تحریر: شاہد مجید (آرگنائزر کشمیر یکجہتی فورم جاپان)
11 فروری 1984ء کو مقبول بٹ کو شہید کرتے وقت بھارت سرکار کو یہ ہرگز معلوم نہیں تھا کہ تحریک آزادی کشمیر ایک بار پھر اٹھ کھڑی ہوئی تہاڑ جیل میں پھانسی کی سزا پانے والے خود مختار کشمیر کی بات کرنے والے مقبول بٹ کی میت کو بھارتی سرکار نے جیل کے اندر ہی نامعلوم مقام پر دفن کررکھا ہی۔ 29 برس گزر جانے کے باوجود سری نگر کے قبرستان مزارِ شہداء میں آج بھی مختص کی گئی قبر شہید کشمیر مقبول بٹ کا انتظار کررہی ہی۔ مقبول بٹ شہید کی والدہ محترمہ آج بھی دوسری بے شمار مائوں کی طرح اپنے لخت جگر کا انتظار کررہی ہی۔ مقبول بٹ شہید کی والدہ کو معلوم ہے کہ اس کا لخت جگر ہزاروں لخت جگروں کی طرح اپنی دھرتی کشمیر پر قربان ہوچکا ہے مگر اس کا کہنا ہے کہ آزادی کی صبح ہی اس کے خوابوں کی تکمیل ہے کیونکہ آزادی ہی کشمیریوں کی صبح ہے اور ہر کشمیری کے الفاظ میں میرے کشمیر تو آواز ہوگا۔ مقبول بٹ کا تعلق تری گام (بادہ مولہ) ریاست جموں و کشمیر سے تھا۔ بھارتی حکومت نے مقبول بٹ کے خوف اس کو پھانسی کی سزا تو دے دی مگر آج ہر گھر میں مقبول بٹ موجود ہی۔ مقبول بٹ کا نظریہ آزادی کشمیریوں کے دلوں کی آواز ہی۔ 26 جنوری، 5 فروری، 11 فروری سے لے کر سال کے 365 دن کوئی بھی دن ایسا نہیں جب بھارتی سرکار کے خلاف کشمیر میں احتجاج ہوا ہو ہر کشمیری دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود ہیں ہر جگہ سراپا احتجاج ہیں کشمیر کا مسئلہ ایک فلش پوائنٹ بن چکا ہی۔ بھارتی افواج کے مظالم بھی کشمیر کی آزادی کی تحریک کو نہ تو دباسکے ہیں اور نہ ہی ٹھنڈا کرسکے ہیں۔ کشمیر کا بچہ بچہ بوڑھے نوجوان خواتین نے سمیت تمام حلقوں نے آزادی کا مطالبہ تیز کردیا ہی۔
آج مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر میں آزادی کشمیر کا پرچم بلند کرتے ہوئے شہادت کے جذبے کے ساتھ مقبول بٹ کی برسی منائی جارہی ہی۔ کشمیر کی آزادی کے جیالوں متوالوں خود مختار کشمیر اور کشمیر بنے گا پاکستان کے حامیوں کا ایک ہی نعرہ ہی۔ لے کر رہیں گے آزادی