ٹوکیو: آساہی شمبن نے اتوار کو رپورٹ دی ہے کہ جاپان کے نیوکلیر سیفٹی کمیشن کے قریباً ایک تہائی کمشنروں اور معائنہ کاروں نے ملک کی ایٹمی بجلی بنانے والی کمپنیوں سے چندہ وصول کیا۔
صاحب اثر روزنامے نے کہا کہ حکومت کے کمیشن کی غیرجانبداری کو ایک ایسے وقت سوالات کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا تھا جب 11 مارچ کے زلزلے و سونامی کی آفت کے بعد جاپان کے ایٹمی ری ایکٹروں کی سیفٹی پر شبہات کا اظہار ہو رہا تھا۔
سونامی و زلزلے نے بیس ہزار لوگوں کو ہلاک یا لاپتہ کر دیا اور ایک ایٹمی بجلی گھر میں پگھلاؤ کا باعث بنا، جو تب سے ماحول میں تابکاری خارج کر رہا ہے۔
آساہی نے کہا کہ آرگنائزیشن کے پانچ مستقل کمشنروں میں سے دو اور 82 بیرونی معائنہ کاروں میں سے 22 نے ایٹمی بجلی سے متعلق صنعتوں اور کمپنیوں سے مارچ 2011 تک کے پانچ سالوں میں چندہ لے کر کھایا۔
آساہی کے مطابق ان چندوں کی مجموعی مالیت 85 ملین ین بنتی ہے۔
اخبار کے مطابق، ان میں سے 11 چندے ایٹمی ری ایکٹر بنانے والوں یا بجلی سپلائی کرنےو الی کمپنیوں، اور ایٹمی ایندھن سپلائی کرنے والی کمپنیوں کی طرف سے آئے جن کا کمیشن نے معائنہ کیا تھا۔
کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ ریاست اور ایٹمی بجلی ساز کمپنیوں کو غیرجانبدار رہتے ہوئے رہنمائی فراہم کرے۔
روزنامے کے مطابق، کمشنروں کے چئیرمین ہاروکی مادارامے نے متسوبشی ہیوی انڈسٹریز کی جانب سے 2006 سے 2009 کے مابین چار ملین ین وصول کیے جبکہ وہ پچھلے اپریل سے کمشنر کا عہدہ سنبھالنے سے قبل جامعہ ٹوکیو میں پروفیسر تھے۔
مادارامے نے چندوں کے عوض کمپنی کو کسی قسم کی فیور دینے سے انکار کیا ہے۔