از ایرک تالمج
تومیوکا کی خالی گلیوں میں بیلیں سرسراتی ہیں، اس کے اعلی ترین باغات اونچی گھاس اور جنگلی پھولوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ مری ہوئی گائیں وہیں احاطوں میں سڑتی ہیں جہاں انہیں جاتے وقت بھوکا مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔ مرغیاں چیچڑیوں اور کیڑے مکوڑوں سے تڑپتی ہیں، ہوا میں ناگوار سی بو ٹھہری ہوئی ہے۔
کبھی 16000 کی آبادی کی یہ بستی اب صرف ایک بندے کی آبادی پر مشتمل ہے۔
ایٹمی بجلی گھر سے نکلنے والی تابکاری سے زہرآلود، آدمیوں کے لیے داخلہ بند اس ایٹمی جزیرے میں چاولوں کا کسان ماتسومورا ناؤتو حکومتی احکامات کے باوجود چھوڑنے سے انکار کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ سرطان ہو جانے کے بارے میں خیالات اس کے ذہن میں آتے ہیں لیکن وہ اپنے مستقل ساتھی ایک مریل سے کتے آکی کے ساتھ ٹھہرنے کو ترجیح دیتا ہے۔
جاپان کے تباہ کن زلزلے و سونامی کے چھ ماہ بعد یہ 53 سالہ بوڑھا یقین رکھتا ہے کہ وہ شمال میں فوکوشیما ڈائچی اٹیمی بجلی گھر اور جنوب میں ایک اور بےڈھنگے ایٹمی پلانٹ کے مابین سینڈوچ بنی اس بھوت بستی کا اکلوتا رہائشی ہے۔
“اگر میں چھوڑ دوں اور چلا جاؤں، تو سب ختم ہو جائے گا،” اس نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا۔ “یہ میری ذمہ داری ہے کہ ٹھہروں۔ اور یہاں رہنا میرا حق بھی۔”
ماتسومورا ایک ایسے ملک میں مس فٹ لگتا ہے جہاں حکومت کی حکم عدولی انتہائی کم یاب اور سماجی ایکا ہر چیز سے زیادہ اہم ہے۔ پھر بھی ماتسومورا کی سول نافرمانی ایک لاکھ سے زائد “ایٹمی پناہ گزینوں” کو درپیش مشکلات کا چیخ چیخ کر اظہار کرتی ہے، جو 11 مارچ کی آفت کے بعد بےگھر ہوگئے تھے۔
پلانٹ کے گرد انخلائی علاقے قائم کرنے میں ٹوکیو بہت تیز تھا لیکن پناہ گزینوں کی بحالی کے معاملے میں اتنا ہی سست ثابت ہوا ہے۔ ایک سرکاری حکم انہیں فوکوشیما ڈائچی کے گرد آدھے درجن کے قریب بستیوں میں واقع اپنے گھروں میں واپس جانے سے روکتا ہے، جنہیں سونامی زدہ ایٹمی بجلی گھر سے تابکاری کے اخراج کے بعد ممنوعہ قرار دے دیا گیا تھا۔
“ہم پہلے ہی بھلا دئیے جا چکے ہیں،” ماتسومورا، ایک دبلے پتلے لیکن صاف ستھرے اور جسامت سے کسان دکھنے والے شخص نے کہا۔ “ملک کے بہترین دماغ آگے بڑھ چکے ہیں۔ وہ ہمارے بارے میں سوچنا نہیں چاہتے۔”
تومیوکا شہر کا ہال فوکوشیما صوبے کے ہی ایک محفوظ شہر میں منتقل کر دیا گیا ہے، جہاں اس شہر کے ہزاروں مکین عارضی پناہ گاہوں میں مقیم ہیں۔ ہزاروں مزید پورے ملک میں بکھرے ہوئے ہیں۔
قصبہ بذات خود پولیس کی رکاوٹوں کے پیچھے مہربند ہے، جو ممنوعی ایٹمی علاقے کے مرکزی علاقے کو چھپا لیتا ہے، ایسا علاقہ جو سرکاری طور پر اتنا خطرناک ہے کہ انسان وہاں نہیں رہ سکتے۔
تومیوکا میں ہر روز افسران بھیجے جاتے ہیں تاکہ چوروں اور قانون توڑنے والوں کو تلاش کیا جا سکے۔ قانون کے مطابق علاقے میں سے پکڑے جانے والے کسی فرد کو بھی قید اور جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔
لیکن حکام اکثر ماتسومورا سے صرف نظر کر جاتے ہیں، اگرچہ وہ کہتا ہے کہ پولیس نے چند بار اس سے منہ ماری کی ہے۔ اگر وہاں اور رہائشی ہیں، تو وہ سراغ سے بچے ہوئے ہیں۔
“کچھ لوگ پیچھے رہ گئے تھے، کچھ میرے ساتھ میرے گھر میں رہے،” اس نے کہا۔ “لیکن آخری بندہ بھی کچھ ہفتے پہلے چھوڑ گیا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اس کی بلیوں کا خیال رکھوں۔”
تومیوکا کے سرکاری اہلکار میدوریکاوا تومیا، جو قصبے کے رہائشی اور ماحولیاتی شعبے کے انچارج ہیں، نے کہا کہ آخری مکین کو اگست کے شروع میں نکل جانے کی ترغیب دی گئی تھی، اسی وقت جب ماتسومورا آخری پڑوسی کے چھوڑ جانے کا دعوی کرتا ہے۔ وہ ماتسومورا سے آگاہ نہیں تھا۔
بجلی اور پینے والے پانی کے بغیر، ماتسومورا پرانے جنریٹروں کے ایک جوڑے کو ہر رات چلاتا ہےا ور قریبی کنویں سے اپنا پانی حاصل کرتا ہے۔ وہ اکثر ڈبہ بند کھانے کھاتا ہے، یا مچھلی جو وہ قریبی دریا سے پکڑتا ہے۔ اس نے کہا کہ مہینے میں ایک یا دو بار وہ اپنے منی ٹرک میں ممنوعہ علاقے سے باہر ایک شہر میں جاتا ہے تاکہ رسد و گیس وغیرہ اکٹھی کر سکے۔
قصبے کے کتوں اور بلیوں بشمول بھیڑیا نما آکی کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اس نے اپنے اوپر لے لی ہے۔
“میں ٹوکیو دو ایک بار گیا ہوں تاکہ سیاستدانوں کو بتا سکوں کہ میں یہاں کیوں ہوں،” اس نے کہا۔ “میں انہیں بتاتا ہوں کہ گائیوں کو بھوکا مرنے کے لیے چھوڑا دینا انتہائی شرمناک تھا، اور کسی کے لیے آبائی قبروں کی دیکھ بھال کتنی ضروری ہے۔ وہ میری بات پر توجہ دیتے محسوس نہیں ہوتے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے یہاں نہیں ہونا چاہے شروع کرنے کے لیے۔”
ماتسومورا نے کہا کہ ایک بار اس نے چھوڑا تھا، لیکن بعد کے تجربات نے واپسی کی خواہش کو شدید کر دیا۔
“میں ایک عزیز کے گھر چلا گیا، یہ سوچ کر کہ وہاں رہوں گا،” اس نے کہا۔ “لیکن اس نے مجھے دروازے میں بھی داخل نہ ہونے دیا، وہ بہت ڈری ہوئی تھی کہ میں آلودہ ہوں۔ پھر میں بےگھروں ایک کے مرکز میں گیا، لیکن وہ بھرا ہوا تھا۔ یہ سب مجھے قائل کرنے کے لیے کافی تھا کہ گھر واپس آجاؤں۔”
سونامی کی آفت نے قریباً 21000 لوگوں کو ہلاک یا گمشدہ کر دیا، اور فوکوشیا ایٹمی بجلی گھر میں دھماکوں اور پگھلاؤ کی وجہ بنا۔ تب سے ماحول میں خارج ہونے والی تابکار سیزیم کی مقدار کا اندازہ 168 ہیروشیماؤں کے برابر لگایا گیا ہے، جو اسے چرنوبل کے بعد بدترین آفت بنا دیتا ہے۔
کوئی بھی، بشمول ماتسومورا، یہ نہیں کہتا کہ ممنوعہ علاقے کی پابندی مکمل اٹھا لی جائے۔ تابکاری اور سرطان اور دوسرے طبی مسائل میں موجود تعلق اچھی طرح ثابت شدہ ہے، اور ماہرین اتفاق کرتے ہیں کہ ایٹمی علاقہ پاک ہونے میں عشرے بھی لگ سکتے ہیں۔ کچھ چرنوبل کی مثال دیتے ہیں جو 25 سال کے بعد بھی اکثر انسانی زندگی سے خالی ہے۔
“چناچہ آلودگان عشروں، صدیوں اور ہزاریوں تک رہیں گے،” ٹموتھی موسیو نے کہا جو جامعہ ساؤتھ کیلی فورنیا کے بائیولوجسٹ ہیں اور انہوں نے ایک عشرے سے زیادہ چرنوبل کا مطالعہ کیا ہے، اور حال ہی میں فوکوشیما کے دورے سے لوٹے ہیں۔
اس کے باوجود مقامی حکام اس بات پر زیادہ سے زیادہ پریشان دکھائی دیتے ہیں کہ ایٹمی پھیلاؤ کو روکنے میں بہت کم کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔
بابا تاموتسو، جو تومیوکا کے قریب ایک جزوی انخلا شدہ شہر نامی کے مئیر ہیں، نے ایک انٹرویو میں کہا کہ شروع میں ٹوکیو کا یہ اقدام مناسب تھا کہ پلانٹ کے گرد اس کے مرکز سے چاروں طرف ایک ارضی حلقہ بنا دیا جائے۔ تاہم ان کا خیال ہے کہ اس وقت سے حاصل کیا گیا ڈیٹا انخلائی علاقوں کی کتربیونت کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے تاکہ آلودگی کی صحیح مقدار کی عکاسی ہو سکے۔
“ہم نے تابکاری کی مقدار ناپنے کے ایک نظام میں دسیوں لاکھ کی سرمایہ کاری کی ہے،” انہوں نے کہا۔ “لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہر چیز کا فیصلہ کرسی پر بیٹھے کسی فرد کی طرف سے ہو رہا ہے جو 500 ین والا کمپاس استعمال کر رہا ہے۔”
مزید برآں ایٹمی بجلی گھر چلانے والی ٹوکیو الیکٹرک اور حکومت کی طرف سے زر تلافی کی ادائیگی کے معاملے کا نوکرشاہی کی بھول بھلیوں میں پھنس جانا بھی بےگھروں کے غصۓ کو ہوا دے رہا ہے۔
بحران شروع ہونے سے پہلے تومیوکا میں اوسط سالانہ آمدن 35 لاکھ ین تھی۔
ماتسومورا نے کہا کہ اس نے زرتلافی کی مد میں دس لاکھ ین وصول کیے، جو اس رقم سے کہیں کم ہے جو وہ اپنے چاول اور دوسری مصنوعات بیچ کر کما لیتا۔ حادثے سے مالی طور پر ڈگمگاتی ہوئی ٹیپکو نے مزید زرتلافی دینے کا فیصلہ ایٹمی بجلی گھر کے مستحکم ہو جانے تک پس پشت ڈال دیا ہے۔ پہلے سے ادا شدہ پیسے بالآخر منظور ہونے والی رقم میں سے منہا کر لیے جائیں گے۔
سرکاری اہلکار کہتے ہیں کہ اگر فوکوشیما کے ری ایکٹر اس سال کے آخر تک مستحکم بندش تک لائے جا سکے تو کچھ پابندیاں اٹھا لی جائیں گی۔
اس کے پار کا مستقبل محض ایک بھید ہے۔
“ہمارے سیورج سسٹم، سڑکوں اور انفراسٹرکچر کو تابکاری سے پاک کرنا اور اس کی تعمیر نو کے ساتھ ساتھ، بہت سے ایسے کام ہیں جو قصبے میں ہماری واپسی سے پہلے کیے جانے ضروری ہیں،” تومیوکا کے مئیر ایندو کاتسویا نے قصبے کی ویب سائٹ پر اپنی ایک حالیہ تحریر میں کہا۔ “لیکن ہمیں اپنی امید برقرار رکھنی چاہیے، اور دھیرے دھیرے آگے بڑھنا چاہیے۔”
ماتسومورا اب اپنے آپ کو جاپانی فوجیوں سے تشبیہ دیتا ہے جنہوں نے دوسری جنگ عظیم ختم ہونے کے عشروں بعد بھی ہتھیار نہیں ڈالے تھے۔
موسلا دھار بارش پڑنا شروع ہوئی تو وہ گھاس پھوس اگے ایک راستے سے اپنے چاول کے کھیت کی طرف چل پڑا۔ اس نے ایک پودے کو جڑوں سے اکھاڑا، اپنی انگلیوں میں گھمایا اور قریبی کھالے میں پھینک کر ایک ٹھنڈی سانس لی۔
اس سال کوئی نقد آور فصل نہیں ہو گی۔ یا شاید کبھی بھی نہیں ہوگی۔
“پہلے اکیلے ٹھہرنا عجیب تھا، لیکن اب میں اس کا حصہ ہوں،” اس نے کہا۔ “میں اس زندگی کا عادی ہوتا جا رہا ہوں۔”
1 comment for “تنہا شخص نے فوکوشیما کا ایٹمی علاقہ چھوڑنے سے انکار کر دیا”