صدر اوباما نے اپنے کلیدی اتحادی جاپان کی مدد جاری رکھنے کا عہد کیا تاکہ تباہ کن زلزلے و سونامی کے بعد بحالی ہو سکے لیکن ملک میں واقع امریکی فوجی اڈے کی منتقلی کے عرصہ دراز سے لٹکے معاملے کو آگے لے جانے پر بھی زور دیا۔
اوباما نے بدھ کو جاپان کے تازہ ترین وزیر اعظم یوشیکو نودا کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات کی۔ نودا نے ایک ماہ سے بھی کم عرصہ پہلے عہدہ سنبھالا ہے اور انہیں قدرتی آفات کے علاوہ جمود کا شکار معیشت اور پہاڑ جیسے بھاری قومی قرضے کے چیلینجز کا سامنا ہے۔ دونوں رہنما اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ملے ہیں۔
نودا پچھلے پانچ سالوں میں جاپان کے چھٹے وزیر اعظم ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ تعمیر نو ان کی اولین ترجیح ہے۔ 20,000 سے زیادہ لوگ شمال مشرقی جاپان میں آنے والے زلزلے و سونامی سے ہلاک یا لاپتہ ہو گئے تھے اور اس کی وجہ سے ایٹمی بجلی گھر پگھل گیا تھا۔ یہ چرنوبل کے بعد بدترین ایٹمی حادثہ تھا اور اس کی وجہ سے ایک لاکھ لوگوں کو تابکاری کے خدشات کے پیش نظر گھر چھوڑنے پڑے۔
دونوں اطراف نے جاپانی امریکی اتحاد کا خیر مقدم کیا، جسے نودا نے جاپان کی خارجہ پالیسی کا ستون قرار دیا۔ دونوں رہنماؤں نے کہا کہ دونوں ممالک کو معاشی نمو پر توجہ دینی چاہیے۔
لیکن انہوں نے تعلقات میں چبھتے ہوئے ایک معاملے پر بھی غور کیا — کہ 2006 کی حکومتوں کے منظور کردہ منصوبوں پر کیسے چلا جائے جن میں جنوبی جزیرے اوکیناوا پر امریکی میرین ہوائی اڈے کی منتقلی کی بات کی گئی تھی۔
جاپانی حکومت وہاں کے رہائشیوں کی درکار اجازت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے، اگرچہ اس منصوبے کا مقصد جزیرے پر موجود امریکی فوج کی تعداد میں کمی کرنا ہے، جو کہ جاپان میں موجود 47,000 امریکی فوجیوں میں سے نصف سے زائد کا میزبان ہے۔
“دونوں اطراف سمجھتی ہیں کہ ہم ایسے وقت پر پہنچ گئے ہیں جہاں ہمیں نتائج دیکھنے کی ضرورت ہے،” امریکی نائب سیکرٹری آف اسٹیٹ برائے مشرقی ایشیا اور پیسفک، کرٹ کیمبل نے ملاقات کے بعد ایک 45 منٹ طویل نیوز کانفرنس کو بتایا۔ “یہ صدر کی طرف سے بالکل واضح کر دیا گیا تھا”۔
“جاپان معاملہ سلجھانے کے لیے اپنی پوری کوشش کرے گا،” جاپانی ترجمان یوتاکا یوکوئی نے کہا، اور نوٹ کیا کہ اس میں اوکی ناوا کے رہنے والوں کو سمجھانا بھی شامل ہے۔
امریکی اڈے کی منتقلی کے منصوبوں کے آگے بڑھنے کے کوئی امکانات نہیں تھے، جس میں اوکی ناوا میں ایک نیا ہوائی اڈہ تعمیر کرنے اور آٹھ ہزار میرینز کو امریکہ کے پیسفک کے علاقے گوام میں منتقلی شامل ہے۔ جون میں دونوں اطراف نے اس کی تکمیل کی ڈیڈ لائن کو 2014 سے آگے بڑھا دیا تھا۔
کچھ بااثر امریکی قانون سازوں نے تنقید کی ہے کہ منصوبے ناقابل تکمیل اور انتہائی لاگت والے ہیں۔ جاپان، جسے زلزلے کے بعد تعمیر نو کی بھاری لاگت کا سامنا ہے، کو اڈے کی منتقلی کی کئی بلین ڈالر کی لاگت کا زیادہ تر بوجھ اٹھانا ہے۔
دونوں رہنماؤں نے نازک بین الاقوامی معاشی نمو کو تیز کرنے کا بھی وعدہ کیا۔
“دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتیں ہونے کے ناطے، ہمیں نمو کا فروغ جاری رکھنا ہو گا تاکہ اپنے لوگوں کو روزگار فراہم کر سکیں اور ان کا معیار زندگی بلند کر سکیں،” اوباما نے کہا۔
“ہمیں 21ویں صدی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اپنے اتحاد کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہو گا،” اوباما نے کہا۔
نودا نے ایک ترجمان کے توسط سے کہا کہ معیشت “ایک اور مندی کی طرف جا سکتی ہے، اور جاپان اور امریکہ کو معیشت کی نمو اور مالیاتی صورت حال کی بہتری کے لیے بیک وقت کام کرنا چاہیے”۔
یہ واضح نہیں کہ نودا کے ذہن میں جاپانی معیشت تھی یا عالمی معیشت، جس کے بارے میں خدشات ہیں کہ عالمی شرح نمو میں کمی کا نتیجہ مندی پر مندی کی شکل میں نہ نکل آئے۔