی کوریائی میزائل جس کا نام مُسوڈان ہے، روس سے 1990 کے عشرے میں حاصل کی گئی ٹیکنالوجی پر مشتمل ہے، اور اسے متحرک پلیٹ فارم سے داغنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، وزارت نے اپنے 2011 کے وائٹ پیپر میں بتایا۔ منگل کی اس رپورٹ میں جاپان نے پہلی بار سرکاری طور پر میزائل کا نام لے کر اس کا حوالہ دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق میزائل کی ممکنہ مار 1500 سے 2000 میل (2500 سے 4000 کلومیٹر) ہوگی۔ گوام شمالی کوریا سے 2000 میل (3200 کلومیٹر) دور ہے۔ یہ فاصلہ کثیر المراحل ٹائپوڈونگ 2 میزائل کی مار سے کم ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ امریکہ کی مغربی ساحلی پٹی تک وار کرسکتا ہے۔ تاہم اس فاصلے کی وجہ سے یہ جاپان میں موجود پچاس ہزار امریکی فوجیوں اور گوام میں موجود مزید ہزاروں لوگوں کو اپنی ممکنہ رسائی میں لے سکتا ہے، رپورٹ نے بتایا۔ “شمالی کوریائی طرز حکومت کی پراسرار فطرت کے باعث اس کے فوجی ارادوں کے بارے میں کچھ بھی کہنا بہت مشکل ہے”، رپورٹ نے مزید اضافہ کیا، کہ شمالی کوریا کے متحرک اور زیرزمین میزائل مراکز اس طرح ڈیزائن کیے گئے ہیں کہ جلد انکشاف ممکن نہ ہوسکے۔ رپورٹ نے یہ نہیں بتایا کہ جاپان اس میزائل کے کب تک زیر استعمال آنے کی توقع کررہا ہے، یا یہ پہلے زیر استعمال ہے۔ ماہرین کو ایک عرصے سے شک تھا کہ شمالی کوریا نئے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل پر کام کررہا ہے۔ پچھلے اکتوبر میں ہونے والی شمالی کوریا کی فوجی پریڈ میں دکھائے جانے والے ایک میزائل کے بارے میں شک ہے کہ وہ مُسوڈان ہوسکتا ہے۔ چین کی نسبت ٹوکیو کی تشویش برقرار ہے، جو بحرالکاہل اور جاپان کے اطرافی پانیوں میں بحری مشقیں جاری رکھے ہوئے ہے، رپورٹ کے مطابق یہ ایک ایسی تشویش ہے جو ایک عرصے سے چین کی طرف سے ایسی معلومات کی فراہمی میں ناکامی کی وجہ سے بڑھی ہے، جن سے دنیا کو اندازہ ہوسکے کہ چینی فوجوں میں تیزی سے پیدا ہونے والی جدت پرامن دنیا کے لیے خطرہ نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق، جاپان خصوصاً چینی بحریہ کے بارے میں فکرمند ہے۔ “چین اپنی بحری سرگرمیوں کو بڑھانے کی منصوبہ بندی کررہا ہے، جس میں آپریشن اور عمومی تربیتی مشقیں جاپان کے گرداگرد پانیوں، بشمول مشرقی بحر چین، بحر الکاہل اور جنوبی بحر چین، میں سرانجام دی جائیں گی۔ اگرچہ رپورٹ نے خاص طور پر چین کی طرف اشارہ نہیں کیا، تاہم رپورٹ کا کہنا ہے کہ جاپان اپنے آبدوزوں کے بیڑے کو بہتر کرے گا جبکہ جنوب مغربی ساحلوں، جو تائیوان کے نزدیک ترین اور چینی بحریہ کی عمومی گزرگاہ ہیں، پر موجود فوجیوں اور ریڈار کی صلاحیتوں کو بھی مضبوط کرے گا۔

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.