ٹوکیو: وسل بلوئر مائیکل ووڈفورڈ نے منگل کو جاپان کی اسکینڈل زدہ کمپنی اولمپس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو ہٹانے اور نئے ڈائریکٹرز کے ساتھ اپنی پرانے عہدے پر واپسی کے لیے مہم تیز کر دی۔
برطانوی شہری نے اس سلسلے میں ڈائریکٹر کے عہدے سے بھی استعفی دے دیا تاکہ وہ بورڈ میں نئے ممبران کی بھرتی اور اپنے آپ کو کمپنی کی قیادت، جو پچھلے ماہ ان کی برخاستگی کے بعد سے خالی پڑی ہے، پر بحال کروانے کے لیے حصص داران سے آزادانہ بات چیت کر سکیں۔
بورڈ کے خلاف اپنی لڑائی کا مورچہ سیٹ کرتے ہوئے، ووڈفورڈ نے کہا کہ وہ اس لیے مستعفی ہو رہے ہیں چونکہ موجودہ ڈائریکٹران 92 سالہ کمپنی کی صفائی کے لیے فٹ نہیں، جس نے دو عشرے پہلے سرمایہ کاری میں ہونے والے بھاری نقصانات کو مہنگی خریداریوں سے چھپانے کی کوشش کی۔
“اصلاحات اور تنظیم نو کا وعدہ (جو اولمپس کے صدر شوئیچی تاکایاما نے کیا ہے) اور موجودہ بورڈ بہت کم یا ذرا سی بھی معتبریت نہیں رکھتا اور اولمپس اور اس کے طویل مدتی مستقبل کو نقصان پہنچا رہا ہے،” ووڈفورڈ نے نیویارک میں جاری کیے گئے ایک اعلامیے میں کہا۔
“اپنا استعفی دینے کے بعد میرا ارادہ تمام دلچسپی رکھنے والے فریقین سے رابطہ کرنے کا ہے جو نئے بورڈ کے قیام کے لیے ایک پروپروزل تشکیل دینا چاہتے ہیں”۔
ڈاؤجونز نیوز وائر کے مطابق، ووڈفورڈ نے ایک ٹیلی فونک انٹرویو میں زور دیا کہ وہ جنگ زدہ کیمرہ اور طبی سامان ساز ادارے سے “پرے” نہیں ہٹ رہے، بلکہ وہ فرم کے انتطام و انصرام کے ایک “متبادل منصوبے” پر کام کر رہے ہیں۔
جاپان کی کیودو نیوز ایجنسی کی طرف سے رپورٹ کیے گئے تبصرے کے مطابق، اولمپس کے سابقہ صدر نے کہا کہ وہ کمپنی کے اسٹیک ہولڈرز سے بات کرنا چاہتے تھے۔
“جس وجہ سے میں نے یہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ میرے خیال سے یہ میرے لیے ایک موقع ہو گا کہ اولمپس میں دلچسپی رکھنے والی پارٹیوں کو متحرک کر سکوں اور ان حصص داران کو جو اصلی تبدیلی چاہتے ہیں،” انہوں نے کہا۔
“میرا خیال ہے کہ میں ڈائریکٹران کا متبادل حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہوں گا، اور یہ روایتی پراکسی ووٹ ہوگا، اور اس میں چوائس موجود ہو گی”۔
پراکسی جنگیں، جن میں ایک جیسے خیالات رکھنے والے حصص داران بورڈ کو ختم کرنے کے لیے اکٹھے ہو جاتے ہیں، جاپان میں بہت کم ہوتی ہیں، جہاں بڑے ادارہ جاتی سرمایہ کاروں کے انتظامیہ کے ساتھ اچھے تعلقات ہوتے ہیں۔
تاہم اولمپس میں غیرملکی سرمایہ کاریاں حالیہ ہفتوں میں بڑھ گئی ہیں چونکہ جاپانی سرمایہ کاروں جیسا کہ نیپون لائف انشورنس نے اپنا حصہ کم کیا ہے، جب کہ کیمرہ ساز اولمپس 14 دسمبر کو اپنی سہ ماہی کی آمدن کی رپورٹ جمع کروانے کے لیے لڑکھڑاتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔
اس تاریخ تک رپورٹ جمع نہ کرانے کی صورت میں اس کے شئیر ٹوکیو اسٹاک مارکیٹ سے ڈی لسٹ کر دئیے جائیں گے۔
دوسری طرف ٹوکیو میں کمپنی اپنے ہونٹ سئیے رہی، اور صرف اسقدر تصدیق کی کہ ووڈفورڈ نے بورڈ میں اپنی جگہ چھوڑ دی ہے۔
“ہم اعلان کرتے ہیں کہ کمپنی کو بورڈ ڈائریکٹر مائیکل ووڈفوڈ کی طرف سے آج استعفے کا خط موصول ہوا ہے اور یہ کہ آج سے انہوں نے کمپنی کے بورڈ ڈائریکٹر کے طور پر استعفی دے دیا ہے،” اولمپس نے ایک مختصر اعلامیے میں کہا۔
اولمپس کے شئیر 2.34 فیصد کے اضافے سے 1049 ین پر بند ہوئے، جو ووڈفورڈ کو نکالنے سے قبل کی قدر کے نصف سے بھی کم ہے۔
فرم کی 90 سالہ تاریخ میں پہلے غیر جاپانی صدر اور چیف ایگزیکٹو کے عہدے کے حامل برطانوی شہری کو 14 اکتوبر کو نکال دیا گیا تھا، تاہم ان کا بورڈ کا عہدہ برقرار رکھا گیا۔
ووڈ فورڈ نے کہا کہ انہیں اس لیے بےدخل کیا گیا تھا چونکہ اس نے حالیہ سالوں میں چار معاہدوں میں زیادہ ادائیگیوں پر سوالات اٹھائے اور کارپوریٹ گورنس کی حالت پر فکرمندی کا اظہار کیا۔
اولمپس نے ابتدا میں اس معاہدوں میں زائد ادائیگیوں سے انکار کیا، لیکن بعد میں اعتراف کیا کہ یہ فنڈز 1990 کے عشرے میں ہونے والے سرمایہ کاری نقصانات کو چھپانے کے لیے استعمال کیے گئے۔
کمپنی کے کچھ حصص داران اور ملازمین نے ووڈفورڈ کو کمپنی کے سربراہ کے طور پر بحال کروانے کے لیے مہم چلائی ہے۔
مقامی میڈیا نے رپورٹ دی ہے کہ اس کے نقصانات کا مجموعہ شاید 100 بلین ین (1.3 بلین ڈالر) تک جا پہنچے، جبکہ دوسری رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ نقصانات کا عدد 5 بلین ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔
جاپانی حکام نے اس فراڈ کی تحقیقات کے لیے تفتیش کا آغاز کر دیا ہے جبکہ ووڈفورڈ امریکی قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں سے بھی ملے ہیں۔
بڑھتی مشکلات میں مزید اضافہ کی وعید سناتے ہوئے، اولمپس نے جمعے کو کہا کہ امریکی سرمایہ کار نے کمپنی کے خلاف مل کر ایک مقدمہ دائر کر دیا ہے جس میں اس پر پچھلے پانچ سالوں سے جھوٹی مالیاتی رپورٹ پیش کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
نقصانات چھپانے کے اس کیس میں تین مرکزی شخصیات سابقہ چئیرمین تسویوشی کیکوکاوا اور دوسرے دو ڈائریکٹرز شامل ہیں، جنہوں نے پچھلے ہفتے عہدے چھوڑ دئیے تھے۔
اس سازش میں اطلاعات کے مطابق “توباشی” نامی طریقہ کار استعمال کیا گیا، جس کا لفظی ترجمہ “پھونک سے اڑانا” بنتا ہے، جس میں سرمایہ کاری نقصانات کمپنی کے کھاتوں میں ان جگہوں پر منتقل کر دئیے جاتے ہیں جہاں سرمایہ کار انہیں دیکھ نہ سکیں۔
کئی ایک معاہدے زیر تفتیش آئے ہیں، جن میں 1.92 بلین ڈالر سے برطانوی طبی سامان بنانے والی کمپنی گائرس گروپ کا معاہدہ بھی شامل ہے، جس میں اولمپس نے سیامن آئی لینڈز میں واقع ایک غیرمعروف مالیاتی مشیر کو 687 ملین ڈالر ادا کرنے کا اعتراف کیا ہے۔