انسان
خالد فریدی
غالباً رفتہ دسمبر کی بات ہی، مجھے ایک فون کال موصول ہوئی۔ میں نے ہیلو کیا، دوسری طرف سے کہا گیا کہ خالد فریدی صاحب سے بات کرنی ہی!
میں نے کہا جی میں بول رہا ہوں‘ فون کرنے والے نے اپنا تعارف کروایا کہ میں الطاف غفار بول رہا ہوں تو یکدم میرے ذہن میں پاکستان ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری کا خیال وارد ہوا۔ بات بڑھی تو یقینا وہی صاحب تھی‘ میں نے اُن سے کہا کہ جناب میں تو کیا تقریباً جاپان میں رہنے والے سب پاکستانی آپ کو جانتے ہیں۔ فرمائیی…!
کہنے لگے فریدی صاحب یوکوہاما سے ہمارے ایک دوست تصدق حمید صاحب پی ٹی آئی جاپان کا حصہ بننا چاہتے ہیں اور تحریک انصاف کے پلیٹ فارم کے ذریعے پاکستان کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے فوراً کہا ’’بسم اللہ‘‘ ہماری تحریک کے دروازے ہر اُس شخص کے لئے کھلے ہیں جو خلوصِ دل سے پاکستان کی خدمت کرنا چاہتا ہی۔ میں نے الطاف غفار صاحب سے کہا کہ آپ میرا نمبر تصدق صاحب کو دے دیں‘ فون کال منقطع ہو گئی‘ تھوڑی دیر بعد تصدق صاحب کا فون آ گیا‘ سلام دعا کے بعد کہنے لگے فریدی بھائی میں بھی تحریک انصاف کا ممبر بننا چاہتا ہوں کیونکہ دوسرے سیاسی لیڈروں کے مقابلے میں عمران خان صاحب کا سیاسی وژن بہت بلند ہے تو میں نے تصدق صاحب سے کہا کہ آئندہ اتوار کو ہمارا اجلاس ہو رہا ہی۔ آپ بھی تشریف لائیں‘ کہنے لگے ضرور انشاء اللہ حاضر ہوں گا۔
پی ٹی آئی کے مرکزی اجلاس جو کہ ہانڈی ریسٹورنٹ میں تھا‘ تصدق صاحب‘ الطاف غفار کے ہمراہ تشریف لائی۔ مرکز کے تمام ساتھیوں نے پرجوش استقبال کیا۔ اجلاس کی کارکردگی کے بعد تصدق صاحب نے کہا کہ آپ سب گانا گاوا تشریف لائیں‘ میں تمام مرکزی قیادت کو خوش آمدید کہوں گا۔ دوسرے دن میں نے اور دوسرے مرکزی ارکان نے فون کے ذریعے تصدق صاحب کے بارے میں معلومات حاصل کیں‘ ہمیں کوئی ایسا شخص نہیں ملا جس نے تصدق صاحب کے بارے میں منفی خیالات کا اظہار کیا ہو۔ ہر ایک نے یہی کہا کہ آپ کو ہیرا مل گیا ہے اور واقعی میری معلومات کے مطابق تصدق صاحب شاندار کردار کے مالک نکلی۔ اُس کے بعد تصدق صاحب نے ہمیں کانا گاوا کے ایک ریسٹورنٹ میں دعوت دی اور ہم نے وہاں جا کر تصدق حمید صاحب کو پارٹی کی مشاورت سے گانا گاوا کین کا صدر نامزد کر دیا۔
میری تصدق صاحب سے تین ملاقاتیں ہوئیں اور مجھے ایسا لگا کہ میں اِس شخص کو مدتوں سے جانتا ہوں۔ تصدق صاحب کا اخلاق و پیار اور ان کا دھیمے لہجے میں بولنا اُن کی شخصیت کو مزید نکھارتا تھا۔ پاکستان روانہ ہونے سے ایک ہفتہ قبل جو کہ میری اُن سے آخری ملاقات تھی، مجھ سے ملے اور ہم نے اکٹھے کھانا کھایا‘ کھانے کے بعد کہنے لگے فریدی بھائی میں پاکستان جا رہا ہوں‘ والدہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہی‘ ایک مہینے تک واپس آ جائوں گا۔ میں نے بھی دعائیہ کلمات سے اُن کو الوداع کیا‘ ان کے ساتھ اُن کے چھوٹے بھائی (حاجی مُنا) مصدق صاحب بھی تھی۔ تصدق صاحب کو الوداع کرتے ہوئے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ زندگی یوں بے وفائی کرے گی۔ ان کے پاکستان جانے کے چند روز بعد آگ سے جھلس جانے پر ان کی نا گہانی موت کی خبر سنی تو ایسا محسوس ہو جیسے دنیا تھم سی گئی ہو اور ہر چیز بے جان ہو گئی ہو۔ مجھے ایسا لگا کہ شائد میں نے عمر بھر کی کمائی پل بھر میں کھو دی ہو۔ مجھے ابھی بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ تصدق حمید مرحوم میرے سامنے ہیں اور مجھ سے باتیں کر رہے ہیں۔ اللہ سبحان تعالیٰ اُن کے گناہوں کو معاف کرے اور جنت الفردوس کے اعلیٰ درجوں میں جگہ عطاء فرمائی… آمین۔
آدمی زندگی چاہتا ہے مگر بہت جلد اُس کو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں صرف موت ہے جو اُس کا استقبال کرنے کے لئے کھڑی ہوئی ہی۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ دہائیاں قبل 24 جون کی شام کو ایک طرف شانتی ون میں سنجے گاندھی کا مردہ جسم جلایا جا رہا تھا اور دوسری طرف وہاں کھڑے ہزاروں متقدین یہ نعرہ لگا رہے تھی۔
جب تک سورج چاند رہے گا
سنجے تیر ا نام رہے گا
’’انسان‘‘ سورج اور چاند کے رہنے تک زندہ رہنا چاہتا ہے مگر موت بے رحمی کے ساتھ اُس کو دنیا سے اُٹھا لیتی ہے جیسے اُس کے نزدیک انسان کی خواہشوں کی کوئی قیمت نہیں ہی۔ انسان اپنی عظمت کا قلعہ تعمیر کرتا ہے مگر موت کا طوفان اُس کو تنکوں کی طرح اڑا کر یہ سبق دیتا ہے کہ انسان کو اِس دنیا میں کوئی قدرت حاصل نہیں۔ انسان کہتا ہے کہ میں اپنا مالک ہوں مگر تقدیر اُسے کچل کر بتاتی ہے کہ تیرا مالک کوئی اور ہی۔ انسان موجودہ دنیا میں اپنی آرزوئوں کا باغ اُگانا چاہتا ہے مگر موت اُس کے منصوبہ کو مٹا کر یہ سبق دیتی ہے کہ اپنے لئے دوسری دنیا تلاش کرو کیونکہ موجودہ دنیا میں تمہاری آرزوئوں کی تکمیل ممکن نہیں۔
زندگی کا سب سے بڑا سبق وہ ہے جو موت کے ذریعے ملتا ہی۔ موت ہماری زندگی کی سب سے بڑی مُعلّم ہی۔ موت ہمیں بتاتی ہے کہ ہم اپنے مالک آپ نہیں ہیں۔ موت ہمیں بتاتی ہے کہ موجودہ دنیا میں ہماری زندگی عارضی ہی۔ موت زندی کا سب سے بڑا عبرت ناک واقعہ ہی۔ وہ آدمی کو آسمان تک سے اُٹھا کر زمین پر گرا دیتی ہی‘ موت کے سامنے ہر آدمی بالکل بے بس ہی۔ تصدق حمید جیسے واقعات روزانہ لاکھوں کی تعداد میں پیش آتے ہیں لیکن انسان غفلت کی ایسی شراب پئے ہوئے ہے کہ اس کیمدہوشی ختم نہیں ہوتی۔ آدمی دوسروں کو مٹانے کی سازش کرتا ہے مگر موت اُسے مٹانے اُس کے پیچھے کھڑی ہوتی ہی۔ آدمی دوسرے کا اعتراف نہیں کرتا وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح وہ اپنی بڑائی کا تحفظ کر رہا ہے حالانکہ اگلے ہی لمحے موت آ کر اِس کی بڑائی کو خاک میں ملا دیتی ہی۔ انسان ’’خدا‘‘ بننا چاہتا ہے لیکن موت اُس کو بتاتی ہے کہ وہ صرف ایک بے قیمت آدمی ہی‘ اس کے سوا اور کچھ نہیں…