ہائیا بوسا دو اور ریگجو کا محل ،۔

جاپانی لوک کہانیوں میں ایک محل کا ذکر ملتا ہے ،۔

جس کو  جاپانی زبان میں  رِیگّوُ جو کہتے ہیں ،۔

سمندر کی تہہ میں کہیں واقع اس محل کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہاں سمندر کا خدا ڈریگون ، اس کا خاندان اور نوکر رہتے ہیں ،۔

Khawar khokhar

خاور کھوکھر

سرخ اور سفید رنگ کے گونگوں اور کرسٹل سے بنے اس محل کی چاروں اطراف مختلف نظر آتی ہیں ، یہ چار اطراف زمین کے چار موسموں کی جہتیں ہیں ،۔

اس محل میں گزارا گیا ایک دن زمین پر کے ایک سو سال کے برابر خیال کیا جاتا ہے ،۔

ماضی قریب کی کہانیوں میں اوراشیما تارو نامی ایک مچھیرے لڑکے کی کہانی ہے کہ

اس نے شرارتی بچوں کے ہتھے چڑھے ہوئے ایک کچھوے کی جان بجائی تھی  ،  کچھوا جو کہ سمندر کے خدا ڈریگون کا بیٹا تھا اور کچھوے کے روپ میں زمین کی سیر کو آیا ہوا تھا ، اس نے اوراشیما تارو کو اپنے محل مدعو کیا ، جہاں اوراشیما تارو نے تین دن گزارے تھے م،۔

اورا شیما تارو جب سمندر سے باہر زمین پر آیا تو  یہاں تین سو سال کا وقت گزر چکا تھا ، ہر چیز تبدیل ہو چکی تھی اور اس کی  جنم بھومی میں اس کے سمندر میں ڈوب کر مر جانے کی کہانی  لوگوں کو یاد تھی ،۔

ریِگُو جو نامی اس خیالی محل کو لوک کہانیوں اور روایات کے تخیل میں  جاپان میں تعمیر کیا گیا ہے ،۔

ریگجو کا یہ  تخیلاتی محل کاناگاوا کین کے فوجیسارا میں کاتاسے اے نوشیما اسٹیشن   کے نام سے جانا جاتا ہے ،۔

یعنی کہ ایک ریلوے اسٹیشن کو ریگجو کی شکل میں تعمیر کر رکھ دیا گیا ہے ،۔

دور ، بہت ہی دور خلا میں  زمین سے اٹھائیس کروڑ کلومیٹر دور ایک چٹان تیر رہی ہے ، ایک کلومیٹر کے رقبے کی اس چٹان  کو بھی جاپانی سائینسدانوں نے ریگجو کا نام دیا ہے ،۔

اور اس چٹان کی راکھ کو لانے کے لئے ایک مشن روانہ کیا تھا جو کہ ساڑھے تین سال مسلسل سفر کر کے جون کی ستائیس تاریخ کو اس چٹان پر اترا ،۔

اس مشن کو نام دیا گیا ہے ،۔ ہائیا بوسا دو !،۔

ہائیا بوسا دو اس شدید گرم چٹان پر چند سیکنڈ اتر کر ڈرل سے اس کی راکھ کے نمونے لے گا اور اس کے بعد انے والے ڈیڑھ سال میں دو بار اس چٹان کے نمونے لے کر واپس زمین کی طرف رخ کرئے گا ،۔

جاپانی سائیسدان ہائیابوسا دو کی زمین پر واپسی کی توقع، ٹوینٹی تونٹی یعنی دو ہزار بیس میں کر رہے ہیں ،۔

دور دراز خلا میں تیرتی ہوئی  ریگوجو نامی اس چٹان سے ملنے والی راکھ کے نمونوں سے نظام شمسی کی پیدائیش کے عمل کو سمجھنے میں مدد ملے گی  ،۔

یاد رہے

اس سے پہلے ہائیابوسا نامی مشن جو کہ اس سے پہلے اپنا سات سال کے عرصے میں کوئی چھ ارب کلومیٹر کا سفر طے کر کے  دوہزار دس میں زمین پر اترا تھا اس مشن میں ایتوکاوا نامی خلا میں تیرتی ہوئی ایک چٹان کے نمونے حاصل ہوئے تھے ،۔

تحریر خاور کھوکھر

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.