کالم جناب عبدالمجیدمغل
عَن سَعِیدِبنِ عُمَیرِ ِعَن عَمِّہٖ ؓ عَنہُ قَالَ
سُءِلَ رَسُولُ اللّٰہِؐ َیُّ الکَسبِ َطیَبُ ؟
قَالَ عَمَلُ الرَّجُلِ بِیَدِہٖ وَکُلُّ کَسبِ ِ مَبرُورِ ِ۔ (بیہقی،مستدرک حاکم)
حضرت سعید بن عمیرؓ اپنے چچا (حضرت براء ؓ) سے روایت کرتے ہیںکہ۔
رسول اللہ ؐ سے پوچھاگیا کہ کون سی کمائی زیادہ پاکیزہ ہے ؟
آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ کسی شخص کا اپنے ہاتھ سے کوئی کام کرنا اور ہروہ کمائی جو جائزطریقہ سے حاصل ہو۔
اسلام انسانی عظمت،عزت اور وقار کو بڑی اہمیت دیتا ہی۔ کوئی بھی ایسی حرکت اور طریقہ جس کو اختیار کرنے سے انسان کی عزت نفس پر حرف آئے اور وہ دیگر لوگوں کے سامنے بے وقعت ہوجائے ہرگز پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا ہی۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان کو زندہ رہنے کیلئے رزق چاہیے اور رزق کا حصول بغیر مال کے ممکن نہیں جبکہ مال کمانے کیلئے محنت ومشقت اختیار کرنا ضروری ہی۔ لیکن اگر انسان میں محنت کا داعیہ نہ ہو اور طبعاََ نکما، سست اور کاہل ہو تو پھر اپنا پیٹ بھرنے کیلئے کوئی آسان سا طریقہ ڈھونڈنے کی سوچتا ہے ۔ نتیجتہ بھکاری بن جاتا ہی۔ اوریوں دوسروں کا دست نگر بن کر رہ جاتا ہی۔ بھیک مانگنے سے چونکہ انسان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے لہذا اسلام بھیک ایسے طریقے سے حصول مال کی سخت مذمت کرتا ہے اورانسان کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ دوسروں کے رحم و کرم پر پڑا رہنے کے بجائے محنت و مشقت اٹھائے اور وقار کے ساتھ اپنی زندگی گزاری۔
مذکورہ ارشاد رسولؐ اسی پس منظر کی عکاسی کررہا ہے ۔ سوال کرنے والے کے ذہن میںاس حوالے سے یقینا کوئی الجھن تھی لیکن رسول اکرم ؐ نے بڑے ہی واضح انداز میں فرما دیا کہ اس کمائی سے بہتر کونسی کمائی ہو سکتی ہے جو اپنے ہاتھوں سے کام کرکے حاصل کی جائی۔ محنت سے حاصل کی گئی کمائی میں جو راحت، اطمینان قلب اور وقارہے وہ مانگے تانگے میں کہاںہی۔ دست سوال دراز کرنے سے انسان کی شخصیت مجروح ہوتی ہی، اس کا وقار خاک میں مل جاتا ہی۔ اور اس کے قلب وروح زخمی ہو جاتے ہیں۔ حلال ذرائع سے حاصل کیا گیا پاکیزہ رزق جب انسان کے حلق سے اترتا ہے تووہ اس کے پیٹ میں نور بن جاتا ہی۔ وہ انوار الہی کے نزول کا ذریعہ بن جاتا ہی۔ محنت و مشقت اور حلال و طیب طریقے سے کمایا گیا رزق کھانے سے انسان کو عبادت الہی میں جو لذت اور سرور حاصل ہوتا ہے اس کو بیان تو نہیں کیا جاسکتا ہے صرف محسوس ہی کیا جاسکتاہی۔
حضور رسالت مآبؐ معلم انسانیت اور رہبرانسانیت ہیں۔ آپ نے زندگی گزارنے کا جو طریقہ اور سلیقہ سکھایا اس میں کوئی مشکل فلسفہ نہیں بلکہ بڑاہی متوازن، آسان اور قابل عمل ہی۔ رسول اکرمؐ کے دعوت اسلام کا آغاز فرمانے اور اسلام کی تعلیمات عام ہونے سے قبل لوگوں کے طریقہ زندگی میں بڑی افراط و تفریط پائی جاتی تھی۔اگرکوئی مذہب کی جانب مائل تھا تو دنیا سے الگ تھلگ اور جو دنیا میں مگن ہوتا وہ مذہب سے بیگانگی کارویہ اختیار کیئے ہوئے ہوتا۔ اُس دور میںعیسائی راہبوں کے طرز زندگی کو مثالی سمجھا جاتا تھا جن کا نظریہ یہ تھا کہ خالق کائنات کو راضی کرنے کیلئے دنیا کی ہر آسائش اور لذت سے منہ موڑ لیا جائی۔ان کا فلسفہ یہ تھا کہ ترک دنیا کے بغیر رب کی خوشنودی کا حصول ممکن ہی نہیں حتٰی کہ ازدواجی زندگی کوبھی مذہبی تعلیمات کے خلاف تصور کیا جاتا تھا۔رسالت مآبؐ نے اس نامکمل تصورِ زندگی کو رد فرمایا۔ آپؐ نے جہاں ترک دنیا کی مذمت فرمائی وہاں زندگی کا مقصدمحض دنیوی آسائشات کا حصول بنا لینے کو بھی ناپسند فرمایا اور اعتدال کا راستہ بتایا۔ قرآن مجید میں خالق کائنات نے خود اپنے بندوں کو دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائیاں طلب کرنے کی ترغیب دی ہی۔
رَبَّنا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃََ وَّ فِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃََ وَّ قِنَا عَذَابَ النَّار ۔( اٰمین)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا جوشخص حلال کمائی اس لئے حاصل کرتا ہے کہ سوال کرنے سے بچی، اہل وعیال کی پرورش کیلئے کچھ حاصل کرے اور اپنے پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آسکے تو وہ قیامت کے دن اس طرح اٹھے گا کہ اس کا چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح چمک رہا ہو گا اور جو شخص کمائی محض کثرتِ مال اور دوسروں پر فخراوربڑائی ظاہرکرنے کیلئے کرتا ہے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوگا۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ رسالت مآب ؐ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسے عیال دار مومن کو پسند فرماتا ہے جو رزق کمانے میں محنت کرے مگر ایسے تندرست شخص کو ناپسندکرتا ہے جو بے کار رہی۔ نہ دنیا کا کوئی کام کرے اور نہ ہی آخرت کیلئے کچھ عمل کمائی۔
اسلام ایک انسانیت نواز دین ہے اور اس کی تعلیمات میں بڑی وسعت ہی۔فرد سے اہل وعیال، خاندان اور پھرمعاشرہ ہر ایک کی بھلائی پیشِ نظررہتی ہے ۔ ایک شخص اگراپنے اور اپنے اہل و عیال کی پرورش کیلئے محنت و مشقت اٹھاتا ہے تواس کے اس عمل کو بھی اللہ تعالیٰ کی رضا اورخوشنودی کا ذریعہ قراردیدیا ہے جوکہ درجہ ذیل قولِ رسولؐ سے پوری واضع ہورہا ہی۔
حضرت کعب بن عجرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اکرمؐ کے سامنے سے گزرا، نبی کریمؐ کے اصحاب ؓ نے اس کی صحت اور چستی پھُرتی دیکھی تو کہنے لگی۔ اللہ کے رسولؐ کاش یہ شخص اللہ کی راہ میں ہوتا (یعنی یہی تیزی اور انہماک عبادتِ الہی میں دکھاتا)۔ رسول اللہؐ نے فرمایا۔
“اگر یہ شخص اپنے چھوٹے بچوں کی خاطر کمانے نکلا ہے تو یہ اللہ کی راہ میں ہی۔
اگر یہ شخص اپنے بوڑھے ماں باپ کیلئے کمانے نکلا تو بھی یہ اللہ کی راہ میں ہے ۔
اور اگر یہ خود اپنے لئے کمانے نکلا ہے تاکہ عافیت میں رہ سکے تو بھی یہ اللہ کی راہ میں ہے ۔
البتہ اگر یہ شخص فخر اور شان و شوکت کی خاطر کمانے نکلا ہے تو یہ راہِ شیطان میں ہے ۔
گویا یہ درس دیا گیا کہ گھرانی، خاندان اورمعاشرے کی ترقی اور خوشحالی کیلئے اس میں بسنے والے افراد کا محنتی ، جفاکش اور ذمہ دار ہونا کتنا اہم ہے اور محنت کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کا دوست قرار دیا گیا( الکاسب حبیب اللہ۔الحدیث )۔اللہ تعالی کے انبیاءِ کرام علیھم السلام نے ہمیشہ محنت اور مشقت کو اختیارکیا ہی۔ حضرت دائود علیہ السلام کی محنت و مشقت تو ضرب المثل ہی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کپڑے کی تجارت اختیار فرمائی ، حضرت سلیمان علیہ السلام کھجور کے پتوں سے زنبیل بناتے اور فروخت فرماتی۔ حضوررسالت مآبؐ نے بھی تجارت کا پیشہ اختیارفرمایا۔ انبیاءِ کرام تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے انسانیت کی تعلیم و تربیت پرمامور ہوتے ہیں۔ لہذا انہوں نے خود اپنے ہاتھ سے رزق کما کراپنی امتوں کے سامنے مثال قائم فرمائی اور انہیں باوقارزندگی گزارنے کے رنگ ڈھنگ سکھائی۔
اہل اللہ میں سے ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ عبادت کے دس اجزاء ہیں۔ نوحصے حلال طریقہ سے اپنا رزق کمانے میں اور ایک خالص عبادت میں۔
حضرت جابرؓ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا ۔
لوگو! تم میںسے کوئی شخص جب تک کہ اپنا پورا پورا رزق حاصل نہ کرلے ہرگز نہیں مرے گا۔ لہذا رزق کمانے کے معاملہ میں محتاط رہو۔ اللہ سے ڈرتے رہو اور رزق کمانے میں اچھا طریقہ اختیارکرو۔ جو حلال ہے اسے قبول کرو اور حرام سے بچو۔
یاد رہے کہ حصولِ رزق کیلئے ناجائز طریقوں سے اجتناب کرتے ہوئے جائز ذرائع ہی استعمال میں لانے چاہیںاس لئے کہ انسان پر رزقِ حلال اور رزقِ حرام کے الگ الگ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اُستاذی المکرم، مفکرِاسلام سیّدی و مرشدی سیّدریاض حسین شاہ صاحب دامت برکاتہم اپنی تصیف ’’سُراغِ زندگی‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ۔
` “اچھی خوراک اچھا اثررکھتی ہے اور اچھی زمین اچھی فصل دیتی ہی۔ کون نہیں جانتا کہ شہد کااستعمال صحت افزاء اور لذت آراء ہوتا ہے اور زہر استعمال کرنا ہلاکت آفرین ہوتا ہی۔ کھانوں اور دیگر اشیاءِ استعمال کا طیب اور پاکیزہ ہونا ظاہری طور پر تو ہرشخص مرغوب رکھتا ہے لیکن اس کے روحانی اور باطنی اثرات کا ہرکوئی لحاظ نہیں رکھتا۔ اکلِ حلال اور کسبِ حلال عبادت ہے اور اتنی ہی ضروری جتنا کہ نماز کیلئے وضو ضروری ہوتا ہے اور روزہ کیلئے بھوکا پیسا رہنا۔ قرآنِ حکیم میں بار بار ربّ ِ قدوس نے حلال اور طیب رزق کے استعمال کی ترغیب ولائی ہے اور رزقِ حرام پروعیدیں سنائی ہیں۔
ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ طاعت اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے جس کی کنجی دُعا ہے اور دعا کی قبولیت کیلئے لقمہ حلال لازم ہی۔
لہذاہمیں چاہیئے کہ نکما پن اور کاہلی کو اپنے قریب نہ آنے دیں۔محنت اور مشقت کو اپنا شعار بنائیں ، حلال اور پاکیزہ رزق سے اپنی بھوک مٹائیں اور اللہ کریم کے احسانات پر اس کا شکر ادا کرتے رہیں