۔طیب خان ۔ٹوکیو
(پاک جاپان نیوز رپورٹ)جمعتہ المبارک ۷۰ صفر المظفّر۴۳۴۱ھ ۱۲دسمبر۲۱۰۲ٹوکیو جاپان:۔تحریر شروع کرنے سے پہلے بہادر شاہ ظفر کے چند اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں
تاکہ اس تحریر کو سمجھنے میں انہیں آسانی ہوجائی۔
نہ کسی کی آنکھ کا نورہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آسکی میں وہ ایک مشت غبار ہوں
نہ تو میں کسی کا حبیب ہوں نہ تو میں کسی کا رقیب ہوں
جو بگڑ گیا وہ نصیب ہوں جو اجڑ گیا وہ دیار ہوں
مندرجہ بالا اشعار بہادر شاہ ظفر نے جب کہے جب وہ قریب المرگ تھے اور زندگی سے مایوس ہوچکے تھی۔ اسی طرح ہماری پاکستانی کمیونٹی میں ایک بزرگ ہیں جو کہ بالکل مایوس ہوچکے ہیں اور بہادر شاہ ظفر والی تاریخ دوہرانے چلے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ میں خود ساختہ ایسوسی ایشن کا جنرل سیکرٹری ہوں، تو کبھی کہتے ہیں میں کوآرڈینیٹر ہوں۔
کبھی کہتے ہیں کہ میں فلانی سیاسی جماعت کا بانی ہوں۔
کبھی کہتے ہیں کہ اب میں فلاں سیاسی جماعت میں شامل ہورہاہوں۔
یاد رہے کہ موصوف اپنے ایک دستِ راست کے ساتھ مل کر جاپان میں سیاسی پارٹیوں اور پاکستان ایسوسی ایشن کو دھڑوں میں تقسیم کرنے میں کمال کی مہارت رکھتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ اس سیاسی جماعت کو نظر بد سے بچالے جس مین انھوں نے حال ہی میں شمولیت کا اعلان کیا ہے ۔ جس میں ہمارے کچھ بہترین دوست بھی شامل ہیں۔ اور اس کے قائد پاکستان میں غریب اور مظلوم لوگوں کے حقوق دلوانے میں سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ اس جماعت اور اس کے کارکنوں کی یہ خوبی ہے کہ وہ سب ایک پلیٹ فارم پر جمع نظر آتے ہیں ۔
شائد یہ خوبی ان صاحب کو ایک آنکھ نہیں بھارہی ہے ابھی تو انکے قلم سے کئے گئے دستخط کی سیاہی بھی نہیں سوکھی جس کے ذریعے موسوف
نے ایک سیاسی پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا ۔ اس لئے انہوں نے پارٹی میں شامل ہونے کی
دوسرے ہی روز کمیونٹی الیکشن ۳۱۰۲ء کے خلاف بیان داغ دیا۔
جبکہ پارٹی کا موقف واضح ہے کہ وہ الیکشن ۳۱۰۲ء کی بھرپور حمایت کرے گی۔ اب وہ اپنی جھوٹی انا کو تسکین پہنچانے کے لئے پارٹی کے اندرونِ خانہ اپنے حامی بنانے کی کوشش کریں گے جیس وہ پہلے کرتے آئے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ یہ شرط بھی رکھنے کا پروگرام بناچکے ہوں کہ اگر پارٹی کا نامزد امیدوار الیکشن میں جیت گیا تو ان کو جنرل سیکرٹری کی پوسٹ پر براجمان کردیا جائے گا ۔کیونکہ انھیں جنرل سیکریٹری کا ۵۲ سالہ تجربہ حاصل ہی۔ اور اگر ان کا یہ مطالبہ مان لیا گیاتو وہ الیکشن کی مخالفت سی
دستبردار ہو جائیں گی۔ اگر واقعی ایسا ہوا تو یہ کمیونٹی کے ساتھ سنگین مذاق ہوگا۔
ان صاحب نے ایک ایسوسی ایشن لمیٹڈ کمپنی کی طرز پر بنارکھی ہی۔ یہ شائد ان کو بھی معلوم ہوگا کہ انہوں نے یہ کس آئین کے تحت تشکیل دی ہے مگر دوسرون کو آئین کے بارے میں سمجھاتے ہیں اوران سے آئین کے بارے میں سوالات بھی کرتے ہین۔ خیال یہ ہے کہانھوں نے اپنا آئین بھی خود ہی بنایا
ہوگا۔ جب ان کوکمیونٹی کی طرف سے زیادہ لعنت ملامت کی جاتی ہے تو وہ وقتی طور پر کہنے لگتے ہیں کہ میں اس ایسوسی ایشن کو ختم کررہا ہوں یا ضم کرآیا ہوں۔ لیکن انہوں نے آج تک اپنا یہ قول نہیں نبھایا اور ہمیشہ مکاری سے کام لیا۔ نہ تو ان کو کوئی شرم آتی ہے اور نہ ہی کوئی حیا باقی ہی۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے علامہ
اقبال کہہ گئے ہیں۔
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام بدنام نہ ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
میں ان سب حقائق کو اس لئے تحریر میں لارہا ہوں تاکہ کمیونٹی ان کے منصوبوں سے بخوبی آگاہ ہوجائے اور ان کی حرکات پر گہری نظر رکھی۔ ان کو ہر پلیٹ فارم سے مسترد کرنے کی ضرورت ہی۔ ورنہ اس طرح کے بہروپیئے طرح طرح کے روپ دھار کر کمیونٹی کے معصوم لوگوں کو گمراہ کرتے رہیں گی۔ اور ان کو اکائیوں میں تقسیم کرکے اپنے مقاصد پورے کرتے رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ ان طالع
آزمائوں کی شاطرانہ چالوں سے محفوظ رکھی۔ آمین
نہ مظلوم کی آہ و زاری سے ڈرنا نہ مفلوک کے حال پر رحم کرنا
ہوا و ہوس میں خودی سے گزرنا تعیش میں جینا نمائش پہ مرنا
خوابِ غفلت میں بے ہوش رہنا دم نزع تک خود فراموش رہنا