گزرے کل 12 اکتوبر کا دن مجھ پر بڑا بھاری گزارا ، میری ساری زندگی کی نیک نامی اور رہپوٹیشن داؤ پر لگ گئی تھی
اگر چہ کہ
گزرا کل 12 اکتوبر کئی طرح کی میرے لئے ایک منفرد دن ہے ،اور پاکستانی قوم کے لئے بھی کہ اس دن کئی سال پہلے پاکستان پر روشن خیالی نازل ہوئی تھی تو اج اپنی بہنوں انارکی ، بد نظمی اور بد امنی کے ساتھ ملک بھر میں ناچ رہی ہے ،۔
لیکن ، میں اپنی مصیبت کا لکھتا ہوں
کہ ہوا یو کہ 11 اکتوبر شام کو ایک جاپانی جاننے والے کا فون آیا کہ دو مردہ گاڑیاں ہیں، وہ پیسے دے کر اٹھا لو ، میں نے اس کو اگلے دن صبح فون کرنے کا کہا ،۔
میرے جاننے والوں کو علم ہے کہ پچھلے دو سال میں میرے یارڈ پر بہت چوریاں ہوئی ہیں ،۔
ایک ٹرک ڈمپ ، ایک فورک لفٹ ، کئی دفعہ شوکوبائی ،اور لوہے کی موٹی پلیٹں ،!۔
بلا مبالغہ ملینز روپے کا نقصان ہوا ہے ،۔
شائد اس لئے میں ابھی تک کاروباری طور پر بھی مضبوط نہیں ہو سکا کہ جیسے ہی تھوڑا کیپٹل بنتا ہے کوئی چیز چوری ہو جاتی ہے م،۔
اس چھن جانے کے ڈھڑکے نے صبح جلدی اٹھ کر کام پر پہنچنے کی عادت بنا دی ہے ،۔
کہ جا کر دیکھوں ہر چیز موجود ہے کہ اج پھر کچھ چوری ہو گیا ہے ،۔
فوجی اوکا والے یارڈ پر جہاں کیمرے نہیں لگے ہوئے اور وہاں سے کئی چیزیں چوری ہو چکی ہیں میں وہاں صبح چھ بجے پہنچ چکا تھا
کہ گزرے کل والے جاپانی کا فون آیا کہ
میں کاراچی کے ساتھ والے میکڈولنڈ میں بیٹھا ہوں مجھے یہاں سے لے لو ، میں نے کہا کہ میں فوراً نہیں پہنچ سکتا ، میرا شیڈول ہے ، اس میں سے وقت نکال کر دیکھنا ہو گا ،۔
اس شناسا جاپانی کے پاس فون نہیں ہے ، اس لئے اس کا فون سکّے والے فون سے تھا اور سکّے والے فون کا نمبر موبائل پر نہیں آتا اس لئے اس کو میں فون نہیں کر سکتا ، جب بھی رابطہ کرنا ہوتا ہے وہ خود ہی کرتا ہے ،۔
جب میں نے شیڈول کی بات کی تو وہ کہنے لگا سکّے ختم ہو رہے ہیں ، میرے پاس پیسے بھی نہیں ہیں ، میں بس میک میں انتظار کر رہا ہوں ،۔
اور لائین کٹ گئی !!،۔
اس چیز نے مجھے پریشان کر دیا کہ اگر میں سارے کام چھوڑ کر وہاں نہیں پہنچا تو یہ بندہ سارا دن اور ہو سکتا ہے کہ سای رات بھی وہیں بیٹھا رہے ،۔
کیونکہ دو پہلے ہی اس بندے کے ساتھ کئی سال بعد ملاقات ہوئی تھی اور اس کے ساتھ ایک گاڑی کا سودا ہوا تھا ،۔
وہ گاڑی اٹھانے کے لئے جب ٹرک میں بیٹھ کر اس کے ساتھ جا رہا تھا تو اس کے حالات سنے تھے کہ
شراپ پی کر گاڑی چلانے پر لائیسنسن چھن چکا تھا ، ساٹھ پینسٹھ سال کی عمر کے اس بندے کے بہن بھائیوں سے روابط ختم ہو چکے تھے ، اولاد کوئی ہے نہیں تھی اور بیوی چھوڑ کر چلی گئی تھی ، ۔ اس لئے میں نے اس کو کہا کہ میرے پاس رہنے کی جگہ ہے ، جہاں چار پانچ افراد اسانی سے رہ سکتے ہیں ،۔
گرم ٹھنڈا پانی ، کچن ٹوائلٹ کی سہولت بھی ہے
تم وہاں منتقل ہو جاؤ میں چاول اور سبزیاں بھی لے دیا کروں گا،۔
اور شراب چھوڑ کر خود کو بحال کرو
میں تمہارے لائیسنس بنوانے کے لئے بھی پیسے دے دوں گا لیکن تمہاری بحالی کی کوشش دیکھ کر !!،۔
اس لئے میں جانتا تھا کہ تنہائی کا مارا ہوا یہ بندہ اگر میں نہ پہنچا تو سارا دن بھی اور ہو سکتا ہے ساری رات بھی وہیں بیٹھا رہے ،۔
سائیتاما سے کوئی سات گاڑیاں اٹھانے کا پروگرام تھا جن کو ادائیگی کی چا چکی ہے ،۔
اور اس وقت سائتاما سے ہی اٹھائی ہوئی گاڑیاں ٹرک پر لدھی ہوئی بھی تھیں ،۔
میں فوجی اوکا والے یارڈ سے کائی تائی یارڈ پر پہنچا اور ٹرک سے گاڑیاں اتار کر ٹھکانے پر رکھیں ، چند دوسری چیزوں کو ترتیب سے کرنے کے بعد کاواچی والے میک کی طرف چل نکلا ،۔ کاواچی ک پارکنگ میں ٹرک کھڑا کرتے ہی وہ دوسرے دروازے کے پاس کھڑا تھا
اس کو ٹرک پر بٹھایا اور اس کی ہدایت کے مطابق راستہ اپناتے ہوئے منزل کی طرف رواں ہوا ،۔
وہاں دو بہت پرانی گاریاں ، جن کے ٹائیر بھی گل چکے تھے ،کائی سے ان کا رنگ بھی نظر نہیں آ رہا تھا ، پانی کی گزر گاھ اور ایک مکان کے درمیان تنگ سی جگہ پر پڑی تھیں ،۔
ایسی پرانی گاڑیاں عموماً گاڑیوں کے مالک گھوم پھر کا گاڑیاں تلاش کرنے والے کو مفت دے دیتے ہیں اور کئی دفعہ کچھ رقم بھی دے دیتے ہیں کہ ٹرانسپورٹ پر انے والا خرچا بھی تو ہو گا ،،۔
گاڑیاں تلاش کرنے والے نے اگر چہ کہ پیسے لئے ہوں یا نہیں ، میں ان کو گاڑیوں کی قیمت ضرور ادا کرتا ہوں کہ اس طرح یہ لوگ اور زیادہ گاڑیاں تلاش کر کے دیتےہیں ،۔
بہر حال میں نے کرین والا ٹرک سیٹ کیا ، جس سے راستہ بند ہو گیا تھا کہ سامنے سے ایک بندہ چھوٹے ٹرک پر آ گیا ،۔ میں نے کرین کو اندر کرنا شروع کر دیا کہ اس چھوٹے ٹرک والے کو راستہ دینا پڑے گا اور ساتھ ہی اہنے ساتھ آئے جاپانی کو کہا کہ اس کو بات کرو اگر واپس مڑ جائے تو!!،۔
میرے کرین سمیٹنے تک وہ چھوٹے ٹرک والا واپس مڑ گیا ، میں نے دوبارہ کرین سیٹ کی گاڑی (جس کو اٹھانے ایا تھا)کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی جو کہ جام تھا میں دوسری طرف گیا دوسرا دروازہ اسانی سے کھل گیا میں اندر داخل ہونے ہی لگا تھا کہ
چور چور پکارتا ہوا ایک بندہ (جاپانی)آ گیا ، میں نے اس کی شکل دیکھی تو شکل دیکھی ہوئی لگی ،۔
اس نے مجھے کہا میں تمیں جانتا ہوں ، یہ ابھی پولیس پہنچنے والی ہے ، تم ہیں ٹھہرو اب تم نہیں جا سکتے تم پکڑے جاؤ گے ،۔
میں اس کو بتایا کہ میں جس کے ساتھ آیا ہوں اس سے بات کرو ،۔
لیکن بندہ ہتھے سے اکھڑ چکا تھا
بہر حال میں کام چھوڑ کر پولیس کا انتظار کرنے لگا،۔ چند منٹ میں کوئی درجن بھر پولیس والے گاڑیوں میں اور بھاگتے ہوئے پہنچ گئے ،۔
میں نے ہاتھ کھڑے کر دئے کہ میں چور نہیں ہوں ،۔
پولیس والوں نے اس جاپانی سے جو مجھے ساتھ لایا تھا اور مجھ سے علیحدگی میں سوالات شروع کر دئے ،۔
وہ جاپانی جو مجھے ساتھ لایا تھا
اس نے پولیس کو کہا کہ ہاں میں یہ گاڑیاں چوری کرنے ایا تھا
اور ٹرک والے کو اس بات کا کچھ علم نہیں تھا ، سارا قصور میرا ہے ۔
سارا قصور میرا ہے ، اس کو جانے دو !!،۔
پولیس والوں نے اس کو ہتھکڑی لگا لی اور مجھے کہنے لگے کہ ہمارے پیچھے پیچھے پولیس اسٹیشن پہنچو ،۔
اب صرف اس بات کی وضاحت میں کہ میں گھر سے نکل کر کہاں کہاں جا کر اور کیسے کسی وقت کون کون سا موڑ مڑ کر چوری کی سائیٹ پر پہنچا ؟ میں کام کیا کرتا ہوں ؟ میرا طریقہ کار کیا ؟
ان ساری باتوں کو بتانے میں سارا دن گزر گیا اور سارا دن اس بات کا ڈھڑکا لگا رہا کہ پتہ نہیں کب کس بات پر گرفت میں آ جاؤں ،۔
میں جو کہ نہ چور اور نہ چور کا بھائی وال، یہ سوچ سوچ کر نیند اڑی ہوئی ہے کہ اگر یں چوری کے شک میں اندر ہو جاتا تو سار کچھ ختم ہو جاتا تھا ،۔
میرے پاس سوائے مرنے کے اور کوئی آپشن نہیں رہ جاتا تھا ،۔