میری درازعمری کا راز
تحریر : حسین خاں ۔ ٹوکیو
مطلوب صاحب مجھ سے چند سال چھوٹے تھے لیکن غالباً 75 سال کی لگ بھگ عمر میں مجھ سے پہلے گذر گئے ۔ اللہ تعالیٰ نے میری مہلتِ زندگی دراز کی ہوئی ہی۔ شاید
ابھی عشق کے امتحا ں اور بھی ہیں
غالباً عشقِ مجازی کے بھی اور عشقِ حقیقی کے بھی۔
چلتے چلتے میں اپنی دراز عمری کا راز بھی بتاتا چلوں۔کوئی انسان دنیا میں ایسا نہیں ہوگا جسے دراز عمری کی خواہش نہ ہو، جس نے اسکی تمنّا نہ کی ہواور اس کے لیے دعا نہ مانگی ہو۔ ڈاکٹروں سے پوچھو تو وہ ایک حفظانِ صحت کے اُصولوں کی ایک لمبی چوڑی فہرست ہاتھ میں پکڑا دیں گی۔کاش کہ انسان صرف جسم ہی کا بنا ہوتا اور اس میں روح نہ ہوتی تو ڈاکٹروں کی باتوں سے اچھی خاصی دراز عمری شاید ہر ایک کا نصیب ہوتی۔ دیکھنے میں آیا ہے بعض ہٹّے کٹّے انسا ن بھی یکایک مرجاتے ہیں۔فوجی تو سب جو۱ن ہی ہوتے ہیں جو جنگوں میں مرجاتے ہیں یا جہاد میں شہید ہوجاتے ہیں۔ شہید کا معاملہ تو کچھ مختلف ہی۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جو دراز عمری کے بجائے اپنی جان کا نذرانہ اپنے ہاتھوں میں لیے پھرتے ہیں ۔ان کی تمنّا اور دعا دراز عمری کی نہیں بلکہ
جان دی،دی ہوئی اُسی کتھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
کے فلسفہ پر عمل کرتے ہوئے شہید ہونا پسند کرتے ہیں۔ قران میں ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں حیاتِ جاودانہ عطا کرتا ہی۔
اس لیے شہداء کے معاملہ کو الگ رکھتے ہوئے دراز عمری کے لیے جسمانی اسباب کے ساتھ ساتھ کچھ روحانی اسباب بھی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یونہی عبث پیدا نہیں کیا۔ کسی مقصد کی تکمیل کے لیے اس دنیاءِ فانی میں کچھ عرصہ کے لیے بھیجا ہی۔ اس بحث کو مختصر کرنے کے لیے میں فی الحال صرف اس انسان تک اپنی بات کو محدود رکھنا چاہتا ہوں جو کسی نہ کسی وجہ سے مسلمان بھی ہی۔
ایک مسلمان کے لیے دراز عمری کا نسخہ کیا ہی؟اس نسخہءِ کیمیا ء کو دریافت کرنے کے لیے چین اور بعض دوسرے ملکوں کے بادشاہوں نے اپنی دولت لٹادی کہ وہ کسی طرح ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہ کر اپنی بادشاہت چلاسکیں۔ لیکن انھیں بھی موت سے رُستگاری نصیب نہیں ہوئی۔
دراز عمری ہی نہیں بلکہ دنیا کی ساری نعمتو ںکے لیے بھی، ساری پریشانیوں اور مصائب و آلام سے چھٹکارا پانے کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے قران و حدیث میں شاید بہت کچھ بتا یاہوگا۔یہاں میں صرف دُو باتوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ایک استغفار اور دوسرے دعوتِ دین یا دعوت اِلیٰ اللہ کے کام کا۔ یہ ہیں وہ روحانی اسباب جو صرف دراز عمری ہی نہیں بلکہ دنیا و آخرت کی ساری نعمتوں کی بنیاد بنتے ہیں۔
مجھ پر بھی اللہ تعالیٰ نے دراز عمری ہی نہیں بلکہ دوسری بہت ساری نعمتوں کی بھی جو بارش کی ہوئی ہی
فَبَاَیِّ آلاءِ رَبِّکما تُکَذِّ بان۔ ’’پس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جُھٹلاؤگی‘‘
ان سب کا راز بھی یہی ہے جو درجِ ذیل ہی۔
اَیّامِِ جوانی کی ابتداء ہی سے ‘جب سے کہ مجھے مولانا مودودی ؒ کی کتابیں پڑھنے کی توفیق ہوئی ہی، میں نے اپنی زندگی کی بنیاد کو قران کی اس آیت کے مطابق استوار کرنے کی کوشش کی ہی۔
اِن تَنصُرُاللہَ یَنصُرُکُم: ’’اگر تم اللہ کی مدد کروگے ،اللہ تمہاری مدد کرے گا۔‘‘
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی میں اسی لیے مسلمان، میں اسی لیے نمازی
مندرجہ بالا آیت کیے مطلب پر غور کرنے کی کوشش کریں توپتہ چلے گا کہ اللہ تعالیٰ نے دعوتِ دین کے کام کو اپنی ’’مدد‘‘ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہی۔ اس عظیم ہستی کو تو انسان سے کسی مدد کی ضرورت نہیں۔لیکن انسانوں کو ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور اگر کوئی انسان اس کام کے لیے کچھ ہاتھ پاؤں مارے تو اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ کہتا ہے تو میرے کا م میں میری مدد کررہا ہی۔ کوئی شخص اس عظیم کام کو اپنی زندگی کا مقصد ہی بنالے تو اس پر اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی کا کوئی احاطہ نہیں کرسکتا۔