(جاپان انٹرنیشنل پریس کلب سٹاف نیوز)۴۲:۵۱بدھ۲۱صفرالمظفّر۴۳۴۱ھ۶۲دسمبر۲۱۰۲ٹوکیو
جاپان:۔سب سے پہلے میں اُن تمام حضرات کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے مجھے ٹیلی فون کرکے اور مختلف تقریبات میں ملاقات پر میرے لکھے کالم اور تنقیدی مضامین کو پسند کیا اور موجودہ صورت حال میں کمیونٹی الیکشن کے پس منظر میں ایک بھرپور کالم لکھنے کی درخواست کی میری ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ سچ بولا اور لکھا جائے لہذا اپنی سچی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے کمیونٹی الیکشن پر ایک تنقیدی جائزہ چند بہترین مشوروں کے ساتھ پیش خدمت ہی۔ کالم لکھنے سے پہلے میں سوچ رہا تھا کہ آخر سفارت خانہ پاکستان کو ایسوسی ایشن کی ضرورت کیونکر محسوس ہو رہی ہی؟ عام مشاہدہ یہ ہے کہ امریکہ‘ انگلینڈ‘ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے ممالک میں اعلیٰ سرکاری افسران اعلیٰ سیاسی وحکومتی شخصیات کا آناجانا لگا رہتاہی۔ ُان وی آئی پیز اور اُن کی فیملیز کو ائر پورٹس سے لانا لے جانا۔ اُن کے ناز نخرے اور دیگر اخراجات اٹھانے کیلیئے ان ممالک میں سفارت خانوں کو امیر کبیر افراد کی ضرورت پڑتی رہتی ہی۔ اس لیے یہ افراد متعلقہ سفارت خانہ کی خفیہ سر پرستی سے ایسوسی ایشن کے عہدے دار بن کر بے دریغ خرچ کرتے ہیں بدلے میں ان وی آئی پیز سے اپنے ذاتی اور کاروباری تعلقات پیدا کرتے ہیں مگر جاپان جیسے ملک میں وی۔آئی ۔پیز کی آمد انتہائی محدود ہے سال بھر میں ایک یا دو مرتبہ ہی کوئی وی۔آئی۔ٖپی شخصیت جاپان کے دورے پر تشریف لاتی ہے جسکی وجہ جاپان میں یورپ اور امریکہ سے زیادہ مہنگائی اور ’’زبان‘‘ جیسے مسائل ہیں۔ اگر ہم سفارت خانہ کی نیت میں سچائی پر یقین کر لیتے ہیں کہ وہ یہ سب کچھ کمیونٹی کے اتحاد اور بھلائی کیلئے کر رہے ہیں تو پھر اُن کے طریقہ کار پر بے شمار سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ مگر میں یہاں چند مفید مشورے دینا چاھتا ہوں۔
کمیونٹی مشاورت اور ہوم ورک کیئے بغیر الیکشن کی تاریخ کا اعلان اور پھر سمجھ میں نہ آنے والی لمبی تاریخ دینا۔ سفارت خانہ کا الیکشن سے راہ فرار اختیار کرنا تصور کیا جا رہا ہی۔ کمیونٹی میں یہ افواہ بھی پوری شدت سے گردش کر رہی ہے کہ اب شاید الیکشن نہ ہوں۔ قارئین اکرام سفارت کاری ایک انتہائی نازک ‘
نفیس’ حساس اور باوقار عمل اور سلسلہ کا نام ہے کمیونٹی الیکشن شیڈول میں بے ربط اونچ نیچ سفارت کاروں کی اہمیت پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے جس سے اجتناب برتا جائے اور مستقل مزاجی سے کام لیا جائی۔
V ماضی قریب میں میرا تعلق اسٹیبلیشمینٹ اور بیورو کریسی سے رہا ہے ملٹری اسٹیلیشمینٹ نے اگر کوئی کام (الیکشن) نہ کروانا ہو تو وہ اسکی تاریخ بڑھا کر آگے کر دیتی ہے اور اگر سول بیورو کریسی نے کوئی کام نہ کرنا ہو تو وہ اس پر ایک کمیٹی یا کمیشن قائم کر دیتی ہی۔ بد قسمتی سے ہمارے سفارت کاروں میں دونوں خوبیاں بدرجہ اِتم موجود ہے سفارت خانہ کے لئے ایک بہترین راستہ موجود ہے کہ وہ مکمل مشاورت سے اپنی سر پرستی میں کمیونٹی کی چند تعلیمیافتہ ‘ قابل اور بااثر شخصیات پر مشتمل الیکشن کمیشن بنا کر الیکشن پراسس کو مکمل کروائے تاکہ سفارت خانہ کا وقار مجروح نہ ہونے پائی۔
ایسوسی ایشن کو کسی بھی دوسرے ملک میں موجود تمام کمیونٹی اراکین کی نمائندگی کا حق حاصل ہوتا ہی۔ بعض معاملات میں تو ایسوسی ایشن کی اہمیت سفارت خانہ سے بھی زیادہ خیال کی جاتی ہے اس قدر
اہم ذمہ داری اہلیت جانچے بغیر ہر کسی کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دینا سمجھ اور عقل سے بالا تر ہی۔ تعلیمی قابلیت کے ساتھ ملکی معاملات پر مضبوط گرفت اور اپنے ملک کا مٶقف بہترین انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت مثلاًدہشت گردی کے خلاف پاکستان کا کردار‘ ملک کی غیر یقینی صورت حال کے بارے میں امیدواروں کا نقطئہ نظر اور خیالات جاننے کے لیے تقریری مقابلہ کروایا جائی۔ صدارت اور نائب صدر کے امیدواروں سے صرف ان کے نام ‘ پتہ اور پاسپورٹ نمبر ہی نہیں بلکہ وہ اپنی ایک مکمل سی وی بنا کر دیں۔ جس میں وہ یہ بھی لکھیں کہ ان کا پیشہ کیا ہی۔ پچھلے تین سالوں میں وہ کتنا عرصہ جاپان میں رہے ہیں۔ اب تک انہوں نے کونسے فلاحی اور رفاہی کاموں میں حصہ لیا ہے جاپانی معاشرے میں اُن کا مقام اور جس علاقہ میں وہ رہائش پذیر ہیں وہاں کی مقامی حکومت سے اُن کے تعلقات کو بھی اہمیت دی جائے کیونکہ ایسوسی ایشن نے جاپان میں رہ کر ہی کام کرنا ہی۔ جاپانی زبان پر عبور اضافی قابلیت تصور کی جائی۔
الیکشن پراسس کی تکمیل کیلیئے تمام امیدواروں سے مناسب فیس بھی وصول کی جائی۔ الیکشن فیس
ادا کرنے سے تمام امیدواروں میں اعتماد پیدا ہوگا اور وہ ہر معاملہ میں ’’یس مین‘‘ بننے کی بجائے اپنی رائے کا اظہار بہترین انداز میں کر سکیں گی۔
وہ شخصیات جنہوں نے پاکستانی قومیت کو خیرباد کہ کر جاپانی نیشنلٹی اختیار کرلی ہی۔ اب اُن کا سفارت خانہ پاکستان میں آنا جانا اور کمیونٹی معاملات میں بے جا مداخلت ایسے ہی ہے جیسے کسی عورت کا اپنے شوہر سے طلاق حاصل کرنے کے بعد بھی اس سے تعلقات قائم رکھنا۔ لہذا ایسے حضرات کو ضرورت سے زیادہ اہمیت ہرگزنہ دی جائے تاکہ سچے اور حقیقی پاکستانیوں میں احساس کمتری پیدا نہ ہو اور وہ اپنے پاکستانی ہونے پر ہی فخر محسوس کریں۔
آخر میں میری ذاتی رائے ہے کہ ایمبیسی کو پاکستانی کمیونٹی کے سیاسی معاملات میں مداخلت سے اجتناب ہی اختیار کرنا چاہیے اور اگر ایمبیسی کمیونٹی الیکشن کروانا چاہتی ہے تو پھراسے پیچھے رہ کر اپنی زیر نگرانی الیکشن کمیشن بنا کر یہ کام سرانجام دینا چاہیے سفارت خانہ کی ڈائریکٹ مداخلت مزید پیچیدگیاں پیدا کر دے گی۔
منجانب
میاں محمد طاہر مجید
# 090-3200-1761 Tel