ٹوکیو: جاپانی حکومت سیاسی رسہ کشی کے دوران یکم اپریل کی مقررہ تاریخ تک نئی ایٹمی نگران ایجنسی قائم کرنے میں ناکام رہی ہے جس سے پچھلے سال کے بحران کے بعد نگرانی کے عمل کو بہتر کرنے کے وعدے پر سوالیہ نشان پیدا ہوئے ہیں۔
بڑے زلزلے اور سونامی کے بعد فوکوشیما ڈائچی ایٹمی بجلی گھر کے تین ری ایکٹروں پر پگھلاؤ ہونے اور چرنوبل کے بعد دنیا کے بدترین ایٹمی حادثے کے رونما ہونے کے بعد حکام پر ملک کے 54 ایٹمی ری ایکٹروں کی ریگولیشن اور نگرانی میں غفلت کا الزام لگایا گیا ہے۔
وزیر اعظم یوشیکو نودا کی کابینہ نے امریکی نیوکلیئر ریگولیٹری کمیشن کی طرز پر نئی زیادہ طاقتور اور آزاد ایٹمی ریگولیٹری باڈی تشکیل دینے کے بل کی تجویز دی تھی جو ایٹمی سیفٹی اور ریگولیٹری کے کاموں کو اکٹھا کر دے گی اور ماحولیاتی ایجنسی کے نیچے کام کرے گی۔
فی الوقت مرکزی نگران ایجنسی ‘دی نیوکلیئر انڈسٹریل اینڈ سیفٹی ایجنسی’، وزارت معیشت، تجارت اور صنعت کے تحت کام کرتی ہے جو کہ کم وسائل والے اس ملک میں ایٹمی توانائی کو فروغ دینے کا کام کرنے والی وزارت بھی ہے۔
تاہم “نیوکلیئر سیفٹی ریگولیشن ایجنسی” کے نام سے قائم کی جانے والی نئی ایجنسی کی تشکیل کا کام حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کے مابین اختلافات کی وجہ سے سست روی کا شکار ہے کہ اسے کتنی آزادی دی جائے، اس کے علاوہ دوسرے غیر متعلقہ اختلافات جیسا کہ سیلز ٹیکس میں مجوزہ اضافہ بھی باعث نزاع ہیں۔