پچھلے ہفتے کے روز کی بات ہے پندرہ دسمبر کی بات کر رہا ہوں
اویاما والے اوکشن المعروف آرائی اوکشن میں ملک یار محمد سے باتیں ہوئیں
ملک یار محمد صاحب وہی ہیں جو ایسوسی ایشن کئ انتخابات میں نائیب صدر منتخب ہوئے تھے
میں ملک صاحب کو اس وقت سے جانتا ہوں جب جاپان آئے ابھی دو تین دن ہی ہوئے تھے
سو معاملات میں ان سے اختلاف کے باوجود اس سے بات چیت ہوتی ہی رہتی ہے کہ
جیسے اردو کے مشہور شاعر جناب عبدلحمید عدم کا شعر
کہ
جونی ڈھلنے پہ مائیل ہو جس حسینہ کی
وہ اپنے یار پرانے تلاش کرتی ہے
بڑی فقیر طبیعت ہے عدم تیری
یہ رانوں کے سرہانے تلاش کرتی ہے
ملک صاحب سے ایسوسی ایشن کے انتخابات پر بات چل نکلی تو باتوں باتوں میں انہوں بڑی اہم اور سنسنی خیز باتیں بتائیں
کہ جن کو سن کر مجھے اس بات کا اندزہ کرنا اسان ہوا کہ
پچھلے انتخابات میں جیتے ہوئے لوگوں کو ایمبیسی نے وہ حثیت کیوں ناں دی جو کہ عوام کے منتخب لوگوں کو ملنی چاہئے تھی
دو ہزار دس والے انتخابات سے پہلے بقول ملک یار محمد کے ، یہ لوگ ایمبیسڈر نور محمد جادمانی سے ملنے گئے تھے
کہ ہم لوگ انتخابات کروانے جارہے ہیں
اور اپ لوگ ہمارے ساتھ تعاون کریں
تو جادمانی صاحب نے کہا کہ اپ نے ہم سے پوچھے بغیر ہی فیصلہ کر لیا ہے ، اور یہ کہنے میں لہجہ بڑا افسرانہ تھا
جس پر ملک یار محمد نے جادمانی صاحب کو بڑی شائیستگی اور مضبوطی سے یہ کہا کہ
یہ کام عوامی نمائیندوں کا ہی ہے اور اپ سرکاری لوگوں کو ہمارے ساتھ تعاون کرنا ہی پڑے گا ۔
جس پر جادمانی صاحب نے ملک یار محمد کو سفارت خانے کے قوم کے نمائیدہ ہونے اور نمائیندگی کرنے کا بتایا
تو ملک یار محمد نے جادمانی صاحب کو کہا کہ اپ کی نمائیندگی ایک محدود دائیرے میں ہوتی ہے
لیکن ہم وہ لوگ ہیں جو جاپان کے معاشرے میں ، معاشرتی معاملات کر کے وسیع پیمانے پو قوم کی نمائیندگی کر رہے ہیں
اس گفتگو کے بعد
یہ ہوا کہ اگلے دن سے جادمانی صاحب نے امتیاز نامی افسر کو اگے کر دیا اور خود مصروفیت کے بہانے ایسوسی ایشن کے الیکشن میں سرگرم لوگوں سے کترانے لگے۔
اویاما اوکشن میں ملک یار محمد نے جادمانی صاحب کے ساتھ ہونے والی باتیں تو خاصی زیادہ بتائیں تھیں لیکن ممجھے لفظ بلفظ یاد نہیں ، لیکن لب لباب یہی تھا جو اوپر لکھا ہے
جادمانی اور ملک یار محمد کے درمیان ہونے والی گفتگو سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ
جادمانی صاحب نے اس بات میں اپنی انسلٹ محسوس کی ہو گی
اور ان کی امیدوں کے برعکس ، جیت بھی انہی منہ پھٹ لوگوں کی ہو گئی
تو جادمانی صاحب کیا کرتے؟
جادمانی صاحب نے وہ کیا
کہ جیتی ہوئی ایسوسی ایشن کو نظر انداز کردیا
اسد گیلانی صاحب کے اس دفعہ کے الیکشن کروانے کی میڈیا بریفنگ میں انور میمن صاحب کے اس سوال پر کہ ایمبیسی نے جیتی ہوئی ایسوسی ایشن کو کیوں نظرانداز کیا تھا ؟
کا
کوئی جواب نہیں دے سکے تھے ، اور ایمبیسڈر کے اس وقت کے احساسات سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا
لیکن
ملک یار محمد کی باتیں سن کا ایمبیسیڈر کے “اٗس” وقت کے احساسات کا اندازہ کرنے کے لئے کسی افلاطون کی عقل کی ضرورت نہیں ہے
اب کیا ہو گا؟
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور محفلوں میں بھی اس بات کا اظہار کرتا ہوں کہ الیکشن کروانا (اپنے ملک میں ) سرکاری ملازمین کا ہی کام ہوتا ہے لیکن عموامی نمائیدوں کے حکم پر !!۔
ناں کہ
سرکاری مشینری کے زور پر کچھ لوگوں کو عوامی نمائیدے بنا کر عوام پر مسلط کر دینا۔
اردو میں ایسے نمائیندوں کے لئے لفظ “استعمار” استعمال ہوتا ہے۔
بحر حال اب تو نظر آرہا ہے کہ
ایمبیسی (اسد گیلانی اور جادمانی صاحبان )کے پلان کردہ الیکشن ہونے کو نہیں جارہے!!۔
کہ جادمانی صاحب جا چکے ہیں
اسد صاحب جانے والے ہیں
انتخابات غیر معینہ مدت تک ملتوی ہو چکے ہیں
نئے لوگوں کی نئی ترجیعات ہوں گی اور نئے پلان اور پروگمات ہوں گے
اور اگر کوئی حسن زن رکھے کہ
پالیسیوں کا تسلسل!!!۔
تو ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ پاکستان بننے کے بعد سرکاری لوگوں نے پاکستان کو یہی کلچر دیا ہے کہ پالیسوں کا تسلسل نہیں ہو گا اور اس تسلسل کے ٹوٹنے کا الزام بھی کسی اور ہی کے سر دیا جائے گا!!۔
کبھی نو من تیل نہیں ہوتا
اور کبھی آنگن ٹیڑھا ہوتا ہے
ورنہ جی رادہا نے وہ ناچ دیکھانا تھا کہ گھنگرو ٹوٹ جاتے
ہاں اب وقت ہے کہ خود کو عوامی نمائیدے سمجھنے والے اگے آئیں اور انتخابات کا انتظام کریں
اب بھی اگر ندا خان اعلان کرئے کہ وہ انتخابت کروانے جارہا ہے
اور مجھے نہیں امید کہ کمیونٹی اس بات میں دلچسپی ناں لے۔
دو ہزار دس والے الیکشن میں جو لوگ جیتے تھے
وہ لوگ ہارنے والوں کو ساتھ لے کر انتخابات کی بات کریں بلکہ انتظامات کریں
تو
یہی ہوں گے اصلی والے الیکشن
اور اس میں جیت کر انے ہوں کے اصلی نمایندے
لیکن پاکستان کے لوگ جو ہر معاملے میں سرکاری ملازمین کی مدد کے منتظر ہوتے ہیں
وہ لوگ یہ کام کر سکیں گے؟
جواب ہے
نہیں !!!۔
1 comment for “پاج الیکشن ، ماضی حال مستقبل ،امیدیں اور خدشات ۔ تحریر خاور کھوکھر”