مقدمے کے دوران اوزاوا کا اپنے قصور سے برأت کا اظہار،ایک تجزیاتی کالم

ٹوکیو: جاپان کے سب سے بااثر شہنشاہ گروں میں سے ایک، حکمران جماعت کے سابق رہنما، اوزاوا کی منگل کو چندے کے اسکینڈل کے کیس میں پیشی ہوئی، جس نے پوری قوم کو گرفت میں لے رکھا ہے۔

اوزاوا نے اپنی سیاسی چندے کی انتظامی باڈی کے ہاتھوں پیسے کے بارے میں رپورٹس کی جعل سازی کے الزام سے انکار کیا، جبکہ اس کے تین سابقہ نائبین کو پچھلے ہفتے قصوروار ٹھہرایا گیا تھا، جس سے عوام کی

دلچسپی اس مقدمے میں اور بڑھ گئی۔

اس کی بجائے، نام نہاد “پس پردہ حکمران”، جو حکمران جماعت کے سب سے بڑے دھڑے کی سربراہی کرتا ہے، نے ٹوکیو ڈسٹرک کورٹ سے کہا کہ اپنی کاروائی روک دے اور استغاثہ پر الزام لگایا کہ وہ اسے

غیرمنصفانہ طور پر نشانہ بنا رہے ہیں۔

“یہ مقدمہ مکمل طور پر استغاثہ کے اکٹھے کیے گئے بیانات حلفی پر مشتمل ہے جو غیرقانونی تفتیش کے ذریعے حاصل کیے گئے ہیں۔ اس مقدمے کو فوراً ختم کر دیا جانا چاہیے،” اوزاوا نے شنوائی پر کہا۔ “عدالت کے

مقرر کردہ وکیل جو کہتے ہیں وہ سچ نہیں۔”

69 سالہ سیاستدان پر اپنے سابقہ نائبین کے ساتھ مل کر سازش کرنے کا الزام ہے کہ اس نے 400 ملین ین کی اپنی رقم کا حساب نہیں دیا، جو اس نے اپنی چندے کی تنظیم کو 2004 میں زمین کا ایک سودا

کرنے کے لیے ادھار دی تھی۔

فرد جرم کے مطابق انہوں نے خریداری کے لیے 350 ین ادا کیے، اور کاغذات میں سودے کا سال مختلف ظاہر کیا۔

اوزاوا کے نائبین نے کہا کہ غلطی مکمل طور پر تکنیکی معاملہ تھا۔

یہ جاپان میں اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ ہے، جب نظر ثانی کرنے والے عوام کے ایک عدالتی پینل نے مقدمہ عدم ثبوت کی بنا پر ختم کرنے کے  وکلائے استغاثہ کے فیصلے کو پلٹ دیا، جس کی وجہ سے عدالت کے

مقرر کردہ وکلا کو فرد جرم پیش کرنا پڑی۔

مقدمہ شروع ہونے پر، اوزاوا نے ایک بیان پڑھا جس میں وکلا پر تنقید کی گئی تھی، جنہوں نے 2009 میں اوزاوا کی زیر نگرانی جاپان ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے انتخابات میں حیرت انگیز کامیابی کے بعد

سے کیس کی تفتیش کی ہے۔

اپریل 2006 سے مئی 2009 تک پارٹی کے سربراہ کے طور پر خدمات سرانجام دینے کے بعد اوزاوا ڈی پی جے کی طرف سے  آندھی طوفان کی طرح انتخابات جیتنے سے چار ماہ پہلے عہدے سے مستعفی ہو گیا

تھا۔ یوکیو ہاتویاما وزیر اعظم بنے۔

پختہ کار پس پردہ فنکار، جس نے ایک سال پہلے سربراہی انتخابات میں ایک اور سابقہ وزیراعظم ناؤتو کان سے تھوڑے سے فرق سے شکست کھائی تھی، نے عدالت کو بتایا: “ایسی کوئی وجہ نہیں ہے کہ میں کسی

فوجداری الزام کا سامنا کروں”۔

جاپان کا مرکزی میڈیا عرصے سے اوزاوا کے طاقتور سیاسی اثر کا کا ناقد رہا ہے، جو کہ دولت اور مبینہ طور پر لالچ کے ذریعے حاصل کی گئی وفاداریوں پر مشتمل ہے، جنہوں نے اسے ڈی پی جے کا پس پردہ بادشاہ گر

بنا دیا۔

اس پر عرصہ دراز سے جاپانی پریس میں ناجائز سیاست کرنے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے، تاہم اسے کبھی بھی کسی جرم کا قصوروار ٹھہرایا نہیں گیا تھا۔

اوزاوا کے اثر کی علامت یہ ہے کہ جاپانی میڈیا اکثر حکمران جماعت کے سینئیر اراکین کی طاقت کا اندازہ اوزاوا کے ساتھ ان کے تعلقات کی مضبوطی دیکھ کر لگاتا ہے۔

اوزاوا نے پارٹی قیادت کے انتخابات میں  یوشیکو نودا کے خلاف بناری کائیدا کی سپورٹ کی تھی، تاہم نودا جیت گئے اور پانچ سالوں میں جاپان کے چھٹے وزیراعظم بن گئے۔

پانچ بڑے نیٹ ورکس، بشمول این ایچ کے، نے مقدمے کی براہ راست نشریات دکھائیں جہاں اوزاوا پتھریلا چہرہ لیے اور نیلا سوٹ پہنے نمودار ہوا۔

چونکہ کمرہ عدالت میں کیمروں پر پابندی ہے، اس لیے رپورٹر باری باری باہر آتے اور عمارت کے باہر کیمروں کے سامنے کھڑے ہو کر تفصیلات بتاتے، جبکہ سابقہ پراسیکیوٹر اور وکلا صورت حال کا تجزیہ پیش کر رہے

تھے۔

اوزاوا نے اس سے پہلے قدامت پرست لبرل ڈیموکریٹک پارٹی میں کلیدی عہدوں پر کام کیا ہے اور سابق وزیر اعظم کاکوئی تاناکا کے دائیں بازو کے طور پر کام کیا ہے، جسے رشوت لینے کا قصوروار پایا گیا اور وہ

اپنی اپیل کے دوران وفات پا گیا تھا۔

اوزاوا کے سپورٹران کا کہنا ہے کہ اس کو جاپان میں نوکر شاہی کے بڑھے ہوئے اثررسوخ کو کم کرنے اور سیاست کو لوگوں کی طرف واپس لانے کی مہم کی وجہ سے مخالفین غیرمنصانہ طور پر نشانہ بنا رہے ہیں۔

اس پر جنوری میں الزام عائد کیا گیا اور اگلے مہینے ڈی پی جے سے اس کی رکنیت معطل کر دی گئی۔

مقامی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق اس کا مقدمہ چلنے کےاوقات کار مارچ تک ہیں جبکہ فیصلہ اپریل میں سنایا جائے گا۔ اوزاوا سے توقع ہے کہ وہ جنوری میں گواہی دے گا۔

1 comment for “مقدمے کے دوران اوزاوا کا اپنے قصور سے برأت کا اظہار،ایک تجزیاتی کالم

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.