فقیہانِ شہر کی تحقیر کیا مجال میری۔تحریر: ظہیر دانش
E-Mail: zaheer.danish@hotmail.co.jp
نبی کریم ؐ کی ذاتِ مبارکہ پر کچھ کہنے سے پہلے ہمیں اپنی حیثیت کا تعین بھی کرلینا چاہئیے کہ آیا ہم اس قابل ہیں کہ نبی کریم ؐ کے نام مبارک ، سیرت طیبہ پر اپنے منہ کھولیں۔ کیا ہم کردار میں ایسے ہیں کہ نبی کریم ؐ کی شفاعت کے حق دار ٹہریں؟میرے پیارے نبی ؐ کی سیرت و اعلیٰ کردار کی تو مشرکین بھی گواہی دیتے تھے کہ آپؐ صادق و امین ہیں، اور یہاں اس نبی ؐکے نام پر حلوے مانڈے اور پونجیاں جمع کر نے والے ہم پیدائشی مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ ہمارے کردار کی تو ہم کلمہ، ہم مذہب و ہم وطن بھی گواہی نہیں دیتا ۔ میرے نبی ؐ کی اعلیٰ صفات کو تو مشرکین مکہ بھی مانتے تھے جنہیں ہم جاہل کہتے ہیں۔ اگر موٹی موٹی کتابوں کو پڑھنے سے ،چاٹنے سے ،نقل کرنے سے شعور آتا تو پھر ہماری طرح کا کردار سے عاری ہر منہ بولا مسلمان باشعور ہوتا۔ اللہ تبار ک وتعالیٰ نے اگر کتابوں کے ذریعے ہی سے سمجھانا ہو تا تو پھر کسی نبی کی کیا ضرورت تھی؟ کتابوں سے علم آتا ہی، شعور تو اُستاد ہی سکھاتا ہی، قرب و جوار کے ماحول سے آتا ہی۔ رحمت العالمین ؐ کی سیرت طیبہ کو دیکھ کر تو مشرکین ایمان لاتے تھے ،آپ ؐکے اعلیٰ او صاف کی تعریف کرتے تھے ۔ہم نبی آخر الزماں رحمت العالمین ؐ کے اُمتی ہونے کے وہ دعویدارہیں جن میں کردار غائب اور صرف دعویٰ پرسارے جہاں میں خلیفہ گیری کا شوق فرمانے کی مشقیں کرتے پھر رہے ہیں ۔ میں یہ سوچتا ہوں کہ ہم اپنی بہت سی تقریبات مذہب کے نام پر اُن ممالک میں منا نے کا اہتمام کر تے ہیں جن کے خدا یا خداؤں کاہم کھلم کھلا انکار کرتے ہیں، اُن کے کسی بھی حوالے ،کسی بھی مذہبی انسان یا شخصیت کی ہمارے نزدیک کوئی وقعت نہیں ہوتی ۔ اُن کے جنازوں میں بھی اس طرح جاتے ہیں کہ جیسے یہ ہمارا اُن پر احسان ِ عظیم ہو۔ اس کے باوجود یہ غیر مذہب اقوام یا ملک ہمیں ہمارے مسلک یامذہب کے مطابق عبادت گاہیں تعمیر کرنے کی اجازت دیتے ہیں ، مذہبی اجتماعات سے لے کر جشن میلاد النبی ؐ کیلئے جلوس نکالنے کی ناصرف اجازت دیتے ہیں بلکہ سلامتی بھی فراہم کرتے ہیں۔ ٹوکیو جیسے مصروف کاروباری علاقے میں جلوس کیلئے ٹریفک بھی کنڑول کرتے ہیں۔ یہ تمام سہولیات وہ لوگ فراہم کرتے ہیں جن کا ہمارے مذہب سے دور کا بھی واسطہ نہیںاور نا ہی ان کی مذہبی رسومات ہم سے ملتی ہیں ۔ اتنی مہر بانی کے باوجود افسوس کہ یہ لوگ جہنمی اور ہم شناختی کارڈ دیکھ کر لسانی یا مسلکی تعصب میں بے گناہوں کی جانیں لینے کے باوجودپارسا رہتے ہیں۔ذہنی جنون وعشق کے باب کی ساری روحانی و جسمانی مہمات و فتو حات ہم نے بغیر کردار و افکار کے اپنے نام کی ہوئی ہوتی ہیں ، جنت ہماری پہونچ سے اتنی دور جتنی دور ہم سے ہماری قبر۔ کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ متحدہ عرب امارات، قطر ، کویت اور سعودی عرب میں لاکھوں پاکستانی بستے ہیں لیکن وہاں عاشقانِ رسول ؐ مذہب کے نام پر ریلیاں اور جلوس کیوں نہیں نکالتے ؟ وہاں کی سڑکوں پر یہ مذہبی متوالے نُور کیو ں نہیں پھیلاتی؟وہاں پر کسی کارٹوں کی اشاعت پر کوئی احتجاج کیوں نہیں ہوتا ؟جن لوگوں کا ہم سے خدا بھی ملتا ہی، رسولؐ بھی ایک ہی،تمام انبیاء اکرام بھی یکساں ہیں ،جنت دوزخ پر ایمان بھی ایک ہی، فرشتوں کے ناموں سے لے کر اُن کے فرائض تک ازبر با حسب ِ توفیق و با حسب ِ ضرورت یاد بھی ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم جب اپنے ہی ان ہم کلمہ ،ہم مذہب بھائیوں کے ملک میں ہوتے ہیں تو انسان کے بچوں کی طرح رہتے ہیں، کوئی شرارت بھی نہیں کرتے ،جلسی، جلوس ، اٹکلیاں و ریلیاں بھی نہیں نکالتے اور نہ ہی کسی طرح کی کوئی ضد کرتے ہیں؟ جس نبی ؐ کے یوم ولادت پر غیر مسلم ممالک میں ریلیاں ، جلسے جلوس ،نکالنے کو اپنی انا کا مسئلہ بنائے ہوتے ہیں اُس کا عشر ِ عشیر نبی کریم ؐ کے شہر مدینہ یا مکہ میں نظر بھی نہیں آتا۔کم ازکم میں نے مکہ یا مدینہ کی سڑکوں پر پاکستان یا ٹوکیو کی طرح کوئی جلوس نہیں دیکھا۔ ساری اٹکلیاں وہاںایسی کافور ہوتی ہیں جیسے سر سے سینگ۔ حالانکہ اس قسم کی تمام روحانی تقریبات کا مزا تو پیارے نبی ؐ کے شہر میں ہی آسکتا ہی۔ کیا وجہ ہے کہ جب سعودیہ میں ہوتے ہیں تو تقریبات غائب ،یہود و نصاری کے یہاں آتے ہیں تو انا کا مسئلہ، ایمان کا مسئلہ بنایا ہوتا ہی۔
چار چار لائنیں لکھ کر علامہ فلاں بِن فلاں کی اداکاری کرنے والے ،عربی کو اُردو یا پنجابی سمجھ کر ماہرانہ کلام کرنے کی اداکاری کرنے والے جب عاشقانِ رسول ؐ کہنے یا لکھنے پر اعتراض کر رہے ہوتے ہیں یا لکھ رہے ہوتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ زینبُو وکارو(سب کچھ جانتا ہے بہت علم ہے ) ۔حیدرآبادی مُنڈی سے ایسی ایسی دور کی کوڑی لائی جاتی ہے کہ دماغ بھنّوٹ ہو جائے ۔ لیکن اچانک اِسی محبان رسول ؐ کی تقریب کی اشتہاری مہم پر عاشقانِ رسول لکھنے یا کہنے پر اس لیے بولتی بند کر لیتے ہیں کہ کمیٹی نے چار لائن کا عالم سمجھ کر انہیں منہ لگا لیا ۔ یعنی منہ لگا یا تو ٹھیک ورنہ بلیک میل کرکے اپنی جگہ بنانی ہی، لوگوں کی دل آزاری کرنی ہی، شاید اِنہیں لوگوں میں تفرقہ ڈالنے اور اُنکے جذبات مجروح کرنے سے دلی تسکین ہوتی ہی؟ ۔ ’’ اپنی حدوں میں رہئیے کہ رہ جائے آبرو ‘‘۔ بے ایمان افروزی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ زلزلہ اور تسونامی جیسی قدرتی آفت کا شکار ہمارا محسن ملک جاپان اور تباہ ہونے والے جاپانی بھائیوں کا حق مار کر چار سو مان (چالیس لاکھ روپی) سیاسی مشغلے کیلئے چوری چھپے پاکستان بھیجے جاتے ہیں۔ ٹیکس بچانے والے اپنی مرکز ،کبھی مسجد، کبھی ادارہ وغیرہ وغیرہ میں چالیس لاکھ روپے بغیر حساب کتاب بھیجنے کے باوجود، نان پروفٹ آرگنائزیشن کے نام پر قائم ۔زمین پر سیاسی ہلڑ بازی کیلئے کس دیدہ دلیری سے مزید چندہ اکھٹا کررہے ہوتے ہیں او ر ہلڑ بازی بھی وہ جس کا جاپان میں رہنے والے جاپانی تو دور جاپان میں رہنے والے پاکستانیوں سے بھی دور کا واسطہ نہیں ہوتا۔یہ چندہ گروپ این پی اوکے نام سے قائم ٹیکس ادا نہ کرکے اپنے جاپانی بھائیوں کا حق مار کر کس منہ سے اپنے مذہبی ہونے کا دعویدار کرتا ہی؟ یہی مذہب کی خدمت ہی؟ شرم مگر تم کو نہیں آتی۔ نہ جانے کیوں جاپان کے ٹیکس لینے والے ادارے اور اس قسم کے غیر قانونی چندہ مافیا پر نظر رکھنے والے ادارے خاموش ہیں۔لیکن کب تک آخر ایک نہ ایک دن وہ سب چیک کرینگے کہ جاپان میں اسلام کی آڑ میں کیا ہورہا ہی۔وہ دن عنقریب آنیوالا ہے کیونکہ دیر ہوسکتی ہے اندھیر نہیں ۔
جاپان میں رہنے والے جاپانیوں کے ممنون و مشکور امن پسند ، عام پاکستانی سوچ میں ڈوبے ہوئے ہیںکہ ان جیسے مذہبی نو ٹنکی کر نے والوں کو اگرنہ روکا گیا تو یہ مذہبی نو سر باز ہمارے محسن ملک جاپان کا وہی حشر کریں گے جو یہ اپنی ماں یعنی مادر وطن کا کر کے آئے ہیں۔ یہ زینبو وکارو مافیا آج سے ایسی نہیں، بلکہ صدیوں سے ان کا یہی طریقہ ٔواردات ہے ۔ ہم جاہل عوام اپنی لا علمی، نادانی ،بے وقوفی کی وجہ سے ان کو اور ان کے بنائے ہوئے بتوں کو پوجنا شروع کردیتے ہیں ۔ یہ صدیوں سے مذہب پھیلارہے ہیں اور ہم کم عقلی میں الفاظوں کے چکر کو دین کی خدمت سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔ دین پھیلانے کو اگر سمجھنا ہو تو آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی شخص کو بہت پیاس لگی ہو اور صرف ایک گلاس ہی پانی ہو جس میں اس تشنہ لب کی جان اٹکی ہو اور اگر کوئی اس پانی کو گرادی، پانی زمین پر گر کر پھیل جائے تو اسے تشنہ لب کی آبیاری نہیں کہا جاتا بلکہ وہاں پھیلانے سے مراد یہی ہوتی ہے کہ پانی ضائع کر دیا۔ یہی یہ مذہب کے نام پر پونچی جمع کرنے والے کر رہے ہوتے ہیں اور ہم پھیلانے (ضائع کرنے ) کو پھیلانا (دین کی خدمت) سمجھ کر ان کی ہر ادا کاری کو دین یا مذہب سمجھ کر اندھی تقلید کر رہے ہوتے ہیں۔ اس قسم کے ذہنی مریضوں کیلئے بہت سی دوائیاں ایجاد ہوئیں لیکن انہوں نے پولیو کے قطرے پلانی والی غریب، کمزور، معصوم خواتین کی طرح ان دوائیوں کو مسیحاؤں سمیت زمین کے پیٹ میں اُتار دیا ،یا اتنا بد نام کیا کہ وہ اپنے ان ہم کلمہ، ہم مذہب ،ہم وطن ،منہ کھولے اُجرتی مسلمان بھائیوں سے بھاگ کر یہود و نصاریٰ کے پر امن ملکوں میں جائے پناہ تلاش کرنے ہی میں اپنی اور اپنے اہل خانہ کیلئے عافیت سمجھتے ہیں۔ یعنی زور کس پر پڑا؟ یہود و نصاریٰ پر؟لادینی معاشرے پر کہ یہاں تو ہم خود کو بالکل محفوظ سمجھتے ہیں اور اسکی مثالیں پاکستان میں اپنے گھروالوں ، دوستوں اور ہر جاننے والے کو سُناتے ہیں لیکن اپنے ہی وطن میں غیرمحفوظ وغیرمطمئن ہوتے ہیں ۔یعنی جہاں اسلام اور اسلام کے ہم جیسے عظیم پیروکار ، ہم جیسے عظیم علامہ ، ہم جیسے عظیم مفتی ، ہم جیسے عظیم سیاستدان، ہم جیسے عظیم ڈاکٹر پروفیسر موجود وہ وطن تو آگ ، بدامنی ، لسانی ، مسلکی ، علاقائی ، انسانیت سوز جرائم کا الاٶ بنا ہوا ہے جسے ہم عالم کُفر قراردیں وہ امن اور مذہبی آزادی کی ایسی مثال کہ ہم لہک لہک کر سب گھر والوں اور دوستوں کو بتاتے ہیں اور ہمارا بس نہیں چلتا کہ جلد سے جلد بمع اہلِ وعیال کے کینیڈا، امریکہ ، برطانیہ ، سوئٹزرلینڈ،جاپان وغیرہ میں جابسیں ۔اپنے گھر سے تو بھاگ رہے ہو تو دوسرے کے وطن کو تو اُس آگ میں نہ جھونکو جو خود ہمارے وطن کو جلاکر راکھ کا ڈھیر بنارہی ہی۔
محترم مولانا ابو الا علیٰ مودودی ؒ نے اس قسم کے امراض کی طرف آج سے تقریبا ً چھ دہائی پہلے نشاندہی کی تھی آئیے محترم مولانا مودودی ؒ کی زبانی سنتے ہیں کہ وہ کس طرح اِن امراض کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ذیل میں مولانا کی کچھ تحریریں حاضر ہیں جن سے ماضی اور حال کی عکاسی ہوتی ہی۔ان تحریروں کو غور سے پڑھا جائے تو شاید آپ حقائق کو اچھی طرح سمجھ سکیں گی۔ جوکچھ آج ہمارے ارد گرد جاپان میں ہورہا ہے اسمیں اُسکی بھی جھلک واضح دیکھی جاسکتی ہی۔
’’مغلوں کے زمانہ میں عام طور پر جوحالت طبقۂ متوسط کی تھی وہی علماء کی بھی تھی ۔ اُن میں بیشتر وظیفہ خوار تھے ۔کسی نا کسی بادشاہ یا امیر یا دربار سے وابستہ ہوجانا ، اُس کے وظیفے کھا کر اُس کی منشا ء کے مطابق دین اور دینی قوانین کی تعبیر کرنا ، اپنے ذاتی مفاد کو دین کے تقا ضوں پر مقّدم رکھنا اُن کا شعار تھا‘‘۔ (ترجمان القرآن دسمبر 1951 ء،جنوری 1952ئ)
ٓ’’آپ کے ہاں امامت کا معیار حد سے زیادہ پست ہو چکا ہی۔ جو منصب مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں سب سے زیادہ اہم تھا وہ اب سب سے زیادہ غیر اہم ہے ۔جس منصب کیلئے بہتر سے بہتر آدمی منتخب کرنے کا حکم تھا اب اس کیلئے بد تر سے بد تر آدمی چھانٹا جاتا ہے ۔ مسلمانوں کے ذہن میں اب’’ امام‘‘ کا تصور یہ ہے کہ جو شخص دنیا کے کسی اور کام کا نہ ہو اُس کو مسجد کا امام ہونا چاہئیے ۔ دس پانچ روپے تنخواہ اور دونوں وقت کی روٹی مقّرر کردی اور کسی نیم خواندہ مُلّا کو رکھ لیا ۔یہ گویا مسجد کی امامت کا انتظام ہوگیا۔ امامت کو اس درجہ پست کردینے کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری مسجدیں ، وہی مسجدیں جنہوں نے کبھی ہماری قوم کے قصر ِ فلک کی تعمیرکی تھی ،آج ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہیںجو بے علم ،تنگ نظر ،پست حوصلہ اور دُنی الاخلاق ہیں۔ کیا ہم ان لوگوں سے اُمیّد رکھتے ہیں کہ یہ اُردو میں خطبے دے کر آپ کی دنیوی و دینی رہنمائی کر سکیں گے ..؟ ۔ اس گروہ کو چھوڑ کر اگر آپ نے جمعہ کی امامت کیلئے کسی دوسرے گروہ کا انتخاب کرنا چاہا تو لا محالہ اس کیلئے آپ کو علماء ہی کے طبقے کی طرف رجُوع کرنا ہو گا۔ یا استثناء چند اس طبقے کے سواد ِ اعظم کا جو حال ہے اسے بیان کرنا گویا اپنی ٹانگ کھولنا اور آپ ہی لاجوں مرنا ہی۔ ان حضرات کو اگر آپ نے عام فہم زبان میں من مانے خطبے دینے کا موقع دیا تو یقین جانئیے کہ آئے دن مسجدوں میں سر پھٹول ہوگی۔ اس لئے کہ ان میں کا ہر شخص اپنا ایک الگ مشرب رکھتا ہے اور اپنے مشرب میں وہ اتنا سخت ہے کہ دوسرے مشرب والوں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت کرنا اُس کے نزدیک گناہ سے کم نہیں۔ پھر اللہ نے اُس کی زبان میں ایک ڈنک رکھ دیا ہے جس سے دلوں کو زخمی کئے بغیر وہ کوئی بات نہیں کرسکتا۔ وہ جس ماحول سے تعلیم و تربیت پاکر آتا ہے اور جس ماحول میں زندگی بسر کرتا ہے وہاں دین کے مہّمات اور قوم کے مصالح کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ تمام دلچسپیاں سمٹ کر چند چھوٹی چھوٹی نزاعی باتوں میں جمع ہوگئی ہیں۔ اس لئے لا محالہ وہ جب زبان کھولے گا، انہی مسائل کو کھولے گا، نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کے گھر گالم گلوچ اورجوتی پیزار ہوگی اور آخر کار ہر مشرب کے مسلمان اپنے جمعے الگ الگ قائم کرنے لگیں گی۔ یہ تو مذہبی ذہنیت رکھنے والوں کا حال ہوا۔ رہے نئے تعلیم یافتہ حضرات جو ان مسائل سے دلچسپی نہیں رکھتے ،تو ان پر ایک دوسری مصیبت نازل ہوگی وہ ہر جمعہ کو رسول اللہ ؐ کے منبر پر سے وہ موضوع اور ضعیف رواتیں اور لاطائل کہانیاں اور احکام ِ اسلامی کی غلط تعبیر یں سنیں گے جن کو سن کر غیر مسلموں کا مسلمان ہونا تو درکنار ،ذی ہوش مسلمانوں کا مسلمان رہنا بھی مشکل ہی۔ مذہبی دھڑے بندیوں کے علاوہ اب مسلمانوں میں سیاسی دھڑے بندی کا بھی زور ہورہا ہے جہاں کہیں مولوی قسم کے مسٹروں یا مسٹر قسم کے مولویوں کو امامت و خطابت کا موقع مل گیا ہے وہاں وہ نہایت منہ پھٹ اور بے لگام طریقے سے اپنے سیاسی مسلک کی تائید اور مسلک ِ مخالف کے لوگوں کی تذلیل و تضحیک و تغسیق کرنے لگے ہیں۔ یہ ایک اور فتنہ ہے جو اگر کچھ زیادہ بڑھ گیا تو مسلمانوں کیلئے مل کر نماز پڑھنا بھی مشکل ہو جائیگا، مسجدوں میں وہ کچھ ہونے لگے گا جو پولنگ اسٹیشنوں پر ہوا کرتا ہی۔ اور بالآخر ہر سیاسی مسلک کے لوگوں کی مسجدیں الگ ہو کر رہیں گی‘‘۔ ( تفہیمات ،ص 358-359 حصّہ دوم، از:سیدمولانا ابوالاعلیٰ مودودی )
’’علماء کی عام حالت یہ ہے کہ وہ زمانے کے موجودہ رُجحانات اور ذہنّتوں کی نئی ساخت کو سمجھنے کی قطعاًکوشش نہیں کرتے جو چیزیں مسلمانوں کی نئی نسلوں کو اسلام سے بیگانہ کر رہی ہیں اُن پر اظہار ِ نفرت تو ان سے جتنا جی چاہے کر الیجیئے لیکن اس زہر کا تریاق بہم پہنچانے کی زحمت وہ نہیں اُٹھا سکتی۔ جدید حا لات نے مسلمانوں کیلئے جو پیچیدہ عملی اور علمی مسائل پیدا کر دیئے ہیں ، ان کو حل کرنے میں ان حضرات کو ہمیشہ ناکامی ہوتی ہے اس لئے کہ ان مسائل کا حل اجتہاد کے بغیر ممکن نہیں اور اجتہاد کو یہ اپنے اُوپر حرام کر چکے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات اور اُس کے قوانین کو بیان کرنے کا جو طریقہ آج ہمارے علماء اختیار کر رہے ہیں وہ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو اسلام سے مانوس کرنے کے بجائے اُلٹامُتّنفر کر دیتا ہے اور بسا اوقات ان کے مواعظ سن کر یا ان کی تحریروں کو پڑھ کر بے اختیار دل سے یہ دُعا نکلتی ہے کہ خدا کرے کسی غیر مسلم یا بھٹکے ہوئے مسلمان کے چشم و گوش تک یہ صدائے بے ہنگام نہ پہنچی ہو‘‘۔ (تنقیحات ؎۸۲۔از:سیدمولانا ابوالاعلیٰ مودودی )
’’ایک طرف ترکی قوم میں اتنے بڑے انقلاب کی ابتدا ء ہورہی تھی ۔ دوسری طرف ترکوں کے علماء اور مشائخ تھے جو اب بھی ساتویں صدی کی فضاؤں سے نکلنے پر آمادہ نہ تھے ۔ اُن کے جمود ،اُن کی تاریک خیالی ، اُن کی رجعت پسندی اور زمانے کے ساتھ حرکت کرنے سے اُن کے قطعی انکار کا اب بھی وہی حال تھا جوسلطان سلیم کے زمانے میں تھا وہ اب بھی کہہ رہے تھے کہ چوتھی صدی کے بعد اجتہاد کا دروازہ بند ہوچکا ہی، حالانکہ اُن کی آنکھوں کے سامنے الحاد کا دروازہ کھل رہا تھا وہ ابھی تک فلسفہ و کلام کی وہی کتابیں پڑھنے پڑھانے میں مشغول تھے جن کو پھینک کر زمانہ پانچ سو برس آگے نکل چکا تھا۔ وہ اب بھی اپنے وعظوں میں قرآن کی وہی تفسیریں اور وہی ضیف حدیثیں سنارہے تھے جن کو سن کر سو برس پہلے تک کے لوگ سر دُھنتے تھے مگر آج کل کے دماغ اُن کو سن کر صرف ان مفسّرین و محدثین ہی سے نہیں بلکہ خو د قرآن و حدیث سے بھی منحرف ہو جاتے ہیں۔ وہ ابھی تک اصرار کر رہے تھے کہ تُرکی میں وہی فقہی قوانین نافذ کئے جائیں جو شامی اور کنزالدّقالق میں لکھے ہوئے ہیں، خواہ اس اصرار کا نتیجہ یہی کیوں نہ ہو کہ تُرک انقوانین کے اِتّباع سے بھی آزاد ہو جائیں جو قرآن و سُنّت ِ رسول ؐ میں مقّرر کئے گئے ہیں‘‘۔(تنقیحات ؎ص:۰۷، از:سیدمولانا ابوالاعلیٰ مودودی)
آج اگر ہم محترم مولانامودودی ؒکے چھ دہائی قبل مُلا مافیا یا چندہ مافیا پر کئے گئے مذکورہ حقیقی و برمحل تجزیہ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنے اردگر بہتر صورتحال آج بھی نظر نہیں آتی۔ شاید ہماری حالت سدھر ہی نہیں سکتی۔ ہم منہ کھولے مسلمان، منہ بولے اسلام اورمنافقین کو گود لیے غلطی پر غلطی دہرائے چلے جارہے ہیں۔ جب تک جہالت سستی ملتی رہے گی جہالت بنام ِ مذہب بنام ِ ملت ہمیں پولیو کے قطرے بتا کر پلائی جاتی رہے گی۔ ہم کبھی بھی عام اقوام و ملکوں کی طرح ترقیاں، ایجادات ،سہولیات پیدا کرنا تو دور اپنے روز مرہ کے معاملات بھی چلانے سے قاصر ہی رہیںگی۔ ہم کیا کر سکتے ہیں، کیا نہیں، ہمیں نہیں معلوم ہاں ہم میں سے ہر شخص کو ’’حکم ِ اذان ہے ‘‘ جو اس جاپان میں رہنے والوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنے اپنے طور پر تمام تعصبات سے بالا تر ہو کر اس قسم کے مذہبی نو سر بازوں سے اس جاپان میں رہنے والے تمام انسانوں کو بچانے میں اپنا اپنا کر دار ادا کریں۔ تما م تعصبی مذہبی بلیک میلروں ، نو سر بازوں سے بھی خو بصورت الفاظ میں درخواست کر تے ہیں سمجھا رہے ہیں کہ اپنی وارداتوں سے باز آجائیں کہ خلقِ خدا کو مذہب ، مسلک،سیاست اور علاقائی تعصب کی بنیاد پر تقسیم کرنا سراسر اسلام کے منافی ہی۔
ٔ اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیںایسا نا ہو کہ پھر تم مانگتے پھرواپنا غرور عوام الناس سی۔ اُمید ہے کہ سمجھ آجائیگی ورنہ وقت بہت کچھ سکھا بھی دے گا اور سمجھا بھی دیگا ، تاہم اگر وقت کی مار سے بچ گئے تو آخرت میں یوم الحساب سے نہیں بچ سکوگی۔ ہم کمزور عوام تو صرف درخواست ہی کر سکتے ۔خط کے آخر میں لکھا جاتا تھا کہ تھوڑے لکھے کو بہت سمجھنا۔ اگر سمجھ نہیں ہے تو سمجھدار ی کا ناٹک نہ کر سمجھ جا۔ شاعر سے معذرت کیساتھ،
اگر ہو سکا تو عوام ان کو جگائیں گے
بیوقوف سورہے ہیں خوابوں کی گود میں