تاریخ پاکستان پر ایک اچھی تحریر ،قلم کار شاہد رحمان

فاطمہ جناح ہم نے آپ کو کیا دیا

قیام پاکستان کی جدوجہد میں محترمہ فاطمہ جناح کی خدمات اور قربانیوں کو بھلایا نہیں جاسکتا۔انھوں نے قائداعظم کی بہن ہونے کی
حیثیت سے پاکستان بننے سے پہلے اور پاکستان بننے کے بعدتک تمام ذندگی مسلمانان ہند کی نظر کر دی۔آپ نے تمام ذندگی قوم کے
قائد اور اپنے بھائی کے ساتھ ان کی خدمت میں گزاری اور ہر طرح کے نا مسائب حالات میں اپنے بھائی اور ہمارے قائد کا ساتھ دیا۔
جب پاکستا ن بننے کے بعد قائداعظم محمد علی جناح پہلے گورنر جرنل مقرر ہوئے تواس وقت تک بہت ذیادہ کام اور محنت نے (بدقسمتی سے) آپ کی صحت پر بہت برا ثر ڈال دیا تھا اور آپ شدید بیمار رہنے لگے تھے، ( یاد رہے کہ ڈاکٹروں کی رپورٹ کے مطابق ہمارے قائد کو
ٹی بی کا مرض لاحق ہو گیا تھا اور اس ذمانے میں یہ مرض لا علاج تصور ہوتا تھا ) ۔
ڈاکٹروں نے آپ کو مکمل آرام کا مشورہ دیا تھا اور آپ صوبہ بلوچستان کے علاقے زیارت کے ایک سینیٹوریم میں منتقل ہو گئے تو اس وقت بھی محترمہ فاطمہ جناح آپ کے ساتھ تھیں۔جب آپکی بیماری بہت ذیادہ شدت ختیارکر گئی اور ڈاکٹروں نے نا امیدی ظاہر کر دی تو آپ
کو بزریہ ہوائی جہاز کراچی لایا گیا اور کمال دیکھئے کے سخت گرمی کے موسم میں کراچی ائر پورٹ پر ہمارے قائدِ اعظم اسٹیچرپر لیٹے تھے تو ان
کو لیجانے کے لئے آنے والی ایمبولینس لیٹ ہوگئی اور وجہ یہ بتائی گئی جو (ریکارڈ پر ہے) جو ایمبولینس آپ کو لینے آنے والی تھی وہ خراب ہو گئی ہے۔ اس وقت بھی آپ کے ساتھ محترمہ فاطمہ جناح اور عطیہ عنایت اللہ تھیں جو اپنا ڈپٹہ جھل جھل کرقائد اعظم کے چہرہ سے مکھیاں ا ڑا
رہیں تھیں۔
پولیس نے ٹریفک کو روک رکھا ہے
یہاں سے قوم کے خادم گزرنے والے ہیں
قائداعظم کے انتقال کے بعد بھی محترمہ فاطمہ جناح نے قوم کی امنگوں کو پورا کیاجس جمہوریت کا خواب قائد کی ذندگی میں اور ان کی قیادت میں دیکھاگیا تھااس خواب کو ذندہ جاویددیکھنے آپنے تمام زندگی صرف کر دی۔قائد اعظم پاکستان کو ایک جمہوری ریاست دیکھنا چاہتے تھے ایک ایسی فلاحی ریاست جس میں ہر مذہب اور ہر قوم کو برابری کی بنیاد پر حقوق حاصل ہوں ۔
اس کے علاوہ قائد اعظم سے منسوب تمام من گھڑت باتیں خرافات ہیں۔اس بات کا ثبوت قائد اعظم کا 11 اگست 1947 کا خطاب ہے جس کی ریکارڈنگ کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ روم سے چوری کر لیا گیا ہے اور آج تک پاکستانی قوم کو
اس انمول خطاب سے محروم رکھا گیا ہے۔
پاکستان ریڈیو کے ڈائریکٹر مرتضیٰ سولنگی نے پہلے بی بی سی براڈکاسٹنگ سے درخواست کی ۔انھوں نی معذوری ظاہر کردی اب انھوں نے ٓٓآل انڈیا ریڈیو سے درخواست کی ہے کہ انہیں قائد اعظم محمد علی جناح کے خطاب جو انھوں نے پاکستان کے وجود میں آنے سے( صرف تین دن پہلے کیا تھا ) کی ریکارڈنگ مہیا کی جائے جس میں قائداعظم نے سیکولر پاکستان کا زکر کیا تھا آاس خطاب کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے ریڈیو پاکستان کے سربراہ منصور سولنگی کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں اس خطاب کی ایک کاپی موجود تھی لیکن اس کاپی کو بہت سالوں تک خفیہ رکھا گیا اور کو عام نہیں ہونے دیا گیا ہالانکہ یہ ایک اہم خطاب ہے ۔انھوں نے کہا کہ جو طاقتیں
پاکستان کو حقیقی جمہوری ملک دیکھنا چاہتی ہیں ان کے ہاتھوں میں ایک بڑا سچ آ جائے گا جس کو جھٹلانا مشکل ہو گا۔
اس خطاب میں قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا !
مستقبل کے پاکستان میں مذہب نسل اور ذبان کو ترجیح دئیے بغیر تمام افراد کے پاس برابر کے حقوق ہوں گے اور نئے ملک میں ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی۔
قائداعظم کے جدا ہونے کے بعد ہی چھینا جھپٹی اور اچھاڑ پچھاڑ کا بازار گرم ہو گیا تھا لیکن جب ایک فوجی آمرنے اپنا تسلط قائم کیا تو اس
وقت سوائے محترمہ فاطمہ جناح کے کسی قابل زکر سیاسی رہنما نے موثر طور پر احتجاج نہیں کیا۔جماعت اسلامی جو کے پاکستان کی بقاء کے لئے مارچ کرتی پھر رہی ہے یہی جماعت پاکستان بنتے وقت اس کی سخت مخالف تھی۔بے شک کے جماعت اب اس موضوع پر بات نہیں کرتی لیکن مولانا مودودی صاحب کے صاحب ذادے فاروق حیدر مودودی اس بات کو اب بھی اعلانیا مانتے ہیں کہ ہم نے پاکستان کی مخالفت کی تھی اور ٹھیک کیا تھا۔
مودودی صاحب اپنی کتاب ( ترجمان القرآن ) میں ایک جگہ کہتے ہیں !
چونکہ لیگ کی ساری قیادت جو ہے وہ بے دین ہے اس لیے جو اسٹیٹ بننے جا رہی ہے مسلمانوں کے لیئے ٹھیک نہیں ہے۔۔۔
مودودی صاحب ایک اور جگہ 1946 کیانتخابات کے مطا لق کہتے ہیں!
میں مسلمانوں سے کہتا ہوں کہ وہ لیگ کو ووٹ نہ ڈالیں۔۔۔
(جاپان میں پچھلے سال 14 اگست کے پروگرام میں جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک سینیر پاکستانی اور کالم نگار قائداعظم کو ایک ایسا
درویش ثابت کرنے پر مسر تھے جن کو خواب میں بشارتیں ہوتی تھیں۔)
تو کس طرح سے لوگوں کو سزا د یتا ہے
ان کی اوقات سے خواہش کو بڑھا دیتا ہے
اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی ہے جن کے قائد باچا خان پاکستان بننے اور کے سخت خلاف تھے اور انھوں نے مرنے کے بعد بھی پاکستان میں
دفن ہونا منظور نہیں کیا خیر ان کی یہ بات قابل تحسین ہے کہ وہ اپنے نظریات پر تمام ذندگی کاربند رہے اور سرحدی گاندھی کے لقب سے پکارے جاتے رہے۔ (اے این پی اس وقت پیپلزپارٹی کی حلیف حکمران جماعت ہے۔)
اگر ہم اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں جن شخصیات نے آمریت کو ملک میں چیلنج کیا ہے ان شخصیات میں اول محترمہ فاطمہ جناح ہیں اور دوم محترمہ بے نظیر صاحبہ۔ ایوب خان کی آمریت کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح نے باقائدہ تحریک شروع کی (جس طرح ضیاء آمر کے دور میں MRD کے پلیٹ فارم سے شروع کی گئی تھی )۔ایوب خان نے جب صدارانتخابات کا اعلان کیا تو ملک بھر کی حزبِ مخالف کی جماعتوں(بنیادی جمہوریت کے اراکین اور عوام ) نے محترمہ فاطمہ جناح کومتفقہ طور پر صدارتی امیدوار نامذد کیا۔بے نظیر صاحبہ۔ ایوب خان کی آمریت کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح نے باقائدہ تحریک شروع کی (جس طرح ضیاء آمر کے دور میں MRD کے پلیٹ فارم سے شروع کی گئی تھی )۔ایوب خان نے جب صدارانتخابات کا اعلان کیا تو ملک بھر کی حزبِ مخالف کی جماعتوں(بنیادی جمہوریت کے اراکین اور عوام ) نے محترمہ فاطمہ جناح کومتفقہ طور پر صدارتی امیدوار نامذد کیا۔
قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند
دو چار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گئے
لیکن وہی ہوا جس ڈر تھا کیوں کہ حکومت آمر کے ہاتھ میں تھی سو مفاد پرست اور خودغرض جمعغفیر اس کے قریب جمع ہوگیا اور ایوب خان
نے دھونس دھاندلی پیسہ اور سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال سے وہ الیکشن جیت لیا اور پاکستان اور جمہوریت کو وہ نقصان پہنچا
جو قوم اب تک بھکت رہی ہے اور فوج کے آمروں اور ظالموں کو ایسا رستا دکھا دیا جس پر چلتے ہوئے یاحیٰ خان ضیاء الحق پرویز مشرف
نے قوم کو اندھیرو میں دھکیل دیا۔
قائداعظم کے دارفانی کوچ کرنے کے بعد سے آپ نے اپنی ذندگی تنہا وسیع و عریض مہٹہ پیلس میں گزاری۔9 جولائی کی ایک اداس صبح
جب آپ اپنے کمرے سے صبح 11 بجے تک کمرے سے باہر تشریف نا لا یءں تو تشویش پیدا ہوئی۔آپکی ایک قریبی دوست سے گزارش
کی گئی جنہوں نے آپکے کمرے کے نمبر پر مسلسل ٹیلیفون کیا جب بہت دیر تک کوشش کرنے کے بعد ٹیلیفون پر کوئی جواب وصول نہیں ہو تو
اس وقت کے کمشنر کراچی سید دربار علی شاہ کو اطلاع دی گئی وہ فوری طور پر اپنے اسٹاف کے ساتھ مہٹہ پیلس پہنچے اس وقت تک بھی سارے پیلس کے داخلی دروازے ہنوز بند تھے۔
بیگم اصفہانی کی آمد پر مرکزی دروازہ کھولا گیا تو گھر سے فاطمہ جناح کا پالتو وفادار کتا آوازیں نکالتا باہر آیااور سیڑھیوں کی طرف اشارہ کر کے بھونکے لگا۔کمرے میں داخل ہونے کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ محترمہ فاطمہ جناح خالقِ حقیقی سے جا ملیں ہیں۔
آپ نے تمام زندگی ہمیں دے دی اورہم نے کیا دیا کہ ہم کو آپکا یوم وفات بھی یاد نہیں۔اس وقت محترمہ فاطمہ جناح کی 45 ویں برسی
چل رہی ہے لیکن اس مہیے میں نے پاکستان ٹیلی وژن پر آپ کی زات پر کوئی پروگرام نہیں دیکھا۔
اب رہیں چین سے بے درد ذمانے والے
سو گئے خواب سے لوگوں کو جگانے والے
نوٹ ۱ ( حقیقی تاریخِ پاکستان جاننے کے لیے محترمہ فاطمہ جناح کی یاداشتیں اور کے کے عزیز کی کتاب (THE MURDERD OF HISTORY ) ۔حسن جعفری کی کتاب (پاکستان کیسے بنا )۔حسن جعفری کہتے ہیں کہ ہم اگر یہ جان لیتے کہ پاکستان کیسے بنا
تو پاکستان کبھی نا ٹوٹتا۔

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.